اسلام آباد (جیوڈیسک) الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ایک خفیہ خط کی وجہ سے بعض بڑے ناموں کی 5 مارچ کے سینیٹ الیکشن لڑنیکی راہ ہموار ہوئی۔
ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں الیکٹورل رولز ایکٹ 1974 کے سیکشن 20 کونطر اندازکرنیکا کہا گیا تھا۔ سیکشن 20 انتخابات کا شیڈول آنے کے بعدکسی بھی امیدوارکو ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں اپنا ووٹ ٹرانسفرکرنے سے روکتا ہے۔ یہ خط(جسکی کاپی ایکسپریس ٹریبیون کے پاس ہے) سینیٹ الیکشن کا شیڈول آنے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ریٹرننگ افسران کو بھیجا گیا۔
اس مبینہ رابطے نے کئی اہم سیاسی رہنمائوں کے کاغذات منظور ہونے میں مددکی جو کہ اس صوبے کے رہائشی نہیں تھے جہاں سے انہوں نے کاغذات جمع کرائے۔سینٹ الیکشن کیلئے کمیشن نے اپنے سینئر افسران کو ریٹرننگ افسر مقررکیا تھا۔ کاغذات کی جانچ پڑتال کیلئے الیکشن کمیشن نے 11 دیگر محکموں کی خدمات بھی حاصل کی تھیں اسکے باوجودکاغذات کی جانچ پڑتال کے عمل پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
184 میں سے 144 امیدواروں کے کاغذات منظورکئے گئے ہیں،صرف آزاد امیدواروں کے کاغذات ہی مستردکیے گئے۔ کاغذات نامزدگی پر واضح سوال اس وقت اٹھاجب ریٹرننگ افسر نے مسلم لیگ ن کے 2 امیدواروں اقبال ظفرجھگڑا اورراحیلہ مگسی کے کاغذات اسلام آبادکی نشست سے منظورکرلیے جبکہ یہ دونوںاسلام آبادکے رہائشی ہیں نہ انکے ووٹ اسلام آبادمیں اب درج کئے گئے۔اسی طرح پنجاب اورسندھ کے کئی امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ ملنے کے بعددوسرے صوبوںمیں ووٹ درج کرائے۔
پیپلز پارٹی کے نرگس فیض ملک نے مسلم لیگ ن کی امیدوار راحیلہ مگسی پر یہی اعتراض اٹھایا تھا تاہم قائم مقام سیکریٹری الیکشن کمیشن اور اسلام آباد کیلئے ریٹرننگ افسر شیرافگن نے اس اعتراض کومستردکردیا۔انھوں نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھاکہ اس سینٹ الیکشن پرالیکٹورل رولز ایکٹ 1974 کے سیکشن 20 کا اطلاق نہیں ہوتا۔نرگس فیض ملک نے اس فیصلے کیخلاف اعلیٰ عدالتوں میں جانیکا اعلان کیاہے۔
انکاکہنا تھاکہ آر اونے دبائو میںفیصلہ دیا،انکے مطابق مسلم لیگ ن کے 4ایم این ایز اس وقت تک آر او کے دفتر میں موجودرہے جب تک انہوں نے فیصلہ جاری نہیں کردیا۔الیکٹورل رولز ایکٹ 1974 کے سیکشن 19 کے تحت صرف چیف الیکشن کمشنر ہی خاص حالات میں الیکشن رولزمیں تبدیلی کرسکتے ہیں۔