تحریر: ملک ارشد جعفری دور حاضر قیامت کے قریب کا زمانہ سمجھا جاتا ہے اس میں فساد اور شر اپنے کمال پر ہے زندگی کی شاہراہ پر کانٹے پھول بنے ہوئے ہیں دام خوشنما نظر آتے ہے۔ صیاد، مہربانوں کے روپ میں جلوہ گر ہیں، راہزن رہنما دکھائی دیتے ہیں او ر ذروں پر ستاروں کا گما ن گزرتا ہے بظاہر سازشیں بھی نواز شیں لگتی ہیں گویا شیطان نے ہر بری بات کو ہمارے لیے خوبصورت بنا رکھا ہے۔
ہر چمکتی شے کو سونا سمجھ کر ہم دھوکے میں آجاتے ہیں آج جھوٹے مکر و فریب کا لبادہ اوڑھے ہمارے بعض سیاستدان پاکستان میں جو شیطانی کھیل رچا کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ان کو بے پردہ کرناہمارے اہل دانش کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے ملک دشمن افراد کو عوام کے سامنے بے نقاب کریں۔ جو لسانی بنیادوں پرسیاسی جماعتیں بنا کر ملک میں فساد برپا کیے ہوئے ہیں۔
کراچی جو کل تک امن کا گہوارہ تھا اس کو تباہ اور برباد کرنے والی قوتیں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور پاک فوج کی طرف سے ملک دشمن دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشن جاری ہے اس کا دائرہ کراچی اور بلوچستان تک بڑھایا جائے اور مختلف وارداتوں میں پکڑے جانے والے دہشت گردوں کے کیسوں کا ٹرائل آرمی کو رٹ میں کیا جائے خاص طو پر سانحہ بلدیہ ٹائون کے واقعہ کے ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانے سے ہی کراچی کا امن وابستہ ہے اس سلسلے میں کسی سیاسی جماعت کا دبائو قبول کرنے کی بجائے دہشت گردی میں ملوث بعض سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے مکمل تحقیقات کر کے بھتہ مافیاء کا خاتمہ ممکن بنایا جائے۔
Raheel Sharif
یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف خود اس معاملہ میں ایک اپنا خصوصی کردار ادا کریں گے کیونکہ موجودہ اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ ملکی مفادات پر اپنے سیاسی مفادات قربان کر سکیں اور ایسے بااثر افراد کے خلاف ایکشن لے سکیں جو سیاست کواپنے ذاتی مفادات اور ملک دشمن سر گرمیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں ملک میں جاری حالیہ فرقہ ورانہ دہشت گردی کے واقعات خاص طور سانحہ شکار پور امام بارگاہ واقعہ کے ذمہ داروں کا سراغ لگایا جائے اور اس میں ملوث ماسٹر مائنڈز تک پہنچا جائے کیونکہ اس وقت دہشت گردوں کا نشانہ اہل تشیح کی مساجداور امام بارگا ہیں ہیں حکومت کو چاہئیے کہ وہ فرقہ ورانہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کے خلاف فوری ایکشن لیں جو ملک کے امن و امان کو خراب کر نے کی کوششیں کر رہی ہیں اور اہل تشیح مسلک کے افراد کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کرنے میں ملوث ہیں۔
اٹک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث کئی افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں تاہم ابھی تک تحقیقات کا دائرہ کار محدود ہے پنجاب پولیس ایسے افراد کے خلاف بھی ایکشن لے جو بعض مدارس اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کی آڑلے کر خود کو تحفظ دئیے ہوئے ہیں اس سلسلے میں بلا تفریق بے رحم ا پریشن کی ضرورت ہے جس کے ذریعے بے گناہ افراد کا خون سے ہاتھ رنگنے والے درندوں وحشیوں کا خاتمہ کیا جاسکے اور انسانیت کے دشمن ان افراد کو نشان عبرت بنا یا جا سکے۔
دہشت گردوں کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان دہشت گردوں کے پیچھے چھپے ہوئے افراد کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا جا تا جو دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کے ساتھ ساتھ ان سے دلی ہمدردی بھی رکھتے ہیں اور خود کو ہی عقل کل سمجھتے ہوئے خود کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے یہ تلے رہتے ہیں اس منفی سوچ کا خاتمہ اس وقت ہی ممکن ہے جب پوری قوم یک زبان ہوکردہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرے۔ ضلعی انتظامیہ اٹک اس سلسلے میں قابل تحسین کام کر رہی ہے اور ایسے جرائم پیشہ دہشت گردوں کے خلاف خفیہ ا پریشن جاری ہے ۔گھر گھر چیکنگ کر کے ایسے افراد کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے جو اٹک میں مذہبی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث ہیں یا پھر ایسے افراد کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔