تحریر : سجاد علی شاکر میرا پیارا پاکستان جسے ہمارے بزرگوں نے اس امید سے آزاد کروایا تھا کہ اب ہم اپنے گھر میں سکون سے زندگی گزارے گے اور اپنے خدا کی دی ہوئی اس نعمت کا شکر ادا کرے گے مگر افسوس صد افسوس ہمارے بڑے غلط تھے جنہوں نے اتنی تنگ و دو کی ہم اس قابل نہیں تھے ۔ آج بھی قید کی اور غلامی کی ہی زندگی گزار رہے ہیں فرق بس اتنا ہے پہلے گیروں کی غلامی تھی اب اپنوں کی ، افسوس اس بات کا ہے کہ گیروں کے ستم تو برداشت کر لیے مگر اپنوں کے برداشت کے باہر ہے آج دیکھیں ہمارا حال۔ گزشتہ کئی ماہ سے عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بتدریج کم ہورہی ہیں اور ڈیزل’ پیٹرول و فرنس آئل کی قیمتوں میں اب تک تقریباً 60%کمی آچکی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جیسے ہی عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی آتی ہے’ حکومت عوام کو ریلیف دیتے ہوئے اسی شرح سے ڈیزل’ پیٹرول اور فرنس آئل کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کا اعلان کرے کیونکہ مئی 2013ء کے انتخابات میں شریف برادران کی تقریروں سے یہی لگتا تھا کہ اگر یہ اقتدار میں آگئے تو یہ دودھ و شہد کی نہریں بہادیں گے اور عوام کو ہر ممکن طریقے سے ریلیف دیں گے مگر گزشتہ چند ماہ میں فرنس آئل کی قیمتوں میں 60% کمی کے بعد بجلی کی قیمتیں مختلف حیلوں بہانوں سے بڑھائی جارہی ہیں جبکہ ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں بھی اس شرح سے کمی نہیں کی گئی جس قدر عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔
جب حکومت عوام کو تمام ممکنہ ریلیف نہیں دے گی تو آخر کس طرح مہنگائی’ بے روزگاری اور مشکلات میں کمی واقع ہوگی؟ حکومت اور وزراء صرف زبانی کلامی بڑے بڑے معاہدوں کے چرچے کر رہے ہیں جبکہ عملی طور پر ملک میں بے انصافی’ بے روزگاری’ پولیس گردی اور لوٹ مار میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ہمارے ملک کا دستور ہے ہی نرالا مگر باوا آدم بھی نرالا ہے۔ یہاں ملزم کو جزا اور مظلوم کو سزا ملتی ہے، یہاں ایک عام آدمی کو اپنا حق اور انصاف لینے کیلئے طویل جدو جہد کرنی پڑتی ہے، میرے ملک میں اگر کسی عام آدمی کو اپنا حق حاصل کرنا ہو یاپھر وہ انصاف کا طلب گار ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ احتجاج کرے، سڑکیں بلا ک کرے یا پھر بھوک ہڑتال کرے اگر ان سب سے بھی بات نہ بنے تو پھر آخری اقدام یہ ہے کہ وہ خودکشی کر لے، خود تو وہ اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے مگراس کی فریاد صاحب اقتدار تک پہنچ جاتی ہے، یہ سارے پاپڑ بیلنے کے بعد بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اسے انصاف مل پائے گا یہ پھر اس کا حق اس کو دے دیا جائے گا۔اسی لئے گورنر پنجاب چوہدری سرور نے استعفٰی دیا ہے کہ ایسی حکومت میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں ہم عوام کو ریلیف نہ دے سکیں۔ چوہدری سرور جیسے دلیر اور زمانہ شناس شخص کا ایسے نظام میں چلنا ویسے بھی ناممکن ہے کیونکہ اس طرح کے عہدے رکھنے سے شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومت کو پنجاب میں گونگا گورنر درکار ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ کرکے یہ لوگ کو نسا انصاف کر رہے ہیں؟ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ حکومت سے پوچھے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے تناسب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس شرح سے کمی کیوں نہیں کی گئی؟ فرنس آئل کی قیمتوں میں کمی کی شرح سے بجلی کی قیمتیں کم کیوں نہیں کی گئیں؟ لیکن شریف برادران کے بارے میں عدلیہ نے آج تک ایسا فیصلہ نہیں کیا جس سے ان پر دبائو آئے۔لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا لیکن جب اس بارے میں سوال کیا جائے تو عدلیہ تمام تر الزام وکلاء پر عائد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ انصاف میں تاخیر کے ذمہ دار وکلاء ہیں جبکہ وکلاء کی جانب سے عدلیہ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ اب لوگوں کو جلد انصاف ملے گا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ عدلیہ کی جانب سے ججوں کی تعداد بڑھانے کے مطالبے پر حکومت کوئی ردعمل نہیں دے رہی اور فنڈز میں کمی کا بہانہ بناکر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر حکومت عوام کوانصاف کی فراہمی میں مخلص ہوتی تو ججوں کی تعداد دوگنی کرکے ہر ڈویڑن میں سپریم کورٹ اور ہر ضلع میں ہائی کورٹ کے بنچ قائم کئے جاتے کیونکہ اس وقت دیہی علاقوں سے لوگ کسی بھی مقدمے کی تاریخ کیلئے دور دراز کا سفر اور بھاری رقم خرچ کرکے پہنچتے ہیں اور دوپہر 3 بجے انہیں یہ نوید سنادی جاتی ہے کہ فلاں تاریخ د یدی گئی ہے۔
Petrol Crisis
ایک ایک مقدمے کی وجہ سے لوگوں کی جاگیریں تک فروخت ہوجاتی ہیں اور انصاف اگلی تین نسلوں تک بھی نہیں مل پاتا۔گیس کی فراہمی میں بھی حکومت کی ترجیحات درست نہیں کیونکہ ہائیڈل پاور میں کمی اور فرنس آئل کی شارٹیج کے دنوں میں گیس فراہمی کیلئے اولین ترجیح تھرمل پاور اسٹیشن ہونے چاہئیں مگر جب بھی صنعت کاروں کی حکومت آتی ہے تو ان لوگوں کو نوازا جاتا ہے جو انتخابی مہم کیلئے فنڈز دیتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ان 1% سے بھی کم سرمایہ دار طبقے کونوازنے کیلئے پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ اگر گیس تھرمل پاورز کو دی جائے تو وافر بجلی سے صنعت ترقی کریگی مگر گیس پہلی ترجیح میں صنعتکاروں کو دیکر ملک کے 99% عوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔ کسی نے بالکل درست کہا تھا کہ جس ملک میں صنعت کار اور بزنس مین کی حکومت آجائے’ اس ملک کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔حکومت گیس فراہمی میں پہلی ترجیح تھرمل پاور اسٹیشن’ دوسری ترجیح گھریلو صارفین’ تیسری ترجیح سی این جی سیکٹر اور آخری ترجیح انڈسٹری کو مقرر کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کی مشکلات میں کمی واقع نہ ہوسکے۔ایک دہائی قبل لوگ کہتے تھے کہ 2 نمبر چیز سے بچنا چاہئے مگر اب ملاوٹ’ جعلسازی اور دونمبری اس قدر عام ہوگئی ہے کہ 10نمبر چیز دستیاب ہے اور تمام چیزوں میں جعلسازی’ ملاوٹ کے بارے میں حکام اچھی طرح واقف ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ملاوٹ اور دونمبری بھی صرف اثر و رسوخ والا طبقہ ہی کرتا ہے اور کسی غریب عام آدمی کی یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ ملاوٹ یا جعلسازی کرسکے۔ موجودہ پیٹرولیم بحران بھی اس لئے جان بوجھ کر پیدا کیا گیا کہ بحران سے قبل بااثر طبقے نے پیٹرولیم کی ذخیرہ اندوزی کرلی تھی اور بحران میں اربوں روپے کمالئے گئے۔
عوام کو مسلسل قطاروں میں لگائے رکھنا حکمرانوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔بھارت میں کسانوں کوکھاد’ بیج’ زرعی ادویات و مشینری حکومت کی جانب سے آسان شرائط پر فراہم کی جاتی ہے اسی لئے بھارت 1 ارب 26 کروڑ کی آبادی کو سستی اور خالص وافر خوراک فراہم کر رہا ہے اور وہاں کا کسان خوشحال ہے جبکہ بھارت کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں بڑے جاگیرداروں کو زرعی بینکوں سے قرض بھی مل جاتا ہے اور جاگیروں پر بھی بینک سے فنانس سہولتیں دی جاتی ہیں جبکہ چھوٹے زمینداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور کسان کا ہر ہر سطح پر استحصال کیا جارہا ہے جس کے باعث پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ مصنوعی مہنگائی بھی پیدا کی گئی ہے۔ حکومت کا قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے جس کے باعث دیہات سے آبادی کا دبائو شہروں کی جانب ہوگیا ہے اور شہروں میں آبادی کنٹرول سے باہر ہوچکی ہے۔ حکومت کسانوں سے اگر 1000 روپے من گندم خرید کر ذخیرہ کرلیتی ہے تو فلور ملز کو 1250 روپے من گندم فروخت کی جاتی ہے اور پھر فلور ملز اپنا منافع لگانے کے بعد عوام کو آٹا بہت مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت اپنی اعلان کردہ قیمت پر ہر صورت نقد آور فصلوں کو خریدے اور آگے فلور ملز کو بھی گندم اسی ریٹ پر فراہم کی جائے۔ اب گنے کی مقرر کردہ قیمتوں پر شوگر مافیا کسانوں کو ادائیگیاں نہیں کر رہا اور کسان سڑکوں پر دھرنے دینے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔حکومت نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے ہر چند ماہ بعد ٹول ٹیکس میں مسلسل اضافہ کرکے اپنے من پسند افراد کو ٹول پلازہ کے ٹھیکے دے رہی ہے جبکہ اسکے برعکس سڑکوں کی حالت دیکھنے کے قابل ہے۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے اور سڑکیں بہترین بنادی گئی تھیں اور نسبتاً ٹول ٹیکس کی شرح بہت کم ہونے کے باوجود ہر وقت نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پاس اربوں روپے موجود ہوتے تھے۔ ٹرانسپورٹرز سے درجنوں ٹیکس لئے جارہے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حقیقت میں عوام کو اب امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی جبکہ وفاقی وزراء سب اچھا ہے کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سیاست تجارت سمجھ کرکی جاتی ہے اور ہمارا ہر تاجر سیاستدان کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنا نفع نقصان دیکھتا ہے پھر وہ کوئی عمل کرتا ہے۔ ویسے تو ہمارئے ملک کا ہر سیاستدان ایک سیاسی تاجر ہے لیکن اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف ملک کے سب سے بڑئے سیاسی تاجر ہیں، وہ ہر اْس کام کیلیے تیار رہتے ہیں جس سے اْنکو سیاسی فائدہ ہو، یہ ہی سیاسی فائدئے آگے چلکر اْنکے لیے مالی فائدہ بن جاتے ہیں۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر : سجاد علی شاکر sajjadalishakir@gmail.com 03226390480