لاہور ۔ ذہنی امراض کی روک تھام کیلئے سماجی اور معاشی ناہمواریوں کو ختم کرکے انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے، تعلیم و صحت کے شعبوں کی ترقی اور بے روزگاری کے خلاف سخت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار عالمی یوم ’’ذہنی صحت‘‘ کے موقع پر ادارہ برائے ذہنی صحت میں منعقدہ سیمینار سے مختلف مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
ان مقررین میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مبشر ملک، سپیشل سیکرٹری صحت جواد رفیق، آئی اے رحمن، منوبھائی، ڈاکٹر عارفہ سیدہ ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ادارہ برائے ذہنی صحت ڈاکٹر نصرت حبیب رانا، وقارمصطفی اور دیگر دانش ور اور ماہرین شامل تھے ۔
پروفیسر مبشر ملک نے کہا کہ ہماری سماجی اقدار کمزور پڑگئی ہیں اور مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نفسیاتی الجھنیں اور ذہنی مسائل دیگر جسمانی امراض کو جنم دیتے ہیں ۔ انہو ںنے کہا کہ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جدید ترقی کے ثمرات ایک عام آدمی کے گھر تک پہنچے ہیں یا وہ ابھی محرومیوں کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2020 ء تک دنیا میں ڈپریشن کی بیماری موت کی دوسری بڑی وجہ بن جائے گی۔ انہو ںنے کہا کہ معاشرے کا ہر چوتھا فرد نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔
ڈاکٹر عارفہ سیدہ نے کہا کہ سادہ اور آسان زندگی گزارنے کے لئے معاشرے میں اعتدال پسندی کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ منوبھائی نے کہا کہ خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے، جہالت اور غربت کو ختم کرکے ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صحت کی سہولیات عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی اے رحمن نے کہا کہ صنفی امتیاز کو ختم کئے بغیر معاشرے سے ذہنی امراض کا خاتمہ ممکن نہیں۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سپیشل سیکرٹری صحت جواد رفیق نے کہا کہ حکومت نے صحت کی جدید سہولیات عام آدمی تک پہنچانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے ہیں اورلوگوں کو ہسپتالوں میں تشخیصی سہولیات کے ساتھ ساتھ ادویات بھی مفت فراہم کی جا رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نفسیاتی اور ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کے علاج معالجہ پر بھی بھرپور توجہ دی جا رہی ہے ۔ انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کی کوششوں کو سراہا جو وہ مریضوں کی فلاح و بہبود کیلئے انجام دے رہے ہیں ۔ انہو ں نے یقین دلایا کہ حکومت اس مقصد کے لئے ہر قسم کا تعاون کرے گی ۔