تحریر : کامران لاکھا میں دنیا کے کسی کونے میں موجود ایک ملک کے صوبہ، ضلع، تحصیل یا شہر میں گلی یا محلے میں بسنے والا ایک فرد توہوں مگر اس سے آگے کیا ہوں؟ یہ سوال ابھی باقی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کرناکہ میں طول بلد یا عرض بلد کے کونسے درجے پر ہوں ؟اور نہ یہ کہ میرے ارد گرد کون کونسے ممالک ہیں یا ان ممالک کے ساتھ میرے ملک کے کیسے تعلقات ہیں مہنگائی کے خلاف احتجاج ہو تو میں سب سے آگے ، پٹرول کا بحران ہو تو توڑپھوڑ میں سب سے آگے میں( چاہے میرے پاس صرف ٹوٹی سائیکل بھی نہ ہو)یا کسی حکومت کے خلاف دھرنا ہو تو کم از کم پہلی صف میں تو میری موجودگی ضرور ہوتی ہے۔یہ بات تو چلو کسی حد تک سمجھ بھی آ تی ہے کہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہوں ،کچھ نہ کچھ تو ضرور حاصل ہوگا۔ لیکن میں جب اپنے آپ پر غور کرتا ہوں اپنے آپ کو تقسیم در تقسیم دیکھتا ہوں۔پہلے پہل تو دیکھتا ہوں کہ مجھ پر صوبائیت کا بھوت سوار ہے کہ میں فلاں، فلاں صوبے کا ہوں۔ پھر اس صوبے کے فلاں حصے سے ہوں۔
قومیت کی تقسیم بھی میرا مقدر بنتی ہے۔یعنی میں بلوچ ہوں، سرائیکی ہوں،پنجابی،سندھی،پٹھان یا مہاجر ہوں۔بلوچ ہوں تو کونسا ؟رند،گورچانی،جسکانی،کھلیانی، لغاری، لشاری،چانگ،گوپانگ یا اس بھی اوپر کونسی اونچی ذات کا ہوں؟سرائیکی ہوں تو قریشی،دریشک،بھٹہ ،مرہٹہ ،گاذر ،گبول یا کوئی دوسرا؟ پھر کونسا پنجابی ہوں؟چوہدری ،گجر، ارائیں، ملک یا اسی طرح سندھی،پٹھان اور مہاجروں کے اندر کے کون کونسے طبقے سے ہوں؟سید کی بات تو نہیں کروں گا کیونکہ وہ تو ہے بھی آلِ رسول اگر اصل سید ہو تو ورنہ آج کل تو ہر “دم “کرنے والا اور لمبی تسبیح والاسیدبنا پھرتا ہے۔بات اگر یہاں تک رُک جاتی تو کسی حد تک ٹھیک تھا۔مگر جو تقسیم کا سلسلہ ہے وہ اس سے بھی آگے ہے۔
اﷲ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے ایک مسلمان کے گھر سانس لینے کا موقع تو دیا لیکن اس کے بعد میں کیا ہوں؟ پھر فرقہ واریت کی تقسیم آتی ہے یعنی میرا تعلق اہل تشیع سے ہے یا اہلسنت سے؟اگر اہل تشیع سے ہوں تو کونسا ؟ زیدی شیعہ یا اثنا عشری اور اگر اہلسنت سے ہوں توآگے کیا ہوں؟ بریلوی، نقشبندی، دیوبندی، اہلحدیث ہوں یا کسی او ر مذہبی جماعت سے میرا تعلق ہے ؟ اتنے فرقوں میں تقسیم ہونے کے بعد بھی اس کے اندر کوئی اور تقسیم ہو تو میں اس کا حصہ بننے کے لیے بھی تیار ہوں۔ طبقاتی تقسیم اس کے علاوہ ہے ۔ اگر نہیں ہے تو مجھ میں رحم نہیں ہے ،دل میں کسی کا احساس نہیں ،کسی کی پرواہ نہیں اور کسی بھوکے کا خیال تو بالکل ہی نہیں ہے۔رہی عبادتِ خدا تو میرے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟اور کبھی وقت مل بھی جائے تو میرے کپڑے خراب ہوتے ہیں، کبھی نیند تو کبھی تھکاوٹ ہوتی ہے یا کوئی اور بہانہ میرے دامن میں ضرور ہوتا ہے۔
ALLAH
ایک مرتبہ میں نے ایک بہت بڑی کانفرنس میں شرکت کی۔ بڑی تقریریں ہوئیں۔ آغاز بھی کلام اﷲ سے ہوا اور نعتیں بھی خوب سُر لگا کر پڑھی گئیںیعنی ایک ایمان افزاء کانفرنس تھی۔احساس ،روا داری، حسنِ سلوک، سیرتِ محمدوا لِ محمد ، کچھ خاص اصحاب کے چند واقعات اور وحدتِ اسلامی پر لب کشائی کرنے والے مقررین نے خوب داد سمیٹی۔ہر طرف خوب واہ واہ ہوئی،نعرے بھی لگائے گئے اور تصویریں بنانے والوں نے بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔کانفرنس کے اختتام پر ایک دوسرے کو کامیاب پروگرام منعقدکرانے پر مبارکبادیں بھی دی گئیں۔آخری مرحلہ لنگرونیازکا تھا۔سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دو،دو بلکہ تین،تین بار بھی اس لنگر سے مستفید ہوئے۔
کسی کو چھپا چھپا کر بھی دیا گیااورکچھ سپیشل لوگوں کے لیے سپیشل کھانا بھی موجود تھا۔مگر نہیں ملا تو کونے میں کھڑی ان دو عورتوں کونہیں ملا ، جن کے لباس میلے اور چہرے پر بھوک اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے ،جو اس”عظیم الشان” کانفرنس کے آ غاز سے ہی اس مخصوص مرحلے کے انتظار میں کھڑے کھڑے تھک کر آخر کار دروازے پر ہی بیٹھ گئی تھیں۔ اس کانفرنس کے اختتام پر باہر نکلنے والے اور پوری کانفرنس میں صرف واہ واہ کرنے والے کسی ایک آ دمی کو بھی ان کا احساس نہیں ہوا،
بلکہ بعض عقلمند و دانا افراد نے ان دونوں کو “پیشہ ور بھکارن” کے اعزازی لقب سے بھی نوازا اور چلتے بنے ۔ وہ دونوں عورتیں دروازے پر کھڑی حسرت سے باہر نکلنے والوں کے ہاتھوں میں وافر کھانے کے ڈبوں پر تو کبھی ان کے ہنستے ہوئے نورانی چہروں پر دیکھتی رہ گئیں۔میں یہ منظر دیکھ کر حیران کھڑا سوچتا رہا کہ آ خر میں تقسیم در تقسیم ہونے کے بعد شاید آج واقعی انسان نہیں رہا اور میرے لیے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔