کر رہے تھے غم دوراں کا حساب ہم جاناں اور اس حساب میں تم یاد بے حساب آئے ملا نہ پھر کبھی تیرے جیسا دم ساز کبھی گو زندگی میں لاکھوں انقلاب آئے عزت ملی شہرت ملی ،رسوا بھی ہوئے تیری طرف سے بھی درجنوں خطاب آئے غموں کی دھوپ میں کاٹا ہے زندگی کا سفر تمھاری یاد کی سختی میں کئی عذاب آئے غبار غم میں اٹے ہوئے تھے سب رستے حقیقتوں سے ملتے ہوئے سراب آئے لکھ لکھ کے کاٹی ہیں من کی باتیں سبھی کتاب زندگی میں ایسے بھی ابواب آئے یہ اور بات کہ کانٹوں سے عبارت تھی ورق زیست پہ مگر لکھا ہوا گلاب آئے