بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سیاست تجارت سمجھ کرکی جاتی ہے اور ہمارا ہر تاجر سیاستدان کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنا نفع نقصان دیکھتا ہے پھر وہ کوئی عمل کرتا ہے۔ ویسے تو ہمارئے ملک کا ہر سیاستدان ایک سیاسی تاجر ہے لیکن اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف ملک کے سب سے بڑئے سیاسی تاجر ہیں، وہ ہر اُس کام کےلیے تیار رہتے ہیں جس سے اُنکو سیاسی فائدہ ہو، یہ ہی سیاسی فائدئے آگے چلکر اُنکے لیے مالی فائدہ بن جاتے ہیں۔
وہ عمران خان سے ملنے بنی گالہ پہنچ گے تاکہ عمران خان کی سیاسی مخالفت کو کم کرسکیں، اس میں کامیاب نہ ہوئے تو مولانا فضل الرحمان کی خواہش کوپورا کیا اور مولانا اور اُنکے ساتھیوں کو وزارت دیں تاکہ مولانا فضل الرحمان عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے دھرنوں کے خلاف بھرپور طریقے سے کام کریں جو مولانا اور اُنکی پارٹی نے دھرنے ختم ہوجانے کے باوجود جاری رکھا ہوا ہے۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران جب نواز شریف سیاسی طور پر ناکام ہونے لگے تو اپنے گروُ آصف زرداری کو کھانے پر بلالیا اور صرف ستر کھانوں سے اُن کی تواضع کی۔
سولہ دسمبر 2014ء پاکستان اور انسانیت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس کا سوچکر ہر ماں اور باپ غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ پھولوں کے شہر کا تشخص رکھنے والے شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور 132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔ 132 طلباء کی شہادت یقیناًایک قومی المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس واقعہ نے پورئے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد نواز شریف نے پشاور پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔
دوسری طرف صوبہ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو چار ماہ سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیئے بیٹھے تھے اور جس میں عام لوگوں کی شرکت روز بروز کم ہورہی تھی پشاور سانحہ سے پورا فائدہ اٹھایا اور بنی گالہ سے پشاور پہنچ گئے، یہ بات نوٹ کی گئی کہ موصوف کو اپنے گھر سے نکلنے میں پانچ گھنٹے لگ گئے۔
پشاور روانگی سے قبل عمران خان نے نواز حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیااور اُسکے ساتھ ہی 18 دسمبر کو ہونے والےملک گیر احتجاج کو بھی منسوخ کردیا۔ 17 دسمبر کو نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرس بلائی جس میں دہشتگردوں کے خلاف بہت سارئے فیصلوں پر ساری سیاسی پارٹیاں متفق ہوگئی تھیں جو اب نہیں ہیں۔
سترہ دسمبر کی شام عمران خان نے واپس اسلام آباد پہنچ کر دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ کور کمانڈر پشاور نے بتایا کہ کیا حالات ہیں، جو دہشت گردی ہوئی ہے اس میں سرحد سے باہر سے بھی فورسز بھی ملوث ہیں ہم نے بات چیت کی کہ ان حالات میں ہم کیا کریں، ملک کی یہ ضرورت ہے کہ ساری قوم اکھٹی ہو، اور کیا اس وقت میں ہم اپوزیشن کریں اور دھرنے میں بیٹھے رہیں، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آج جو پاکستان کے حالات ہیں
ان حالات میں ہمیں دھرنا ختم کرنا پڑے گا۔‘ دھرنا ختم کرکے عمران خان جب جانے لگے تو اُنکے کارکن اُنکی گاڑی کے آگے لیٹ گے اور دھرنا ختم کرنے پراحتجاج کیا، لیکن عمران خان بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ دھرنا ختم کرنے میں ہی اُنکا سیاسی فائدہ ہے۔ نواز شریف نے سانحہ پشاور سے پوری طرح سیاسی فائدہ اٹھایا، جس دھرنے اور جلسوں کو نواز شریف پورئے پارلیمینٹ کو ساتھ ملاکر نہ ختم کرسکے اُسکو پشاور میں ہونے والی دہشتگردی نے گھنٹوں میں ختم کردیا۔ نواز شریف اور عمران خان ہیں تو دونوں ہی طالبان نواز اور طالبان دہشتگردوں کی دہشتگردی کی وجہ سے دونوں کو ہی سیاسی فائدہ ہوا۔ باقی سیاسی سوداگروں نے بھی اس سانحہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
ایک اندازئے کے مطابق دو کڑوڑ کے قریب انسانوں کا شہر بدنصیب کراچی جو گذشتہ 25 سال سے لاقانونیت کا شکار ہے، دنیا کے چند بڑئے شہروں میں آتا ہے، ملک کا معاشی حب ہے لیکن وہ کونسا جرم ہے جو اس شہر میں نہیں ہوتا، اب کچھ عرصے سے ایک نیا سلسلہ یہ شروع ہوا ہے لوگوں کو پہلے غائب کیا جاتا ہے اور کچھ دن بعد اُنکی لاش کہیں پڑی ہوئی ملتی ہے۔
Altaf Hussain ,Asif Zardari
صوبہ سندھ میں دو بڑی سیاسی قوت ہیں، ایک پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری متحدہ قومی موومینٹ (ایم کیو ایم)۔ سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جبکہ ایم کیو ایم حزب اختلاف میں ہے۔ الطاف حسین اور آصف زرداری تو اب بھی بھائی بھائی ہیں، لیکن قائم علی شاہ اور فیصل سبزواری کی لڑائی چل رہی ہے جس کا سیدھا سیدھا نقصان عام لوگوں کا ہوتا ہے۔
کچھ دن پہلے موچکو تھانے کی حدود سے ایک شخص کی لاش ملی جسے گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا بعد میں مقتول کوسہیل احمد ولد شعیب احمد کے نام سے شناخت کیا گیا، مرحوم جس کی عمر 45سال تھی ایم کیو ایم کا یونٹ انچارج تھا۔سہیل احمد کے قتل کیخلاف ایم کیو ایم نے جمعرات 29 جنوری کو سندھ بھر میں شٹر ڈائون ہڑتال کرائی ، جس میں کراچی اور حیدرآباد مکمل بند رہے۔
کراچی بند ہونے کا مطلب حکومت کو بڑا معاشی جھٹکا اسلیے اگلے دن 30 جنوری کووزیراعظم نواز شریف کراچی آپریشن کے سلسلے میں وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ کے ہمراہ کراچی پہنچے ۔گورنر ہاوس کراچی میں نواز شریف نے کہا کہ کراچی میں بے امنی پھیلانے والے دہشت گرد ملک دشمن ہیں، ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرینگے، ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے جاسکتے ہیں۔
امن کی بحالی کیلئے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم مل کر کام کریں۔ گورنر ہاؤس کراچی میں وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے قتل ہونے والے یونٹ انچارج مرحوم سہیل احمد کے گھر والوں سے ملاقات کی جو وزیراعظم اور ایم کیو ایم کی سیاسی ضرورت تھی، ٹھیک اُسی وقت کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے پولیس افسر اور گینگ وار کے ہاتھوں قتل ہونے والے تین افراد کے اہل خانہ انصاف کے حصول کے لیے گورنر ہاؤس کے باہر پہنچ گئے اور وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کو سر عام پھانسی دی جائے
ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔ وزیراعظم کے ان متاثرہ خاندانوں سے ملنے سے خود وزیراعظم، ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی کو کوئی سیاسی فاہدہ نہ تھا لہذا ان تین افراد کے اہل خانہ کوگورنر ہاؤس کے نزدیک بھی نہ جانے دیا گیا۔ ابھی وزیر اعظم کراچی میں ہی تھے اور کراچی اسٹاک کے انڈیکس کے بڑھنے کو اپنی کامیابی بتارہے تھےکہ صوبہ سندھ کے شہرشکارپورسے دہشتگردی کی خبر آگئی۔
صوبہ سندھ کے شہرشکارپور کے مرکزی علاقے لکھی در پر گنجان آبادی کے درمیان قائم مرکز ی مسجد اور امام بارگاہ کربلا معلی میں 150کے قریب نمازی جمعہ کی ادائیگی کے لئے موجود تھے ، امام بارگاہ کے خطیب کی جانب سے خطبہ ختم کرتے ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا اور امام بارگاہ کی چھت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں 60افراد شہید ہوگئے جبکہ 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
انتظامیہ کی نا اہلی اور ایمبولینسز کی عدم موجودگی ہلاکتوں میں اضافے کی وجہ بنی، سول اسپتال شکارپور میں سہولیات کے فقدان اور ماہر ڈاکٹروں سمیت دیگر عملے کی غیر موجودگی کے باعث زخمیوں کے ورثاء پریشانی کے عالم میں آہ و پکار کرتے رہے جس کے باعث تمام زخمیوں کو سول اسپتال شکار پور سے لاڑکانہ اور سکھر کی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا جس سے بیشتر زخمی راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ ضلعی انتظامیہ کا کوئی بھی ذمہ دار افسر جائے وقوعہ پر نہیں پہنچا، نہ ہی تربیت یافتہ ریسکیو عملہ نظر آیا۔
سرکاری سطع پر کوئی خاص ہلچل نہیں مچی ، حسب دستور وزیراعظم نے شکار پور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی اورپھر وہی گھسا پٹا بیان کہ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کا عزم کر رکھا ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے شکارپور میں امام بارگارہ میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور دھماکے کے نتیجے میں متعدد افراد کے جاں بحق اور زخمی ہونے پر دلی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے دہشت گرد حملے کی پر زور الفاظ میں مذمت کی۔ چونکہ شکار پور جانے سے وزیر اعظم کو کوئی سیاسی فاہدہ نہ تھا لہذا شام کو وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد چلے گئے۔ جاتے جاتے وہ کراچی آپریشن ٹیم کے کپتان قائم علی شاہ کی تعریف کررہے تھے کہ کراچی آپریشن اُنکی وجہ سے کامیاب جارہا ہے۔
اسکے بعد سانحہ شکارپور سے پاکستان کے تاجر سیاستدانوں کا کوئی لینا دینا نہیں، کیونکہ اس سے کوئی سیاسی فاہدہ نہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ شکار پور میں شہید ہونے والوں سے عمران خان، آصف زرداری، اسفندرولی یار، سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن کوکوئی ہمدردی نہیں۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ پشاور کی دہشتگردی کی وجہ سے معصوم پرویز خٹک کو کچھ نہ کہو تو پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ بھی یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ شکارپور سانحہ کے ذمہ داری قائم علی شاہ پر نہیں آتی۔ بڑی ہی بدقسمت ہے پاکستانی قوم جسکو یہ تاجر سیاستدان ملے ہیں۔