تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی آج انسانیت مجموعی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ تمام تر ترقی، خوشحالی تعلیم اور علم کے باوجود ہمارے یہاں انسان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اس کرۂ عرض کو نہ ختم ہونے والے فتنوں میں مبتلا کر دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کرۂ پاک میں شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہو جہاں جنگ و جدل نہ ہو، جہاں انسان انسان کو کاٹ نہ رہا ہو، جہاں آدم ، آدم کو لوٹ نہ رہا ہو، امیر غریب کو کھائے جا رہا ہے۔ با وسیلہ دنیا بے وسیلہ بستیوں کو اُجاڑ رہی ہے۔ لوگ مردوں کو کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ بے وجہ لوگ مارے جا رہے ہیں۔گھروں کے گھر اُجڑ چکے ہیں۔ کہیں دھماکوں سے، کہیں ٹارگٹ کلنگ سے، کہیں حادثوں سے ، کہیں آفات سے، غرض کہ تباہی کے کن کن واقعے کو قرطاسِ صفحہ کروں۔ تقابل کا فلسفہ اپنے تمام تر منفی معنوں کے ساتھ نسلِ انسانی کی تباہ کاریوں میں کار فرما ہے۔ انسانیت کو بچانے کی آج جس قدر ضرورت ہے شاید اس سے پہلے کبھی بھی نہ تھی۔ مختلف دانشور اور انسانی حقوق کے چیمپیئن خود ساختہ تھیوری اور محض انسانی ذہن سے پھوٹنے والی احتیاطوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر انسانیت کے قافلے کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن تمام تر خلوص نیت کے باوجود مغربی انسان دوست ادارے اور حلقے محض اندھیروں میں ہی تیر چلا رہے ہیں اُن کی حالت یہ ہے کہ: فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
اُلجھی ہوئی ڈور کا سِرا ڈھونڈنے کے لئے انہیں ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف سچ کو تلاش کرنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انہوں نے مذہب، زبان، علاقے، رنگ و نسل، اسٹیٹس اور دنیاوی طبقاتی تقسیم کی عینک اُتار کر حق کی تلاش کو نکلیںگے تو پھر انسانیت کے عظیم محسن دنیا جہاں کے لئے رحمت للعالمین اور صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے غم گسار آخری پیغمبر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی کی تعلیمات تک ضرور پہنچ جائیں گے۔ دنیا میں مختلف شخصیات علم و کمال ، دولت و جمال اور قوت و اقتدار لے کر آتی رہی ہیں مگر ہم حضور انور کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارے جناب رسول اللہ سے محبت و عقیدت اور ہمارا ان کے ساتھ رشتہ ایمان میں بندھا ہونا ہے تو دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جو آپ نے انسانیت کو عطا کیا ہے وہ آپ سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہیں دیا۔ دنیا کی دوسری شخصیات کو دیکھیں تو سکندر، رستم و دیگر نامور کمانڈرز جاہ و جلال دکھا کر چلے گئے، کارل مارکس اور لینن جیسے لوگ نظریاتی نعرے دے کر جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
غرض کوئی علمی موشگافیاں دکھا کر چلا گیا کسی نے غلط نظریات میں الجھا کر اسے کمالِ تصور کیا۔کسی نے انسانیت کو خاک و خون میں تڑپانے سے لطف حاصل کیا مگر حضور کے انقلاب سے انسانیت کو رہنمائی ، امن، ہدایت و نور ملا ہے۔ اور آپ کے ارشادات آج کے مہذب انسان کے لئے بھی اسی طرح مفید اور حیات بخش ہیں۔ جس طرح پندرہ سو سال قبل کے انسان کے لئے تھے، ان کی روشنی اور تابانی میں ذرا فرق نہیں آیا ۔ اخلاق کی جھلک، کردار کی بلندی، امانت ، دیانت اور انسانیت کے لئے پیار جہاں بھی ہے وہ حضور کا دیا ہوا ہے۔ آپ کی بتائی ہوئی باتیں آج بھی بڑے بڑے سائنس دان پڑھتے ہیں اور ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے اور قلبِ سلیم رکھنے والے آپ کے آخر نبی ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔
Islam
اسلام کے دیئے ہوئے معاشی، معاشرتی، سیاسی عدل اور خاندانی نظاموں کا جو بھی حصہ جانے انجانے میں کہیں بھی نافذ ہے دنیا کو اس کو برکات حاصل ہو رہی ہیں اور مجموعی طور پر معاشرے، نظام اور اسلام کی بخشی ہوئی اچھائیوں کے طفیل ہی ترقی کر رہے ہیں۔ کئی معاشرے صرف سچ کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں، بعض ممالک صرف محنت کی بنیاد پر دنیا میں نام پیدا کر چکے ہیں۔ جاپان انسانی حقوق کی بناء پر پہچان بنا چکا ہے۔ اسی طرح معاشرے سے لے کر فرد تک اسلامی تعلیمات کی برکات پھیلتی ہیں۔ ہمارے یہاں کب ترقی ہوگی، غریبوں کو کب ان کے حقوق دیئے جائیں گے، حد تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں حقوق تو دور کی بات ہے لوگ بے روزگار پھر رہے ہیں، نوجوان ڈگریاں لے کر در در کی خاک چھان رہے ہیں ، نوکریاں دستیاب نہیں اور جہاں ہے وہاں رشوت لے کر ہی نوکری مہیا کی جاتی ہے، یا پھر سفارش کی ذریعے نوکری دیئے جاتے ہیں۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اس طرح کے سلوک سے ہم کیسے ترقی کی منزلیں طے کر سکیں گے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم سب کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے اور ہم ترقی کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ کچھ لوگوں کو دہشت جمانے کی غرض سے بے دردی سے ہلاک کر دیا جاتا اور باقیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا اور غلامی کی بھی اس حد تک گری ہوئی مثالیں ان لوگوں نے قائم کیں کہ اپنے معزز مہمانوں کے سامنے شراب و شباب سرو کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں میں تیر دے دیئے جاتے۔ غلاموں کو سامنے کونے میں بٹھا دیا جاتا اور تیر غلام پر برسائے جاتے۔ جوں جوں غلام تڑپتا تو مہمان محظوظ ہوتے۔ آخری خطبے میں بھی حضور اکرم نے یہ واضح کر دیا کہ مسلمان کی جان و مال، عزت اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے اور میرے غیر مسلم بھائیوں کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ حدیثِ قدسی میں حضور نے ہمیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”لوگ میرا کنبہ ہیں،” اور قرآن میں آیا ہے کہ جو کوئی ایک انسان کی جان بچائے گا اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔
آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے کیا اوپر درج کی گئی کسی بھی پیرائے میں اس کا شائبہ بھی ملتا ہے؟ دیکھئے، پڑھیئے، غور کیجئے کہ ہم سب کس طرف جا رہے ہیں، کیا ہم تباہی و بربادی کی طرف نہیں جا رہے؟ کیا آج غریب امیر کے چنگل میں پھنسا ہوا نہیں ہے؟ کیا انصاف دروازے پر مہیا ہو رہا ہے؟ کیا سربراہان عوام کو روزی روزگار مہیا کر رہے ہیں؟ کیا عوام تکلیف میں نہیں ہیں؟ کیا ہمارے یہاں امن و امان کا فقدان نہیں ہے؟ کیا ایک بھائی دوسرے بھائی کے ہاتھوں محفوظ ہے؟کیا ہم اللہ رب العزت کو ناراض نہیں کر رہے؟کیا ہم اپنے پیغمبر حضرت محمد کی بتائے ہوئے راستے کو اپنا رہے ہیں؟ اگر ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہے تو اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا، اور اپنا اپنا قبلہ درست سمت میں لانا ہوگا ۔ بس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب لوگ خوابِ غفلت میں ہی سوئے ہوئے ہیں اور پتہ نہیں کب جاگیں گے۔ یعنی کہ بہار کب آئے گا اس کے انتظار میں ہی رہ جائیں گے یا پھر واقعی بہار آئے گی۔ اختتامِ کلام بس اتنا کہ:” بہار آئے تو میرا’ سلام کہہ دینا۔”