کراچی (خصوصی رپورٹ) اربن ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF)کے بانی چیرمین ناہید حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا مطلب حکمرانوں کی ہر طرح سے مادر پدر آزادی ہے، وہ قوم سے باز پرس کر سکتے ہیں مگر قوم ان سے باز پرس نہیں کر سکتی اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ قوم کو اپنی طاقت اور کرپشن سے حاصل کئے گئے پیسوں کی بنیاد پر اپنا غلام سمجھنے لگتے ہیں
ان کا تکبر ،ان کی فرعونیت اور انکی بد دیانتی ہمیں قرآن پاک میں موجود قصوں کی یاد دہانی کیا نہیں کراتی؟ جو مالکِ کائنات نے مختلف قوموں پرقہرکی صورت میں نازل کی اب یہ جوابدہی صرف وہی طلب کرے گا جس کی طاقت ازل سے ابد تک ہے اورہمیشہ رہیگی ۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ظلم جب زیادہ بڑھنے لگتا ہے تو اللہ تعا لیٰ صفائی کا بندوبست کرادیتا ہے یعنی سیلاب ،طوفان اور زلزلوں کے ذریعے اس کے علا وہ مختلف حادثات کی صورت میں انہی ارضی و سمادی حادثات کے بعد دنیا امن کا گہوارہ بنتی ہے
کیونکہ ایسے لوگوں کی صفائی ہوتی ہے جو معاشرے کیلئے تباہی کا سبب نہیں ہوتے ہیںمگر قرآن پاک میں ان واقعات کو عذابِ الٰہی کہتے ہیںلہذٰا اب یہی ایک صورت رہ گئی ہے بے چاری ،بے بس اور پسی ہوئی قوم شاید کسی ایسے ہی معجزے کی منتظر ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے عہدیداران و کارکنان کی ایک فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ناہید حسین نے مزید کہا کہ ماضی اور حال کے جمہوری حکمرانوں کی غلط پالیسیاں اور غلطیاں بے چاری عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہیںجبکہ تاحال یہ صورت حال بر قرار ہے خواہ میمو سکینڈل ہو،مہران بیس کا واقعہ ہو،کراچی ائیرپورٹ پر حملہ کا کیس ہو یا سانحہ پشاور کے علاوہ تھر کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہو یا کراچی میں بس کے حادثے میں ٧٠ افراد کی ہلاکتیں یا پھر سانحہ شکارپور ہو یا کراچی کی خونریزی کے علاوہ حالیہ پیٹرول کا سنگین بحران ہو تمام حادثات و واقعات اور سانحات پر مجال ہے
کسی وزیر نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دیا ہو،حالانکہ موجودہ حکمرانوں کے ہاتھ ماڈل ٹائون لاہور میں بے گناہ ١٤ افراد کے قتل کے علا وہ تحریک انصاف کے دھرنوں کے کئی شرکاء کے قتل سے بھی رنگے ہوئے ہیں یہی نہیں بلکہ کہیں صوبائی انتظامیہ بھی تھر میں معصوم بچوں کی نسل کشی کی ذمہ دار ہے ،ناہید حسین نے کہا کہ مندرجہ بالا واقعات کسی فلم کے واقعات نہیں بلکہ حقیقی مناظر ہیںجو پاکستان میں تواتر سے دیکھے جاسکتے ہیں خاص طورپر کراچی کے واقعات دیگر تمام واقعات پر بھاری نظر آتے ہیں
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ذمہ داری کون قبول کرے گااور وہ کس کو جوابدہ ہوگا جبکہ ہمارے حکمران ظلم ،بربریت ، نا انصافی اور بیڈ گورنس میںاپنا جواب نہیں رکھتے ،ان میں سلیقہ ،تہذیب اور کردار کیا خاک ہوگاجو محکمہ پولیس کو اپنے مخالفین کے علا وہ اپنا حق مانگنے والی عوام پر تشد د کے لئے استعمال کرنے کو لازم و ملزوم سمجھتے ہوںجس کی مثال ماڈل ٹائون کا واقعہ ہو یا نابینا افراد پر تشدد کا المیہ ہو یا پھر حالیہ دنوں میں اپنا حق مانگنے والے اسکول کے بچے ہی کیوں نہ ہوں،ان سب کے خلاف حکمرانوں اور انتظامیہ نے جرائم پیشہ پولیس کو استعمال کرکے اپنی جاگیردارانہ ذہنی پسماندگی کا مظاہرہ کیا اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام لپیٹ دیا گیا ،اسی لئے انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے کیونکہ معاشرے سے انصاف اٹھ چکا ہے اوراب فوجی عدالتوں کے قیام سے ان کی رات کی نیندیں اُڑ چکی ہیں۔