تحریر : حبیب اللہ سلفی چند ماہ قبل صوبائی دارالحکومت لاہور میں واہگہ بارڈر پر ہونے والے حملہ میں تین رینجرز اہلکاروں، دس خواتین اور سات بچوں سمیت 60افراد شہید جبکہ 110سے زائد افراد زخمی ہو ئے۔اس خوفناک حملہ کے زخم ابھی تازہ تھے کہ 16دسمبر سقوط ڈھاکہ کے دن پشاور کا ہولناک سانحہ پیش آیا جس میں معصوم بچوں کو انتہائی بے دردی سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بدترین دہشت گردی تھی جس نے اہل پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کو مغموم کر کے رکھ دیا۔سانحہ پشاور کے بعدشکار پور اور راولپنڈی کی امام بارگاہ میں خودکش حملہ ہوا اور اب ایک بار پھر لاہور میں پولیس لائنز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جس میں آٹھ افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ ان سارے واقعات میں خودکش حملہ آوروں نے اپنے جسموںسے بارود باندھ کر خود کو اڑا لیااوربہت زیادہ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ دیکھنے میں یہ بات آئی ہے کہ جب سے بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی حکومت آئی ہے اور ہزاروںمسلمانوں کے قاتل نریندر مودی نے اجیت دوول جیسے پاکستان دشمنوں کواپنی کابینہ میں اہم ذمہ داریاں دی ہیں وطن عزیزپاکستان میں دہشت گردی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔مسجدوں، بازاروں و مارکیٹوں میں بم دھماکے کئے جارہے ہیں اور پولیس ، رینجرزو پاک فوج کے جوانوںکو نشانہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے عہدیداران کے افغانستان کے خفیہ دورے اور وہاں پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کیلئے دہشت گردوں کو ہر قسم کی امداد فراہم کرنے کی باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ امریکی صدراوبامہ جب بھارت آئے اور اس دوران جان کیری نے پاکستان کو دورہ کیا تو انہیں بھی بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے واضح ثبوت دیے گئے تاہم امریکہ چونکہ اندر سے بھارت کا اتحادی ہے اور افغانستان میں شکست کے بعد انڈیا کو خطہ کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے اس لئے امریکی قیادت کی جانب سے دہشت گردی روکنے کیلئے ہندوستان پر کوئی دبائو نہیں بڑھایا گیا۔ بہرحال ہمیں ان سے کوئی اچھی توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی قیادت کو بھارتی مداخلت کے واضح ثبوت پیش کئے جاتے رہے اور پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاسوں میں یہ باتیں واضح طور پر تسلیم کی جاتی رہی ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے بھارتی دہشت گردی کو اس طرح دنیا میں بے نقاب نہیں کیا گیا جس طرح انہیں کرنا چاہیے تھا۔ابھی چند دن قبل ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک بار پھر پاکستان میں جاری بھارتی دہشت گردی کی کھل کر تفصیلات بتائیں اور کہاکہ سانحہ پشاور کی ساری پلاننگ پاک افغان بارڈر پر کی گئی۔ ملا فضل اللہ اور طالبان کمانڈر عمر امین کی ہدایات پرکی جانے والی اس دہشت گردی میں کل 27 افراد ملوث تھے جن میں سے 9 کو ہلاک ، 12کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور باقی دہشت گردوں کی تلاش جاری ہے۔
میجر جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ سانحہ پشاور کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف افغانستان گئے جہاں انہوں نے افغان صدر کو واقعہ کی اصل صورتحال سے آگاہ کیا اور بھارتی مداخلت کے ثبوت فراہم کئے۔دہشت گردی کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فاٹا اور بلوچستان میں ہونیو الی دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے اور تحریک طالبان کی سرپرستی کی جارہی ہے وگرنہ اتنی بڑی تنظیم بیرونی امداد کے بغیر نہیں چل سکتی۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر لاہور میں خون کی ہولی کھیلی گئی ہے اور تحقیقاتی اداروں کی جانب سے کہاجارہا ہے کہ پولیس لائنز اور واہگہ بارڈر حملہ میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ بارودی مواد بھی ایک ہی قسم کا استعمال کیا گیا ہے اس لئے صاف طورپر کہاجاسکتا ہے کہ بھارت پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا اوراس مقصد کیلئے افغانستان کی سرزمین جہاں پر اس کے قائم قونصل خانے دہشت گردوں کی تربیت گاہیں بنے ہوئے ہیں’ انہیں استعمال میں لاتے ہوئے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے ایٹمی قوت ہے اور اب اسے روایتی جنگ کے ذریعہ شکست دینا آسان کام نہیں ہے اسلئے تخریب کاری و دہشت گردی کے ذریعہ اسے اندرونی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں تاکہ وہ خطہ میں اپنے مذموم ایجنڈے پورے کر سکیں۔ کنٹرول لائن پر آئے دن کی جارحیت بھی بھارت سرکار کی اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
Lahore Blast
پولیس لائنزپر حملہ سے پہلے دہشت گردوںنے اس مرتبہ ایک نئی حکمت عملی اختیار کی اور 15پر کال کرکے کبھی ٹیمپل روڈ عائشہ ڈگری کالج، ایل ایم سی ہائی سکول اورشفیق آباد نواز شریف ڈگری کالج میں دھماکوں و فائرنگ کئے جانے کے فون کرکے پولیس کو الجھائے رکھا اور پھر پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ کے سامنے خودکش حملہ کر دیا گیا۔اس کا مطلب ہے کہ حملہ آور کے مزید ساتھی یہیں کہیںموجود ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کنفیوژ کر رہے تھے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پو لیس لا ئنز میں ہزاروں کی تعداد میں میں ریکر و ٹس اور ریزرو فو رس مو جو د ہو تی ہے۔ ان کی بیر کس بھی یہیں پر ہیں’ یہاں سے اہلکاروں کو مختلف مقا ما ت پر ڈیو ٹی کے لیے روانہ کیا جا تا ہے’ ریفر یشر سکو ل میں نوجو انو ں کی تر بیت کی جا تی ہے۔اس کے علا وہ یہاںپر یڈ گر اؤنڈ ، ہسپتا ل اور مسجد بھی ہے۔اسی طرح لیڈیز پو لیس کے ہا سٹلز میں خو اتین کی بھاری نفر ی کا قیا م ہو تا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہزاروںکی تعداد میں پو لیس ملازمین اپنے معمو لا ت میں مصرو ف ہو تے ہیں۔ سب سے اہم با ت یہ ہے کہ یہا ں پر پو لیس کا اسلحہ ڈپو ہے جہا ں را ئفلز سے لیکر جدید ہتھیار ، گو لیا ں اور آنسو گیس کے شیل ذخیرہ ہو تے ہیں۔
خدا نخو استہ اگر دہشت گردعمارت کے اندر داخل ہو جاتا تو خوفناک تباہی ہو سکتی تھی۔بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تخریب کاری و دہشت گردی کا مرکز اس وقت افغانستان میں ہے جہاں بھارت نے اڈے بنا رکھے ہیں اور دہشت گردوں کی ہر طرح سے پشت پناہی کی جارہی ہے۔سانحہ پشاور کے بعد پاکستانی آرمی چیف نے افغانستان کا دورہ کرکے وطن عزیزمیں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے والوں کے خلاف کاروائی پر زور دیا۔ یوں دکھاوے کے طورپر کچھ کاروائی بھی کی گئی مگر جس طرح عملی اقدامات ہونے چاہئیں تھے وہ نہیں ہو سکے اب ایک بار پھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغانستان جاکر افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور یہی مطالبہ دہرایا ہے۔اگرچہ امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں کا افغانستان پر بہت زیادہ اثرورسوخ موجود ہے لیکن یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کے بعد خطہ کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور امریکیوں کے انخلاء کے بعد بھارت اور دوسری اسلام دشمن قوتیں بھی یہاں ان شاء اللہ نہیں ٹھہر سکیں گی افغان صدر اشرف غنی بھی اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان افغان قیادت پر دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کیلئے دبائو برقرار رکھے ۔ سیاسی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ فاٹا،بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوںمیں بھارتی دہشت گردی سے دنیا کو آگاہ کرے۔ ہمیںمعلوم ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ میں بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی کوششیں کرنے والے کئی لوگ موجود ہیںجن کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ ملک کے طول و عرض میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالہ سے بھارت کا نام زبان پر نہ لایا جائے مگریہ سوچ قومی امنگوں کی ترجمان نہیں ہے۔
Sartaj Aziz
مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے یہ کہہ کر کہ بھارت سے سیکرٹری خارجہ مذاکرات میں ہندوستان کی مداخلت کا مسئلہ سرفہرست رہے گا ‘ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حکومت خود بھی ساری صورتحال سے اچھی طرح آگاہ ہے اسلئے ہم سمجھتے ہیں کہ کسی قسم کی مصلحت پسندی سے کام لینے کی بجائے تمام عالمی فورمز پر بھارتی دہشت گردی کامسئلہ پوری قوت سے اٹھانا اس وقت اس کی اولین ذمہ داریوںمیں سے ہے اور اس کیلئے اپنے سفارت خانوں کو پوری طرح متحرک کرنا چاہیے۔ بھارتی مداخلت کا مسئلہ اٹھانے کی باتیں محض ہندوستان سے مذاکرات کا عمل بحال کرنے کی خاطر عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے نہیں ہونی چاہئیں۔