تحریر : کامران لاکھا جامپور جام پور کی آبادی لاکھوں نفوس پر مشتمل ہے یہ وہ تحصیل ہے جو خزانے کو سالانہ کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں دے رہا ہے جام پور کی زمین انتہائی زرخیز ہے اور پاکستان مین زیادہ تر اس تحصیل جام پور کاشت ہوتا ہے اور یہ تمباکو ملک کے طول وار کے شہروں تک جبکہ افغانستان بھی جا رہا ہے تمباکو کے ٹیکس تقریباً کروڑوں روپے سالانہ حکومت کو ملتاہے اور اس تحصیل میں تمباکوکی سینکڑوں فیکٹریاں موجود ہیں اور اگر تمباکو کے ٹیکس کی رقم اس تحصیل پر خرچ کریں تو یہ تحصیل لاہور کے برابر آجائے گا قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس شہر کے باسیوں نے خادم اعلیٰ سے اتنا محبت ہوا شائد اتنا محبت لاہوروالوں کو بھی نہیں تھا، گزشتہ جنرل الیکشن میں جب خادم اعلیٰ حلقہ 247 پی پی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو عوام خوشی سے نڈال ہوگئے کہ خدا نے جامپور والوں کا تقدیر بدلنے کی دعا منظور کی اور خادم اعلیٰ نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی اور عوام نے ووٹوں کی بارش کر دی بعدازاں یہ سیٹ چھوڑدی اور جام پور تحصیل کو لاہور کے برابرلانے کیلئے لغاری اور گورچانی سرداروں نے عوام کو خوشخبری دی کہ جام پورپانچ ارب روپے کا میگا پیکچ منطور ہوا ہے اور جام پور کی تقدیر بدل جائے گی اور جام پور شہر لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں شمار ہو گا لیکن بدقسمتی سے یہ پانچ ارب روپے کا پیکچ گزشتہ ڈیڑھ سال سے عوام کیلئے خواب بن گیا
گزشتہ عوام پانچ ارب روپے کے پیکج منتظر ہیں جام پور شہر کا وہی حال ہے جو اس سے پہلے تھا پچھلے 2008 کے الیکشن میں یہاں سے سردار شیر علی خان گورچانی منتخب ہوئے انہوں شہر کی کچھ سڑکیںاس کے بعد کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا شہر کے گلی محلے جوہڑات کے منظر پیش کر رہے ہیں اورکسی بھی ملک کیلئے تعلیم ،صحت اورن امن و امان لازمی ہے بدقسمتی سے اس تحصیل کی عوام کو ناتو صحت کی کوئی سہولیات ہیں اور نہ ہی سرکاری سکولوں غریبوں کیلئے اچھی تعلیم اور نہ ہی عوام کی جان و مال کی حفاظت اکثر کالونیوں میں سیوریج نظام نہ ہونے کی وجہ سے گندے پانی زمین میں جذب ہوکر شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں جن میں ہیپاٹائٹس C,B اور دیگر موذی امراض شامل ہیں صحت کا یہ حال ہے کہ تحصیل کے تمام ہسپتالوں میں علاج معالجہ نہ ہونے کے برابر ہے اور نہ ہی ڈاکٹر اپنی ڈیوٹیوں پر جاتے ہیں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال جام پور تو یہ حال ہے کہ بچوں کے حفاظتی ٹیکوں تک موجود نہیں اور نہ ہی ہسپتال عملہ اور محکمہ صحت اس طرف توجہ دیتے ہیں اور اکثر ڈاکٹروں نے اپنے پرائیویٹ کلینک کھول رکھے ہیں اور سرکاری ہسپتال میں غریب کا علاج نہ ہونے سے غریب مہنگے علاج کرنے پر مجبور ہیں جب ایم ایس تحصیل ہیڈکوارٹر سے پوچھتے ہیں کہ یہ حالت سرکاری ہسپتال کا کیوں ہے اور ڈاکٹر ڈیوٹیوں پر موجود نہیں تو ان کا جواب ہے کہ سیاسی دور ہے گزشتہ دنوں ایم ایس سمیت کئی ڈاکٹروں کو معطل کیا گیا
تو سیاسی اقائوں نے رات ہی رات ان کو واپس بحال کر دیا تعلیم کا یہ حشر ہے کہ سرکاری سکولوں میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے غریب لوگوں کے بچے ڈگریاں ہاتھوں میں لیکر پڑتے ہیں اور امیر کے بچے اعلیٰ پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرکے اچھے پوسٹوں پر آجاتے ہیں تحصیل جام پور کے دور دراز علاقوں میں تو استاد سکول میں آتے ہی نہیں اور تنخواہوں کے دن تنخواہ لینے کیلئے آتے ہیں جبکہ امن و امان کا یہ حال ہے کہ آئے روز چوریاں اور دیگر جرائم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے تحصیل جام پور کی آباد ی تقریبا ً لاکھوں میں ہے اس تھصیل میں تقریباً چھ تھانے اور ایک چوکی موجود ہے جس میں ملازمین کی کل تعداد اندازاً 250 ملازمین کے قریب ہے جوکہ آباد ی کے لحاظ سے ناکافی ہے اجس کی وجہ سے جرائم میں اضافہ کا سبب ہے اور پولیس کے تنخواہیں بہت کم ہونے کی وجہ سے تھانوں میں رشوت عام ہے
Police
پولیس ملازمین دن اور رات ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں جو کہ ان کی صحت کیلئے بہت خطرناک ہے جام پور شہر کی سٹی تھانے کا یہ حشر ہے کہ ان کی عمارت انتہائی بوسیدہ ہے اور تھانہ کی پچھلی طرف دیگر محکمہ جات کے دفاتر موجود ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا آنے جانے کا راستہ تھانہ ہے اور کسی بھی وقت ناخوشگوار واقعہ ہونے کا خدشہ ہے اور امن وامان کو قائم کرنے کیلئے پولیس سے رشوت ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ان کے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور ڈیوٹی ٹائم کم کیا جائے تھانوں میں ایماندارآفیسران تعینات کی جائیں انسپکٹر احمد علی بخاری ،اشرف قریشی ، حاجی نذر سنجرانی ، ڈی ایس پی جاوید جتوئی جیسے آفیسران محکمہ کیلئے ایک مثال ہے اور جام پور شہر میں غیر قانونی ٹائونزکی بھر مار ہے اوررشوت کی وجہ سے حکومت کے خزانے کو سالانہ کروڑوں روپے کا جھٹکا لگتا ہے اور مافیا متحرک ہے اوررشوت کی وجہ سے ان ٹائونز کی غیر قانونی رجسٹریاں اور انتقالات جاری و ساری ہیںجبکہ حکومت پنجاب نے ان ٹائون کے انتقالات اوررجسٹریوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن مالکان بااثر اور سیاسی اثر ورسوخ رکھنے کی وجہ سے قانون کو پائوں تلے روندھتے ہیں ہر ملک کیلئے زراعت ایک ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے
ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے بدقسمتی سے جام پور میں کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے سرکاری محکمے ہوں یا پھرزرعی دکاندار ہوں لوٹ رہے ہیں دو نمبر ادویات اور کھاد کی وجہ سے کسانوں کی فصلات تباہ ہو رہی ہیں اور کبھی کھاد کو چھپا کر دکاندار بلیک میں فروخت کر رہے ہیں لیکن محکمہ زراعت کے اہلکاروں کو ان کے گھروں میں ان مافیا کومنتھلی دیا جاتا ہے محکمہ زراعت والے آفیسران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیںاور یہ حال محکمہ انہار کا بھی ہے اور محکمہ انہار میں کرپشن اور رشوت کا یہ حال ہے کہ ایس ڈی او ز دفتروں کی بجائے گھروں میں بیٹھ کر اپنے لاڈلوں سے اپنے فرائض سرانجام دلا رہے ہیں اور ناجائز موگوں کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں اور ان کے لاڈلے سارا دن علاقوں میں چکر لگاتے ہیں اور کاشت کاروں کے پانی کورشوت لیکر چور ی کے نظر کر دیتے ہیں اور ٹائیل تک پانی پہنچنا کاشت کاروں کیلئے خواب بن جاتا ہے جبکہ امیر ،زمیندار ، رشوت دیکر ناجائز پانی کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ نہروں کی بھل صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نہریں سکڑنے لگیں اور نہروں کے کروڑوں روپے کی زمینوں پر بااثر زمینداروں کا قبضہ ہوچکا ہے
یہ کام محکمہ انہار ایما پر جاری ساری ہے۔ نہروں کے کناروں سے اس وقت تک ہزاروں مٹی کی ٹرالیا ں زمیندار اپنے کھیتوں یا تعمیراتی کاموں میں ڈال رہے ہیں مبینہ طور پر محکمہ انہار کے کیایس ڈی نے فی ٹرالی ریٹ مقرر کرکے نہروں کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیںمیونسپل کمیٹی کے عملے کا یہ حال ہیں کہ شہر کی تمام گلیاں،نالے ،کالونیاںصفائی نہ ہونے جوہڑات کے منطر پیش کر رہے ہیں حالانکہ شہریوں پر سالانہ میونسپل کمیٹی والوں نے ٹیکس بھی مقرر کر رکھا ہے حالانکہ صفائی والے خاکروب گلی محلوں کی بجائے بااثر افراد گھروں میں ڈیوٹیاں دے رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمامحکموں کے اعلیٰ آفیسران اور انکی حفاظت ،صحت تعلیم اور دیگر مسائل پر توجہ دی جائے۔