تحریر : قرة العین ملک ماہ فروری میں یوم یکجہتی کشمیر سے قبل پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کشمیری اور پاکستانی سیاسی قیادت کا پانچ بڑے ممالک، یورپی یونین، او آئی سی، دولت مشترکہ کے سفیروں کے ساتھ مشترکہ اجلاس بلانے کا اعلان کر تے ہوئے واضح کیا کہ دلیل کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کا مقدمہ لڑنا ہوگا، مفاد کی بنیاد پر بات کرنے سے اپنا موقف کمزور کریں گے۔ کیا وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے۔ بھارت نئی دہلی کی سیاست کو سرینگر میں داخل کرنے اور مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ بھارت اگر اپنی اقتصادی نشوونما چاہتا ہے تو اسے کشمیریوں کے دلوں کو جیتنا ہو گا، اپنے ہاتھ سے اپنی معاشی ترقی کی گاڑی کی لگائی گئی ہینڈ بریک کو ہٹانا ہو گا۔ سلامتی کونسل کی رکنیت کا خواب دیکھنے والا بھارت کشمیریوں کو استصواب رائے دینے کا نہرو کا وعدہ پورا کرے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق بھی اور وکیل بھی ہے کشمیریوں نے اس مسئلے کے لیے جان عزت و آبرو کی قربانیاں دی ہیں خون سے تحریک آزادی کو زندہ رکھا ہے، پاکستانی قوم اس کے شانہ بشانہ ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل نہ کرنے والا ملک مستقل نشست کا خواب دیکھ رہا ہے، کشمیر کے معاملے میں بین الاقوامی برادری مداخلت کرے، مسئلہ کشمیر کا حل استصواب رائے میں ہے،
جب سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہو سکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ کشمیر پاکستان کے لئے ناگزیر، اس پر پاکستان کا موقف اصولوں پر مبنی ہے، عالمی برادری مسئلہ کشمیرپرکیوں گونگی اوربہری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی سے مسئلہ انتہائی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کشمیری قوم بھارتی تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔کشمیریوں کی آہ و بکا کو کیوں نہیں سنا جا رہا؟ عالمی برادری آج تک اس مسئلے سے کیوں عہدہ برآ نہ ہو سکی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کیوں نہ کرا سکی۔ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قرارداد پر عالمی برادری کیوں خاموش ہے عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عہد کی پاسداری کرے۔ہم صرف بھارت سے احتجاج کرتے ہیں صرف بھارتی رویہ کے حوالے سے دبائو ڈالتے ہیں اسے بھی اجاگر کریں کہ عالمی برادری کیوں خاموش ہے وہ اپنا فرض پورا کیوں نہیں کر رہی بلکہ اپنا فرض پورا کرنے کے بجائے عالمی برادری بھارت کے ساتھ معاہدے کر رہی ہے جو ظلم میں تعاون کے مترادف ہے۔ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے امریکہ کی مکمل آشیرباد حاصل ہے، وہ اقوام متحدہ کی قراردادیں تسلیم نہیں کرتا،
پاکستان کے ساتھ اس مسئلے پر مذاکرات بھی نہیں کرنا چاہتا، بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کر رہا ہے۔ پوری دنیا کشمیر کو متنازعہ خطے تصور کرتی ہے، بھارت نے اسے اٹوٹ انگ قراردیتے ہوئے آئین میں ترمیم کی، اس معاملے میں بھارت تنہا ہوگیا۔ کشمیری عوام کی ضمیر کی آواز ہے اسے اپنے ضمیر کی آواز بنا کر پاکستان کشمیر کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ بھارت کشمیر کو ہندومسلم کی بنیاد پر تقسیم کر رہا ہے۔ اشارے مل رہی ہے کہ بی جے پی محبوبہ مفتی کے ساتھ ملکر کشمیر میں حکومت بنانے جا رہا ہے جس سے کشمیر کے حالات کو نئی جہت ملے گی۔ بھارت نئی دہلی کی سیاست کو سرینگر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا مذاکرات معطل کرنا بلاجواز ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات کا انحصار مسئلہ کشمیر پر ہے۔ خارجہ پالیسی کے تحت مسئلہ کشمیر پر کامیاب حکمت عملی ترتیب دے کر کشمیریوں کو مشکلات سے نکالا جائے، کشمیر کاز کا تحفظ اسے کامیاب نتیجہ تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اس وقت انتہائی حساس صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ حکومت اور عوام کے تمام طبقوں کو ساتھ ملا کر مظلوم کشمیریوں کے حق میں بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے۔
Jamat ud Dawa Protest
جماعةالدعوة 5فروری کو پانچوں صوبوں و آزاد کشمیر میں ہر ضلع و تحصیل کی سطح پر کشمیر کارواں، جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کرے گی۔ حریت کانفرنس سمیت ملک بھر کی مذہبی و سیاستی قیادت کو پروگراموں میں شریک کیاجائے گا۔ یوم یکجہتی کشمیر پر کروڑوں پاکستانی سڑکوں پر نکل کر مظلوم کشمیریوں سے اظہا ریکجہتی کریں گے۔ ہیومن رائٹس واچ نے افسپا کی منسوخی یا فوری ترمیم کی وکالت کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پر جملہ حقوق انسانی کے وعدوں کی پابندی پر زور دیا ہے، امریکی صدر باراک اوبامہ کے 3 روزہ دورہ ہند کے 2 روز بعد امریکی نشین بین الاقوامی حقوق انسانی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے بھارت میں حقو ق انسانی کی صورتحال کے حوالے سے 656 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ جاری کر دی ہے، اپنے 25ویں ایڈیشن کے تحت جاری رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کنیتھ راتھ نے بھارت سمیت 90 ممالک کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ حقوق انسانی کی پاسداری سے متعلق وعدوں اور معاہدوں کی پابندی کو یقینی بنائیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 90 ممالک میں گزشتہ برس یعنی سال 2014ء میں حقوق انسانی پامالیوں اور خلاف ورزیوں کے بے شمار واقعات پیش آئے
جبکہ مختلف ممالک میں ایسے قوانین نافذ ہیں جو شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ شہریوں کیلئے عدم تحفظ کا موجب بنے ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے واضح کیا ہے کہ بھارت کی مختلف ریاستوں بشمول جموں و کشمیر میں متنازعہ قانون افسپا کے جاری رہنے کی وجہ سے حقوق انسانی کے تحفظ کے حوالے سے اٹھائے جارہے اقدامات مثبت دکھائی نہیں دیتے۔ ہیومن رائٹس واچ نے افسپا کی منسوخی یا اس متنازعہ قانون میں ترمیم کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کے تحت فوجی و فورسز افسروں کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں اور اسی وجہ سے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے واقعات پیش آتے ہیں۔ افسپا کی منسوخی یا اس متنازعہ قانون میں ترمیم کر کے نہ صرف یہ کہ حقوق انسانی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ لا محدود اختیارات کی وجہ سے غلطیاں سرزد کرنے والے سیکورٹی افسر اور اہلکار بھی جوابدہ بن سکتے ہیں، ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیاء میناکشی گانگولی نے رپورٹ پر رائے زنی کرتے ہوئے مزید بتایا ہے کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاؤرس ایکٹ کی وجہ سے بنیادی شہری حقوق متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت جیسے جمہوری ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔ حقوق انسانی پامالیوں کے مرتکب سیکورٹی افسروں یا اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنا ایک جمہوری ملک کو زیب نہیں دیتا،
Law
اس لئے مودی حکومت کو افسپا کی منسوخی یا اس قانون میں فوری ترمیم کے حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ حقوق انسانی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کے مرتکب سیکورٹی افسروں اور اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے، ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں سمیت دیگر کئی ریاستوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ افسپا کی وجہ سے کئی ریاستوں میں حقوق انسانی کی صورتحال سنگین بنی ہوئی ہے کیونکہ ان ریاستوں میں تعینات سیکورٹی ایجنسیوں سے وابستہ افسر اور اہلکار لامحدود اختیارات کا غلط استعمال کرنے کے مرتکب ہوجاتے ہیں، ہیومن رائٹس واچ نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پر زور دیا ہے کہ وہ جملہ حقوق انسانی سے متعلق وعدوں کے ساتھ ساتھ حقوق البشر کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات اٹھائیں تاکہ مختلف نوعیت کی حقوق البشر پامالیوں اور خلاف ورزیوں کے واقعات بھارت جیسے جمہوری ملک کی بدنامی کا باعث نہ بنیں نیز ملک کے تمام علاقوں اور ریاستوں کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بن سکے۔