تحریر : زارا رضوان) کہتے ہیں (Excess of everything is bad) یعنی ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔ یہ بات اگر ٹیکنالوجی پر اپلائی کریں تو معلوم ہو گا کہ جدید ٹیکنالوجی (ٹی وی، اِنٹرنیٹ، موبائل)نیجہاں ہماری زندگیوں کو آسان بنایا ہے وہیں اِس کے بے جااستعمال نے کچھ نقصانات بھی مّرتب کئے ہیں۔ کیبل اور میڈیا نے ہمارے بچوں کو عمر سے پہلے بڑا کر دیا ہے۔
گھروں میں سارا دِن فلمزاورانڈین ڈرامے چلتے رہتے ہیں۔ ہر ڈرامے و پروگرامز کے اوقات بچوں کو اْنگلیوں میں یاد ہے۔ بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں انڈین فلمز اورڈراموں کی چھاپ بہت گہری ہے۔ بچے وہ سب کچھ جانتے ہیں جو پہلے بالغ ہونے کے بعد جاناجاتا تھا۔موبائل فون نے جہاں فاصلوں کو سمیٹا ہے وہیں اِس سے زندگیاں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہم سب سے کٹ سے گئے ہیں۔ جسکو دیکھو موبائل میں گم ہے۔ کوئی ایس ایم ایس چیٹ میں مصروف ہے تو کوئی موبائل اِنٹرنیٹ سے لطف انداز ہو رہا ہے۔ کوئی لمبے لمبے کال پیکجز کا فائدہ اْٹھا رہا ہے تو کوئی میوزک سن کر دِل بہلا رہا ہے۔ کوئی اپنی پسندیدہ مووی دیکھ رہا ہے تو کوئی گیمز کھیلنے میں مگن ہے۔ الغرض ہر کوئی مصروف ہے۔
موبائل نے فاصلہ اِس قدر کم کر دیا ہے کہ شہروں اور ملکوں کا فرق نہیں رہا۔ اب خود دیکھیں، کسی مریض کی عیادت کیلئے وقت نکال کر بذات خود جایا جاتا تھا، غمی خوشی میں شریک ہوا جاتا تھا۔ لیکن اب ایک فون کال کرکے مریض کا حال احوال دریافت کر لیا جاتا ہے، خوشی کے وقت مبارک باد دے دی جاتی ہیاور بس۔ ویڈیو کالز نے تو فاصلوں کو مزید پاٹ دیا ہے۔بچوں کو والدین نے موبائل دے کرمزید چھوٹ دے دی ہے۔ بچے سارا دِن ٹیکسٹنگ میں گزارتے ہیں یا گیمز کھیل کر۔ جو پروگرامز اْنکو ٹی وی میں دیکھنے کی اِجازت نہیں دی جاتی وہ اِنٹرنیٹ و موبائل میں دیکھ لیتے ہیں۔
یہ سب بلاشبہ موبائل فون کا ہی کمال ہے لیکن اِس کے بے جا استعمال نے نا صرف ذہنوں کو جکڑ لیا ہے بلکہ ہمیں سب سے الگ بھی کر دیا ہے۔اِنٹرنیٹ کی تو بات ہی الگ ہے۔ کمپیوٹر بغیر اِنٹرنیٹ کے یوں ہے جیسے چٹنی کے بغیر دال یعنی دال تو کھا لی لیکن مزہ پھر بھی نہیں آیا کہ کمی رہ گئی۔بندہ گھر بیٹھے دْنیا گھوم لیتا ہے، دْنیا کو جان لیتا ہے۔ ہر علاقے، شہر، قصبے و ملک میں ہونیوالی سیاسی و غیر سیاسی سرگرمیوں کا فوراً سے پہلے پتہ چل جاتا ہے۔حتیٰ کہ موسم کا حال ہو یا کھیلوں کی خبر، شوبز سے متعلق ہو یا کسی عام اِنسان کے بارے میں ، کوئی بھی بے خبر رہ ہی نہیں سکتا۔ سوشل میڈیا کا تو جواب نہیں۔
Internet
بالخصوص فیس نے دوستوں اور رِشتے داروں کو یکجا ہونے کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم مہیّا کیا ہے۔ اس میں فرینڈز اینڈ فیملی ایڈ کرکے روزانہ اْنکی ایکٹیویٹی اور اسٹیٹس سے باخبر رہا جاتا ہے۔ آج کہاں گئے، کیا بنا،پسند نا پسند سب کچھ پتہ چل جاتا ہے۔ہر خاص و عام کا زیادہ وقت اِنٹرنیٹ سرفنگ میں گزرتا ہے یا فیس بک میں۔مختصراًہماری نوجوان نسلمکمل اِسکے زیرِ اثر ہے۔ طالبعلم نے جدید ٹیکنالوجی کااِتنا اثر لیا ہے کہ اْنکی نصابی وغیر نصابی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔پہلے کیبل اْنکے ذہنوں پر حاوی تھی، اْس کی جگہ اِنٹرنیٹ نے لی اور اب موبائل بمعہ اِنٹر نیٹ یعنی سونے پہ سہاگہ۔اب تو ہر طالبعلم کے ہاتھ میں موبائل ہے۔
کچھ طلباء ایسے بھی ہیں جو اِس کے صحیح مصرف کو جانتے ہیں اور ضرورت کے وقت استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ اکثریت کے نزدیک اِس سے اہم کوئی چیز نہیں۔ اْنکی نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں ختم ہوتے ہوتے صفر ہو کر رہ گئی ہے اور یہ بلاشبہ بہت غلط ہے۔یہ سہولیات دراصل ہماری زندگی کو آسان بنانے کیلئے ہیں نا کہ اِن کو زندگی میں سوا کرکے سب سے کٹنے کیلئے۔ ہر چیز اعتدال میں اچھی لگتی ہے۔
والدین کو اِس بارے میں سوچنا چاہیے کہ بچوں کو ٹی وی کب دِکھایا جائے، کونسا پروگرام دِکھانا چاہیے کہ اْنکی پڑھائی متاثر نہ ہو۔ٹی وی اور کمپیوٹر اْنکے بیڈرومز کی بجائے اوپن ایریا میں رکھیں جہاں وہ آتے جاتے بچے کی کارکردگی کو دیکھ سکیں اور جان سکیں کہ اْنکے بچے ٹی وی میں کیا دیکھ رہے ہیں یاکمپیوٹر میں کیا کر رہے ہیں۔ موبائل فون سے تو بچوں کو دْور رکھنا چاہیے۔ یہ اْس وقت اْنکو دیا جائے جب آپ سمجھیں کہ اْنکو دیا جانا چاہیے یا اْنکو ضرورت ہے۔کیبل ہو یا اِنٹرنیٹ و موبائل کا استعمال، بچے کو مکمل نگاہ میں رکھیں کہ وہ کر کیا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے بہت زیادہ و بے جا استعمال اْسکی پڑھائی میں نظر انداز نہ ہو، اْسکو بگاڑ نہ دے، اْسکو سب سے الگ تھلگ نہ کردے۔ یہ سب بحثیت والدین آپکی ذمہ داری ہے۔