کم عمری کی شادیاں اور جہیز کی لانعت

Parents

Parents

تحریر : سجاد علی شاکر

روح زمین پر سب سے مقدس رشتہ والدین اور اولاد کا ہوتاہے۔ اللہ نے اگر بیٹے کو نعمت بنایا ہے تو بیٹی کو بھی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔مگر پاکستانی معاشرے میں کچھ اصول بہت غلط ہے جن کی و جہ سے ہماری بیٹیاں بہت مشکلات کا شکار ہیں بیٹے کو سدا والدین کے ساتھ رہنا پڑتا ہے جبکہ بیٹی کے مقدر میں جدائی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے والدین کے گھرسے رخصت ہونا پڑتا ہے۔اسے اک نیا گھر بسانا ہوتاہے۔ والدین کے گھر بیٹی پر کچھ حقوق ہوتے ہیں جس میں تعلیم، اخلاقیات، اور مناسب وقت میں شادی۔ قانون نے جو شادی کی عمر بتائی ہے وہ لڑکی کے لیے کم از کم 16 سال اور لڑکے لیے 18 سال ہے۔ اس سے کم عمر شادی کرنا قانون جرم ہے۔

ہر اچھے، باشعوراور محب وطن شہری وہی ہوتا جو شرعی اور ملکی قوانین پر عمل کرتا ہے۔پاکستان کے بعض علاقوں بل خصو ص سندھ میں کم ”عمری کی شادی” کا رجحان عام ہے۔ ”کم عمری کی شادی” کی کئی اشکال ہیں جن وٹہ سٹہ، دیت، ونی، توہم پرستی وغیرہ عام ہیں۔ اس فرسودہ رسم کی چند اہم وجوہات میں گیردارنہ نظام،دین سے دوری، غربت، تعلیم کی کمی، ہونا شامل ہے۔ اللہ نے بیٹی کا کوئی نعمل البدل نہیں بنایا جس کے بدلے بیٹی دی جائے۔

وٹہ سٹہ کی رسم کی نہ تو دین اجازت دیتاہے اورنہ ہی دنیا کا کوئی قانون۔ بیٹی رب کی ایک نعمت ہے یہ کوئی منڈی میں تبادلے کے لیے پیدا نہیں کی گئی۔ شادی اس کا جائزحق ہے اور شریعت نے اْسے فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے۔یہ کیسا فیصلہ ہوتا ہے جس میں معافی کی لیے شرط بیٹی کا رشتہ رکھ دیا جاتا ہے؟ جرم بیٹا کرتا ہے تو سزا بیٹی کوملتی ہے۔جس طرح زندگی گزارنابیٹے کا حق ہے اسی طرح بیٹی کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ بیٹی کو جرائم کی معافی کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ بیٹیاں تو عزتوں کی محافظ ہوتی ہیں۔ہمارے ہاںایک انتہائی گھٹیاں رسم بیٹی کے پیدا ہوتے کسی کے نام لگا دی جاتا ہے۔ وہ جیسے ہی بڑی ہوتی ہے اس بیاہ دیا جاتا ہے۔ لڑکا چاہے جرائم کا ہی مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔ بیٹی دینی ہی اسی کو ہے ور نہ خاندان میں ناک کٹ جاتی ہے۔یہ تمام رسمات پاکستان میں موجود ہیں۔

ان کو ختم کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔اگر یہ نظام یوں ہی چلاتا رہا تو بیٹیوںکی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ تعلیم کو عام کر کے لوگوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہو گی۔ماں باپ بڑی محبت اور محنت مشقت کیساتھ اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے بڑا کرتے ہیں۔بچیوں کے پیدا ہوتے ہی ما ں باپ کو ان کی شادی کی فکر شروع ہو جاتی ہے جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اس فکر میں بھی اضافہ ہو تاجاتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں ایک غریب خاندان کے لیے اپنی بیٹی کا جہیز تیار کرنا ہی ایک بڑا چیلنج بن گیاہے۔ جہیز ضروری مجبوری یا لعنت اس مسئلے پر میں نے ایک سو سے زائد افراد کی رائے لی ہے۔ 80 فیصد نے جواب دیا کہ آج کے دور میں جہیز ایک مجبوری ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ضرورت بھی بن چکی ہے۔ دیکھا جائے تو اس ماحول میں تو جہیز ضروری اور مجبوری بن چکا ہے۔

جہیز جو نہیں دے سکتے وہ بچیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن ان کے ہاتھ پیلے نہیں ہوپاتے اور ہمارے رسم رواج اور جہیز کلچر کی سولی پر لٹک جاتی ہیں۔ اور بہت سے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں شادیاں نہ ہونے کی بنا پر بچیاں نفسیاتی مریض اور پاگل تک ہوجاتی ہیں اس کے علاوہ ایسے کیسزبھی سامنے آئے ہیں کہ لڑکیاں اسی غم کو دل کو لگائے اور بالکل دل برداشتہ ہو کر خودکشی جیسا اقدام کر بیٹھتی ہیں۔ابھی چند ماہ پہلے 4 بہنوں نے اجتماعی خودکشی کی جس کی وجہ بھی یہی بتائی گئی کہ والدین غربت کی وجہ سے دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری کررہیں تھے

Inflation

Inflation

چار جوانی کی حد پار کر کے بالوں میں چاندی اترتی عمر میں پہنچی ہوئی بیٹوں کا اس مہنگائی کے دور میں جہیز کہاں سے تیار کرتے۔والدین اور بچیاں دونوں نفسیاتی مریض بن چکے تھے۔اور آخر کار بیچاری لڑکیاں اتنا دل برداشتہ ہوئیں کہ نوبت اجتماعی خودکشی تک جاپہنچی اب کون ذمہ دار تھا والدین۔حکومت یا ہم عوام(معاشرہ) والدین جو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرپاتے تھے وہ کیسے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔حکومت وقت جن کے پاس عوامی مسائل کے لیے وقت ہی نہیں بچا صوبائی وزراء کے صرف لاہور سے ساہیوال تک دورے پر 3 کروڑ اڑا دیے جاتے ہیں اور اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

جو عوامی مسائل اور لوگوں کی مجبوریوں سے بے خبر ٹیکسوں میں اضافے کے ذریعے عوام کی کھال اتارنے میں مصروف ہیں حکمران تو وہ بھی تھے حضرت عمر جو ہر وقت صرف اس لیے پریشان رہتے کہ میری سلطنت میں اگر کوئی بھوکا مر گیا تو رب کے ہاں جواب دینا پڑے گا۔اس جواب دہی کے احساس نے ان سے راتوں کی نیند تک چھین لی تھی وہ رات بھر علاقے میں نکلتے تاکہ لوگوں کے دکھ درد جان سکیںاور عوام کی رسائی براہ راست حکمرانوں تک موجود تھی۔لیکن آج کے دور میں وزراء ہی کو وزیراعظم سے ملنے کے لیے کئی دن درکار ہوتے ہیں۔ اور ہم عوام ایک بہت بڑا کردار ہمارا اپنا ہے۔ ہم خود اگر اپنے اس پاس خیال نہیں رکھتے کون کس حال میں ہے آج تو ہماری اپنی حالت یہ ہے

ہر ایشوپر حکومت وقت کو موردالزام ٹھہرا کر نکل جاتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کا احساس ختم ہوکر رہ گیا ہے ہمارے اس پاس لوگ راتوں کو بھوکے سوتے ہیں بچیاں جوان ہیں لیکن شادی صرف اس لیے نہیں ہو پارہی کہ غریب خاندان جہیز کا بندوبست نہیں کر پارہا۔ یہ ہماری اپنی ذمہ داری ہے ہم اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اپنے محلے کی سطح پر فلاحی سوسائٹی قائم کر کے ان غریب بہنوں کی شادی کا بندوبست کردیں اور ان کے والدین کے کمزور کندھوں کا بوجھ ہلکا کر دیں۔نوجوان یہ کام بڑے اچھے اندازسے اپنے محلوں کے بزرگوں کی سرپرستی میں سرانجام دے سکتے ہیں۔ اور چند علاقوں میں یہی مثالیں موجود ہے ہیں کہ نوجوان اپنی مدد آپ اپنے محلے کے بزرگوں کی سرپرستی میں یہ کام سرانجام دے رہیں ہیں۔

ہم ان این جی اوز اوران کے ورکرز کو سلام پیش کرتے ہیں جو معاشرے میں والدین کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے بچیوں کی شادیاں کرواتے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے افراد بھی معاشرے میں موجود ہیں جو ہر سال بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اگر ہر علاقے میں صاحب حیثیت لوگ مل کر اجتماعی شادیاں کروانے کا عہد کر لیںتو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہوگا

اس کے علاوہ حکومت کو بھی ایک منصوبہ بنانا چایئے کہ ہر یونین کونسل کی سطح پر اس حوالے سے کمیٹاں قائم ہو اور ایسے منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں اور ہمارا عوام کا ہی فرض ہے کہ جہیز مانگنے اور اس پر مجبور کرنے کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے ہر فرد کو اس بات کا احساس دلایا جائے۔ اصل میں والدین جہیز دینا اس لیے بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ لڑکے والے بعد میں لڑکی کو طعنے دیے دیے کر پریشان کیے رکھتے ہیں اس لیے اس کلچر کی ایک بڑے پیمانے پر حوصلہ شکنی کا سلسلہ ہمیں شروع کرنا ہے جو معاشرے سے اس کلچر کو جڑسے اکھاڑ پھینکے اور آئیے ہم اپنے گھر سے اس وباء کے خاتمے کا آغاز کریں۔

Sajjad Ali Shakir

Sajjad Ali Shakir

تحریر : سجاد علی شاکر
sajjadalishakir|@gmail.com
03226490480