ڈینگی بخار کے باعث ہر سال بیس ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے پانچ کروڑ افراد اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے تقریبا بیس ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ڈینگی فیور پاکستان، سمیت ایشیا کے دیگر ممالک کے علاوہ افریقہ، آسٹریلیا اورشمالی امریکہ کے کئی علاقوں میں پائی جانے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں ہر سال لاکھوں مریض مبتلا ہوتے ہیں اور اگر بروقت اور صحیح تشخیص نہ کی جائے تو مریض اس بیماری کی وجہ سے جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتا ہے۔
ڈینگی بخار یعنی ڈی ایف اور ڈینگی ہیمُرجیک بخار یعنی ڈی ایچ ایف، دونوں ایک دوسرے سے قریب ترین بیماریاں ہیں جو فلیوی وائرس سے پیدا ہونے والے انفیکشنز ڈی ای این، ون، ٹو، تھری اورفور کی صورت پیدا ہوتی ہیں۔
مچھر ڈینگی فیور کا باعث بنتا ہے
اگر انسانی جسم ایک بار کسی ایک انفیکشن کو شکست دے دے تو پھر تمام عمر وہ وائرس جسم کو متاثر نہیں کرسکتا یعنی اگر ڈی ای این ون کو مریض کے جسم نے شکست دے دی تو پھر وہ شخص تمام عمرڈی ای این ون کا شکار نہیں ہو گا تاہم اس پر ڈی ای این ٹو، تھری اور فور حملہ کر سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ بیماری، وائرس کی حامل مادہ مچھر Aedes کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے مگر متاثرہ مریض کو کاٹنے والے مچھر دوسرے افراد تک اس وائرس کی منتقلی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی یہ بیماری خون میں موجود اعتدال کو توڑ دیتی ہے اسی وجہ سے اس بیماری کو طبی ماہرین ہڈی توڑ بخار بھی کہتے ہیں۔
اگر بر وقت اس بیماری پر قابو نہ پایا جایا تو یہ وائرس خون میں موجود سفید خلیوں کی تعداد انتہائی کم کردیتا ہے جس کی وجہ سے بلڈ پریشر کا کم ہونا اور انسان کا صدمے کی حالت میں آ جانا سامنے آتا ہے۔ عمومی تشخیص کے طور پر ایسے مریضوں کا خون کی بوتلیں لگائی جاتی ہیں اور زیادہ خراب صورت حال میں جسم میں خون کے سفید خلیے داخل کئے جاتے ہیں۔
کئی ممالک میں موسم گرما سے قبل سپرے اور مچھر مارنے والی ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے-
اس بیماری کے شکار مریضوں کو جوڑوں کی شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ ساتھ نزلے اور زکام کی موجودگی اس مرض کی ایک اور عمومی نشانی ہوتی ہے۔
اس مرض کا باعث بننے والے مچھر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مچھر عموما صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے اور صرف صبح اورشام کے اوقات میں کم سخت دھوپ میں جاگ کر اس وائرس کی انسانی جسم میں منتقلی کا باعث بنتا ہے۔
Dengue Risk Global
اس بیماری کی دریافت دوسری عالمی جنگ کے بعد 1950 میں ہوئی۔ عالمی جنگ میں کئی فوجیوں میں ایسی علامات دیکھی گئیں تھیں جو اس سے پہلے کسی عام بخار میں سامنے نہیں آئی تھیں مزید یہ کہ اس بیماری میں بخار ختم کرنے کے لئے دی جانے والی ادویات کا بھی اثر دکھائی نہیں دیا بلکہ مرض اوربڑھ گیا۔
ہر سال پانچ کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں
آسٹریلیا کے محقیقین نے ڈینگی بخار پر قابو پانے میں اہم پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ کے ماہرین بل گیٹس فاﺅنڈیشن کے تعاون سے ڈینگی بخار پر قابو پانے کے لئے تحقیق میں مصروف ہیں۔ اس تحقیق کےلئے بل گیٹس نے کئی ملین ڈالرز کی امداد فراہم کی ہے۔
محققین کے مطابق بیماری پر قابو پانے کےلئے بیکٹیریا سے متاثرہ مچھروں کی عمر کو کم کرنے کےلئے اقدامات کئے جائیں گے اور اس سلسلے میں مچھر مار سپرے اور دیگر کیمیکلز کے استعمال کی بجائے قدرتی طریقوں سے مچھروں کی حیاتیاتی عمر کم کی جائے گی۔
ماہرین کی ٹیم کے سربراہ پروفیسر سکاٹ اونیل نے بتایا کہ ڈینگی بخار کے وائرس زیادہ عمر کے مچھروں میں نمو پاتے ہیں اور بیماری پر قدرتی طریقے سے قابو پانے کےلئے ضروری ہے کہ ایسے مچھروں کی عمر کم کی جائے۔
یہ تحقیق جنرل سائنس نامی میگزین میں شائع ہوئی ہے۔ تحقیق کے دوران زیادہ عمر کے تقریباً 10 ہزارمچھروں پرتجربات کئے گئے۔