سونے کی عالمی قیمت میں کمی؛ بھارت کے ذمے پاکستانی اثاثوں کی مالیت 20 فیصد گھٹ گئی

Gold

Gold

کراچی (جیوڈیسک) انٹرنیشنل مارکیٹ میں سونے کی قیمت کم ہونے سے بھارت کے ذمہ پاکستان کے اثاثوں اور واجبات کی مالیت میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔

قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ مملکت کے حصے میں آنے والے مالی اثاثے سونے کے ذخائر، برطانوی کرنسی، انڈین کرنسی اور سکوں میں سے پاکستان کا حق 68 سال گزرنے کے باوجود نہیں مل سکا۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کے سامنے کبھی بھی باضابطہ طور پر ان اثاثوں کی ادائیگی کا سوال نہیں اٹھایا گیا تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان اپنے کھاتوں میں ان واجبات کو اثاثوں کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔

دو سال قبل دسمبر 2012میں بھارت کے ذمے مجموعی واجبات کی مالیت 6ارب روپے سے تجاوز کرگئی تھی جن میں 5ارب 60 کروڑ روپے کے سونے کے سکے اور سونا (بولین)، 48 کروڑ 70 لاکھ روپے کی اسٹرلنگ سیکیورٹیز، ایک کروڑ 70 لاکھ روپے کی انڈین سیکیورٹیز اور 50 لاکھ روپے کے انڈین سکے شامل تھے۔ گزشتہ دو سال کے دوران سونے کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے بھارت کے ذمے پاکستان کے اثاثوں کی مالیت 20 فیصد کم ہوچکی ہے۔

دسمبر 2014 کے اختتام پر بھارت کے ذمے پاکستان کے ان اثاثوں کی مالیت 4 ارب 84 کروڑ 27 لاکھ روپے ریکارڈ کی گئی جس میں سونے کی شکل میں اثاثوں کی مالیت 4ارب 4کروڑ 70 لاکھ روپے، اسٹرلنگ سیکیورٹیز کی مالیت 55 کروڑ 57 لاکھ روپے، انڈین سیکورٹیز کی مالیت 23 کروڑ 52 لاکھ روپے اور انڈین سکوں کی مالیت 48 لاکھ روپے ریکارڈ کی گئی۔ اس طرح دو سال کے دوران بھارت کے ذمے پاکستان کے اثاثوں میں سے سونے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مالیت میں ایک ارب 55 کروڑ 20 لاکھ روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اسٹرلنگ سیکیورٹیز اور انڈین سیکیورٹیز کی قدر بڑھنے سے واجب اثاثوں کی مجموعی مالیت میں ایک ارب 26 کروڑ 53 لاکھ روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔

دو سال کے دوران سونے کی عالمی قیمتوں میں 29فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ جنوری 2013میں سونے کی فی اونس عالمی قیمت 1675.80 ڈالر تھی جو جنوری 2015 کے آغاز میں کم ہوکر 1183.90 ڈالر فی اونس کی سطح پر آگئی۔ پاکستانی واجبات کی ادائیگی کے بارے میں بھارتی دانشوروں کا غیرسرکاری موقف رہا ہے کہ یہ اثاثے اور واجبات غیرمنقسم پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اثاثے پاکستان کو دیے جائیں یا بنگلہ دیش کو؟۔ پاکستانی ماہرین کے مطابق بھارت کا یہ استدلال غلط اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔

برطانوی کمیشن نے 30 دسمبر 1948 کو ریزور بینک آف انڈیا کے اثاثے پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیے گئے جن میں سونے کے ذخائر میں سے پاکستان کے حصے میں 30 فیصد اور بھارت کے حصے میں 70 فیصد سونا آیا تاہم بھارت نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اثاثے پاکستان کو منتقل نہیں کیے تاکہ قیام کے فوراً بعد پاکستان کو مہاجرین کی آبادکاری اور ریاست کے انتظامی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مشکلات کا شکار کیا جاسکے۔ بھارت کے ذمے واجبات بنیادی طور پر پاکستان کے عوام کا حق ہے، بنگلہ دیش کا شوشہ بھارت کی بنیاگیر روایت کا ثبوت ہے۔