سینٹ الیکشن ایک دلفریب ڈرامہ !

Senate

Senate

تحریر :رقیہ غزل
سینٹ کے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں میدان میں اتر چکی ہیں اور اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان بھی کر چکی ہیں، مگر قوی امکان ہے کہ سینٹ الیکشن میں بھی جوڑ توڑ کی سیاست کو فروغ ملے گا اورسب سے زیادہ مذحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ ا میدواران کے چنائو میں وفاداری و اقربا پروری کو بنیاد بنایا جا رہا ہے جبکہ اس چنائو میں ہر کسی اہل کے حقدار ہونے کے امکان کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔چہ می گوئیوں کے مطابق ایک ایک سیٹ پر مفادات کی درپردہ بولی لگ رہی ہے۔

اس بیوپار میں وہ لوگ بھی پیش پیش ہیں جو کل تک اس نظام میں تبدیلی کا علم اٹھائے پھرتے تھے ۔کل کے حریف آج حلیف بن چکے ہیں اور منافقتوں کا عالم یہ ہے کہ جو ذرا ذرا سی بات پر ذاتیات پر اتر آتے تھے وہ آج شیرو شکر ہو چکے ہیں ۔متحدہ ،پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور (ن) لیگ میں اس مرحلہ پر وقتی محاذ آرائی ختم ہو چکی ہے ۔آج کسی کو کسی کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ یاد نہیں رہی سب کو اگر کچھ یاد ہے تو صرف اتنا کہ بہر صورت سیٹ حاصل کرنی ہے چاہے کسی بھی طریقہ سے ہی کیوں نہ ہو مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گالی اور گولی کی سیاسی جنگ نے سیاسی راہنمائوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے

اس کشا کش میں سیاسی جماعتیں اپنا وقار گنوا کر عوام کی نظر میں لالچی اور نا پسندیدہ گروہ شمار ہو چکی ہیں ۔تو یہ کہنا کسی طور نامناسب نہ ہوگا کہ سینٹ الیکشن، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے لیے ایک بار پھر ایک ایسا امتحان ہے جس کے پرچے آئوٹ ہو چکے ہیں اور پارٹیوں کے متعین کردہ نتائج قوم کے سامنے ڈکلیر ہونے والے ہیں ۔

پاکستان کا وہ ایوان جو چار صوبوں کی نمائندگی کرتا ہے اور ایوان بالا کہلاتا ہے اس کے الیکشن جمہوریت کی اصل روح سے ہی بالا ہیں وائے افسوس کہ اس میں طے یہ ہے کہ چالیس سے زیادہ ایم پی ایز اکٹھے ہوں تو پنجاب سے سیٹ ملتی ہے اور چار سے بھی کم ہوں تو بلوچستان میں وہ سینیٹر بن جاتا ہے مگر کہنے کو سب کی نمائندگی برابر ہے ۔سینٹ الیکشن میں چونکہ قومی اسمبلی کے ممبران حصہ لیتے ہیں اورسبھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ان میں سے اکثرپہلے ہی سے اس قدر مضبوط اور با وسائل ہوتے ہیں کہ اس نمائندگی کے لیے ہر قسم کی قربانی اور وسائل لیکر میدان کا رخ کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ امپورٹیڈ نمائندگان کا رحجان بھی فروغ پا رہا ہے ۔اور ٹکٹ کے بکنے کا معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا نظر آتا ہے ،کئی سابقہ سینیٹرز ایسے بھی ہیں جو اپنے صوبوں کو چھوڑ کر دوسرے صوبوں کا رخ کر چکے ہیںاور ان” معززین ”نے موجودہ الیکشن کی شفافیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔یہ کیسی قیامت ہے کہ سر عام ایمان ہی نہیں انسان بھی بک رہے ہیںاور بے شمار اہم لوگوںنے تو برملا کہا ہے کہ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے ۔ویسے بھی یہ حکومت کی خوش نصیبی سمجھ لیجئے یا عوام کی بد نصیبی کہ جب سے (ن) لیگ نے اقتدار سنبھالا تب سے سیاست دانوں کی زندگیوں اور کارکردگیوں کے محاصرے یوں کئے گئے

Politics

Politics

کوئی ایسا سیاست دان نظر نہیں آتا جس کا دامن وقت کی کرپشن سے پاک نظر آرہا ہو ۔اس پر طرّہ یہ کہ حلیفوں نے ہی اپنے لیڈروں اور ہم عصروں کو یوں اچھالا ہے کہ عوام ششدر ہیں کہ اچھا !ایسے لوگ ہمارے حکمران ہیں ۔اس سیاسی جنگ سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہر روز ایک میدان سجا اور مسائل بارے عملی پیش رفت کاغذوں تک محدود ہو کررہ گئی اور وطن عزیز مسائل کا ایسا گھنا جنگل بن گیا کہ جن کی بہتری اور حل کے امکانات بھی چیدہ چیدہ ہی نظر آتے ہیں ۔مگر ہمارے کرتا دھرتا حکمرانوں کے طرز حکمرانی اوردوسروں کی سیاسی منافقت میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں آیا۔اب اسے موقع پرستی کہہ لیں یا مفاد پرستی کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی جو مفادات کی بندر بانٹ پر آئے دن دوسرے کے سر عام مخالف رہتے تھے

اورادب کی تمام حدیں توڑ کر ایک دوسرے کو دلکش و توہین آمیز خطابات سے نواز تے ہیں’ آج سینٹ کی ایک سیٹ کے لیے یک جان دو قالب ہو چکے ہیں۔دوسری طرف تحریک انصاف جو کہ شفاف انتخابات اور تبدیلی پرڈٹی ہوئی تھی جس کا منشور ہی اس موجودہ مضموم نظام کو بدلنا تھااور اس غیر شفافیت والے نظام میں انتخابات کا ہونے میں میں پارٹی یا فریق نہ بننا طے تھا مگراب وہ ہر طرح کے برابر کے ہر عمل میں شریک ہیں۔

اب عمران خان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے اراکین کی بولیاں لگائی جا رہی ہیں اور کروڑوں کی پیشکشیں ہو رہی ہیں مگرمیں کسی کو بکنے نہیں دوں گا اگر کوئی بک گیا تو پارٹی میں رہنے نہیں دونگا۔کہنے کو تو ہر کوئی ایسے ہی نعرے لگا رہا ہے مگر موجودہ حالات میں صاف اور شفاف انتخابات کا خواب پارہ پارہ ہو چکاہے۔ پی ٹی آئی اپنی ہی غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے اپنا منہ بندکرچکی ہے اور کچھ صوبے کے موجودہ حالات ان کے بس سے باہر ہو چکے ہیں اور خیبر پختونخواہ کی حکومت کے کئی اراکین قومی اسمبلی بھی حکومت سے خوش نہیں ہیں

انھیں حکومت بارے کئی تحفظات ہیں ویسے بھی گذشتہ برس عمران خان کا ساراوقت پنجاب کو اپنا پایہ تخت بنانے پر فوکس رہا جبکہ خیبر پختونخواہ کے اراکین کو مجبوراًکئی فیصلوں کی بھینٹ چڑھنا پڑھا دوسری طرف سیلاب اور پشاور سانحہ کے بعد عوام بھی شدید ناخوش ہوگئے ۔اب اگر اراکین اسمبلی کسی دوسری جماعت کے ساتھ مل بھی جاتے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیںہوگی کیونکہ موقع پرستی اورمنافقت ہمارا سیاسی اور قومی روّیہ بن چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے منافقت ،ریاکاری ، مفاد پرستی اور موقع پرستی کا نام ہی سیاست قرار پا چکا ہے۔

بہتر تو یہ تھا کہ اولاً انتخابی اصلاحات نافذ کی جاتیں دوئم الیکشن ہوتے مگر اب اتنی جلدی ایسا ممکن نہیں رہا یقینا اب کہ پھر ووٹ کا تقدس پامال کیا جائے گااور شاید سادہ لوح عوام کو خبر تک نہ ہوگی کیونکہ (ن) لیگ کا سینٹ سلیکشن بورڈ ہے یعنی جو امیدوار ہے وہی جج بھی ہے اور خواجہ سعد رفیق نے شاید اسی کی مد میں کہا ہے کہ جو سیٹوں کی خرید و فروخت کرے گا اس کے لیے قانون حرکت میں آئے گا ۔ کیا واقعی آرٹیکل 62 اور 63 لاگو ہو گا ؟ اور کون سی سیاسی جماعت برتری حاصل کرے گی ؟ اور کیا ہم کچھ دن بعد یہی کہتے نظر آئیں گے کہ غیر آئینی اور غیر شفاف الیکشن نے وطن عزیز کے وقارکی جڑیں کمزور کر دی ہیں ؟موجودہ حالات میں کچھ بھی کہنا ناممکن ہے کیونکہ آج بقول اقبال وہ وقت آچکا ہے کہ: گزر گیا اب وہ دور ساقی !کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہاں مہ خانہ !اور ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

Roqiya Ghazal

Roqiya Ghazal

تحریر :رقیہ غزل