مقبوضہ کشمیر کے عوام اور قیادت نے ماہ فروری کی 9اور11تاریخ کو گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہڑتال کا اعلان کیا ۔لیکن 9فروری کے روزاحتجاج کے دوران ایک کشمیری لڑکے17سالہ فاروق احمدکی شہادت کے بعد 10فروری کو بھی وادی بھر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔9فروری کا دن مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تاریخ و تحریک آزادی کے باب میں ایک نیا اضافہ بن کر سامنے آیا ہے جب 2سال پہلے بھارت نے مقبوضہ وادی کے قصبہ پلہالن کے رہنے والے ڈاکٹر محمد افضل گورو کو بھارت نے تختہ دار پر لٹکا کر ان کا جسد خاکی بھی وہیں تہاڑ کے بدنام زمانہ قید خانے میں دفن کر دیا تھا۔
محمد افضل گورو پر بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام تھا۔انہیںدسمبر2003کو نئی دہلی میں ہونے والے اس حملے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارت اور دنیا بھر کے بے شمار قانون دانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں نے بار بار کہا تھا کہ محمد افضل گورو کو پھانسی دینا صریح ظلم ہو گا کیونکہ مقدمہ کی نہ تو شفاف تحقیق ہوئی ہے اور نہ انصاف کے تقاضے ہی پورے ہوئے ہیں لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور اس نے افضل گورو کو پھانسی دیدی۔ اس پھانسی کے بعد کشمیریوں نے دنیا بھر میں احتجاج کیا ۔وہ پھانسی کے بعد2سال سے صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں
اس کھلے ظلم کے بعد کم از کم محمد افضل گورو کی لاش تو ان کے حوالے کی جائے تاکہ وہ اسے شرعی تقاضوں کے مطابق اپنے پیاروں کا سامنے دفن کر سکیں لیکن بھارت نے 31سال پہلے شہید مقبول بٹ کے جسد خاکی کی طرح یہ جسد خاکی بھی کشمیریوں کے حوالے نہ کیا۔ یہ سفاکیت اور ظلم و دہشت گردی کی وہ انتہا ہے کہ جس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے لیکن دنیا بھر میں اس پر نہ تو کوئی عالمی قوت زبان کھولنے کو تیار ہے
نہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی ادارہ یا انسانی حقوق کے نام پر بنی کوئی تنظیم۔ سب کے سب بھارت کے سامنے نہ جانے کیوں ہر معاملے میں دم سادھے بیٹھے ہیں۔اس کے بعدسو اب رہ سہ کر کشمیری قوم کے پاس ایک ہی ہتھیار بچ جاتا ہے کہ وہ اپنے اوپر اور اپنے پیاروں پر ہونے والے ظلم کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانے کے لئے احتجاج کا راستہ اپنائیں۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے 9فروری اور پھر 11فروری کو مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کا اعلان ہوا۔ ساری حریت قیادت اس پر یکسو تھی اور سبھی نے یک زبان ہو کر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا فیصلہ سنایا۔ بھارت نے حسب روایت ساری مقبوضہ وادی میں اپنی فورسز متعین کیں۔
ساری حریت قیادت بشمول 87سالہ سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی اور ان کے دیگر ساتھیوں سمیت سبھی کو یا تو بھاری پہرا بٹھا کر گھروں میں قید کر دیا یا انہیں تھانوں اور جیلوں میںپابند سلاسل کر دیا گیا۔ کشمیری قوم نے اس سب کی ذرہ بھر پروا نہ کی اور کشمیری عوام میدان میں نکل آئے۔ جگہ جگہ مظاہرے ہوئے، پولیس اور فوج نے مار دھاڑ کی، ظلم و ستم گری کا بازار گرم ہوا۔ان پرگولیاں اور ڈنڈے برسائے گئے۔ہر صورت احتجاج پر آمادہ کشمیریوں پر بے پناہ زہریلی گیسیں پھینکی گئیں جن سے سینکڑوں لوگ متاثر و معذور ہو گئے۔ افضل گورو کے قصبہ پلہالن میں بھارتی فورسز نے سر اور چہرے پر سیدھی گولیاں مار کر 17سالہ لڑکے فاروق احمد کو شہید تو کئی ایک کو لہو لہان کر ڈالا۔
Indian Army
بھارتی فوج کے ہاتھوں یوں شہید ہونے والے فاروق کادوست منیر احمد جو فائرنگ کے دوران اس کے ساتھ تھا ،نے بتایا کہ سہ پہر3.45منٹ پر جب ہم کرکٹ کھیل کر لوٹے تو ہم نے فورسز کو علاقے میں چھاپہ مارتے ہوئے دیکھا ۔علاقے میںمقامی لوگوں کے ساتھ فورسزکی معمولی جھڑپ جاری تھی۔ جب ہم ایک کلو میٹر کی دور ی پر پہنچے تو فورسز نے ہم پر فائرنگ شروع کر دی ۔میں نے دیکھا کہ فاروق ڈگمگا رہا تھا اور اس کا خون بہہ رہا تھا۔اس کے سر اور چہرے پر گولیاں لگی تھیں۔فاروق کا والد غلام محمد بٹ فائرنگ سے ایک دن قبل ہی دوسرے گائوں میں کھیت پر کام کرنے کیلئے گیا ہوا تھا۔ اس نے فاروق سے سوموار کو 3بجے فون پر بات کی تھی۔
اس دوران یہ باتیں ہوئیں تھی۔ ” بیٹے سنبھل کر رہنا ، کرکٹ کھیل کر سیدھے گھرجانا، ماں کوپریشان نہیں رکھنا۔” اس کھلی دہشت گردی کے بعد اگلے روز یعنی 10فروری کو ایک بار پھر سارے مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال اور احتجاج کا اعلان ہوا۔ شہید فاروق احمد کے جنازے میں شرکت سے روکنے کیلئے سخت سے سخت پہرے بٹھائے اور ناکے لگائے گئے لیکن پھر بھی ہزاروں کشمیری جنازہ کی ادائیگی کیلئے پلہالن پہنچ گئے۔ یہ دن بھی ساری مقبوضہ وادی میں بھرپور ہڑتال اور احتجاج میں گزرا تو اگلا روز کشمیریوں کے بابائے قوم شہید مقبول بٹ کے حوالے سے ”یوم مقبول ”تھا جن کا جسد خاکی 31سال سے تہاڑ جیل میں ہے اور لاشوں سے خوفزدہ بھارت یہ لاشیں بھی ان کے پیاروں کو دینے پر تیار نہیں۔
اس روز بھی ہر طرف ہڑتال رہی، مظاہرے ہوئے، دنیا بھر میں کشمیریوں نے شہید مقبول بٹ کا جسد خاکی واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ یاسین ملک نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارت کی جبری غلامی کے خلاف کمربستہ ہے اور یہ احتجاج آزادی کی صبح طلوع ہونے تک جاری رہے گا۔ یوم مقبول پر کشمیریوں نے مقبول منزل مائسمہ سرینگر سے جو جلوس نکالا اس پر بھی بھارتی فورسز نے حملہ کر کے وہاں موجود کشمیری قائدین کو گرفتار کر لیا۔ اسی روز پتہ چلا کہ بھارتی فورسز نے اپنی تحویل میں موجود ایک کشمیری نذیر احمد کو شہید کر دیا جس پر ایک بار پھر کپواڑہ میں مظاہرے اور ہڑتال شروع ہو گئی۔ یوں کپواڑہ جو مقبول بٹ کا بھی آبائی ضلع ہے ،میں 4دن تک نظام زندگی مسلسل مفلوج و معطل رہا اور بھارتی فورسز اپنے ظلم و ستم کو جاری رکھے رہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں گزرے اس ایک ہفتے نے ایک بار پھر ہر لحاظ سے یہ ثابت کر دیا کہ کشمیری قوم کسی صورت بھارت کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں۔ سارے کشمیری متفقہ طور پر سر کٹوانے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن بھارتی غلامی انہیں قطعاً گوارا نہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزرے ان چار ایام پر عالمی میڈیا تو کجا پاکستانی میڈیا میں کوئی تبصرہ نہیں ہوا بلکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے پر فدا اور اسی میں مست اور غرق ہمارے قومی میڈیا کو بھی کشمیری قوم اور ان کا یہ کئی روز کا تاریخی احتجاج اور بھارت کا بے پناہ ظلم ودہشت گردی نظر نہ آئے۔
اس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کشمیری قوم خود کو بھارتی نہیں پاکستانی کہتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ جب وہ اپنے حق کیلئے اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر آواز بلند کرتے ہیں تو پاکستانی حکومت خاموش نظر آتی ہے۔ آخر پاکستانی حکومت اور سیاستدان اپنے میڈیا کو اس بات پر آمادہ کیوں نہیں کرتے کہ وہ کشمیری قوم کے حق میں آواز بلند کرے۔ ”یوم مقبول” پر پاکستانی حکومت، میڈیا اور سبھی جماعتوں کی خاموشی حیران کن امر ہے۔ نریندر مودی نے تو حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی کشمیری قوم کو مکمل دبا کر ان کی آزادی کی جدوجہد مٹانے کا دعویٰ اور ارادہ کیا تھا۔
کشمیر کی خصوصی دفعہ 370 کو ختم کرنے کا اعلان ہوا۔بیرون ریاست کے ہندو کشمیر میںآباد کر کے وادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا فیصلہ ہوا۔نئی یاترا کا اعلان ہوا۔بھارت میں کشمیریوں خاص طور پر طلبہ کا جینا حرام کیا گیا۔سیلاب کے بعد لٹے پٹے کشمیریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا کہ شاید کشمیری ائسے ہی مر کھپ کر ختم ہو جائیں۔لیکن مودی اور اس کی سرکار کشمیریوں کے سامنے بے بس ہے۔ کشمیری قوم کو اپنے مؤقف سے ذرہ برابر پسپا کرنے میں وہ ناکام و نامراد ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کے اس سب سے بڑے قانونی مسئلہ کو اس انداز سے نہیں اٹھا رہا جس طرح اس کے اٹھانے کا حق ہے۔ کشمیری قوم کی قربانیاں اپنی مثال آپ ہیں جن پر تاریخ ہمیشہ فخر کرے گی۔ سو ہم بھی کہیں گے کہ بھارت نوشتہ دیوار پڑھے اور پاکستان فوری آگے بڑھے اور کشمیری قوم کی لازوال جدوجہد کو پایا تکمیل تک پہنچے۔