موروثی سیاست سے مایوس این اے 181 کے عوام

Majeed khan with Ch Sarwar

Majeed khan with Ch Sarwar

تحریر: ایم آر ملک
پاکستان میں عوام شعور نہیں اپنی توقعات جھولی میں ڈال کر ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اور جیتنے والے کسی بھی اُمیدوار سے یہ توقعات جب ٹوٹتی ہیں تو آنے والے الیکشن سے قبل ان توقعات کا ٹوٹنا ہی مایوسی میں بدلتا ہے اور پھر یہی مایوسی اُس اُمیدوار کی عبرت ناک شکست میں تبدیل ہو جاتی ہے این اے 181میں 2008کے الیکشن میں چوہدری الطاف حسین کی پہلی بار عوام میں ناقابل یقین حد تک پذیرائی صاحبزادہ فیض الحسن اور سردار بہادر خان سے مایوسی کا شاخسانہ تھی عوام نے موروثی سیاست سے تنگ آکر چوہدری الطاف حسین کی طرف اعتماد کا ہاتھ بڑھایا یہ چوہدری الطاف حسین کی غلطی تھی یا سیاسی مصلحت کہ اُنہوں نے 47ہزار سے زائد ووٹ لیکر اگلی بار عوامی اُمنگوں پر پانی پھیر دیا وگرنہ 2013کا الیکشن عوام چوہدری الطاف حسین کے نام کر چکے تھے۔

اُس روز ایک دوست کے کام کے سلسلے میں کروڑ سے مغرب کی جانب کوسوں دور ایک بستی میں جانا ہوا ایک ڈیرہ پر جب ہم پہنچے تو ہماچے پر بستی کے لوگ اپنی محفل جمائے خوش گپیوں میں مشغول تھے وہی پرانا کلچر جس کیلئے ہمارا آج ترستا ہے اُس ڈیرہ پر نظر آیا پرانے بزرگ اپنے گزرے وقت کے گزرے لمحات کی مالا جپنے میں مصروف تھے اور چارپائیوں پر بر اجمان ان بزرگوں کے درمیان ہمارے وسیب کی ایک نشانی ”حُقہ ”نظر آیا جس کی ”نڑی ”گھومتی تو ا تحادو اتفاق کا ایک نیا احساس جنم لیتاکہتے ہیں جب انگریز بر صغیر سے رخصت ہوا تو ہمارے اتفاق و اتحاد کی چادر کو پارہ پارہ کرنے کیلئے جس طرح دیگر چالوں میں کامیاب رہا وہاں سگریٹ کا تحفہ ہمیں ودیعت کر گیاانگریز کی سلگائی ہوئی سگریٹ نے جہاں ہمیں دل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں دیں وہاں ”حقے ”کے خاتمہ کا سبب بنی اور رات گئے تک جو حقہ محفلوں کی شان تھا ہمارے ا تحاد و اتفاق اور دیہی انسانوں کے دکھ ،سکھ کی سانجھ کی نشانی تھا اُسے بھی اس لعنت نے نگل لیا دریائے سندھ وہاں سے بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا میر ایک صحافی دوست جو ہمارے ساتھ تھا اُس نے جب یہ عوام دوست ماحول دیکھا تو بہت خوش ہوا نشیبی علاقہ کے بزرگ ہمیںپہلی بار یوں ملے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔

محفل نے اپنا رنگ جمایا تو ایک سفید باریش بزرگ سے ہمارے دوست نے یہ سوال کیا کہ بابا کیا یہاں کے عوامی نمائندوں نے آپ کے دکھوں کا مداوا کیا ؟تو اُس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پُتر ایں گالھ کوں رہون ڈے ”میرا دوست جو اپر پنجاب سے تعلق رکھتا تھا اور سرائیکی زبان پر اتنا زیادہ عبور نہیں رکھتا تھا نے میری طرف سوالیہ اور معنی خیز نظروں سے دیکھا جیسے نشیبی علاقہ کے اُس بابا کے الفاظ کا مفہوم جاننے کی نا کام کوشش کر رہا ہومیں نے اپنے دوست سے کہا کہ با بایہاں کے عوامی نمائندوں سے مایوس ہے اور وہ مایوسی کی اس انتہا پر ہے کہ اس بات کو اب چھیڑنا نہیں چاہتا تاہم اس مایوسی کے باوجود میرا دوست کچھ سننے کا خواہاں تھا بوڑھے نے کہا کہ بیٹا ہم نے ہمیشہ یہاں ایک سردار گھرانے کے افراداور ایک گدی نشین کو اپنا نمائندہ چنا ہے اور موروثی سیاست کی شکل میں اُن دو خاندانوں کا تسلط ٹوٹنے میں نہیں آرہا اور یہ وہ لوگ جو جیت کے بعد ہمارا سودا پارٹی وفاداریاں بدلنے کی شکل میں کرتے ہیں 2008کے الیکشن میں ہمیں یہ اُمید چوہدری الطاف کی شکل میں دکھائی دی گو چوہدری الطاف 2008کے الیکشن میں شکست کھاگئے لیکن اُن کی شکست بھی آبرو مندانہ انداز میں ہوئی لوگ اُس کی شکست کو اپنی جیت تصور کرتے رہے گو اس الیکشن میں مقامی سردار جیت گیا مگر عوام کو موروثی سیاست سے تبدیلی اور نجات کی شکل چوہدری الطاف کی صورت میں دکھائی دی اسی دوران 2010کے سیلاب کی آفت ہم پر ٹوٹی اس سیلاب نے جہاں ہمارے گھر بار تباہ کئے ،ہمار امال اور مویشی منہ زور پانی کے ریلے میں بہہ گیا وہاں ہماری انا ،خودداری بھی سندھ کا یہ پانی بہا کر لے گیا 2010کے اس سیلاب میں کروڑ کے ایک سپوت نے نہ صرف ہمارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا ،بلکہ نشیبی علاقہ کے بے یارو مددگار عوام کو اُجڑنے کا احساس تک نہ ہونے دیانشیبی علاقہ کے ایک ایک دروازہ پر دستک دیکر وہ اُن کی ضروریات پوری کرتا رہا وہ بچے جو کپڑوں سے محروم ہوئے اُن کے تن پر لباس آگیا ،کوئی بیمار ہوا تو اُس کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر قریبی ہسپتال پہنچایا اُس کی ادویات سے لیکر اُس کی صحت کی بنیادی سہولیات تک کا مداوا کرتا رہا وہ افراد جو سیلاب سے قبل اپنے علاقہ میں سفید پوشی کا بھرم تھے وہ عزت نفس مجروح ہونے کے خوف سے کسی کو اپنی ضروریات بتانے سے کتراتے۔

Election

Election

اس نوجوان نے اُن کی مدد اس طرح کی کہ دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلا 2013کا الیکشن آیا تو چوہدری الطاف حسین جو این اے 181میں اُمید کی شکل میں عوام کے اذہان میں تھا اُس نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے این اے 181کے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑا دی عوام نے میاں نواز شریف کی جلاوطنی کو مد نظر رکھتے ہوئے صاحبزادہ فیض الحسن سے ایک بار پھر اُمیدیں وابستہ کر لیں نشیبی علاقہ کے عوام نے صاحبزادہ فیض الحسن کے حق میں ریفرنڈم کی طرح اپنے ووٹ کاا ستعمال کیا بھکر کی سرحد سے لیکر جھنگ کی سرحد تک صاحبزادہ فیض الحسن کی عوامی حمایت کے ریلے کی گرد میں مد مقابل نتائج سے قبل شکست کھا گئے لیکن جیت کے بعد صاحبزادہ فیض الحسن بھی اپنے ووٹرز سے لاتعلق ہو گئے تھانہ کی سیاست سے وہ بھی عوام کی جان نہ چھڑا سکے نشیبی علاقہ کا بزرگ خاموش ہوا تو میرے دوست نے کہا کہ با با اس بار پھر آپ ایک سردار کو چنیں گے ؟بابا کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے جیسے کسی کو اپنی گم شدہ میراث مل جائے۔

جیسے ڈوبتے کو زندگی کا سہارا مل جائے ،کہنے لگا نہیں بیٹا اس بار اُس نوجوان نے جسے این اے 181کے عوام ہر دکھ میں اپنا شریک پاتے ہیں نے این اے181کے عوام کی نمائندگی کیلئے اعلان کر دیا ہے اور بیٹا جن لوگوں کے ساتھ عوام کے جذبات کھڑے ہوتے ہیں اُنہیں کوئی نہیں شکست دے سکتااُس نوجوان کے ساتھ عوام کے جذبات کھڑے ہیں آئند ہ الیکشن میں عوام موروثی سیاست کو قبول نہیں کریں گے رات اپنا نصف سفر طے کر چکی تھی آگ کا الائو دہکتے ہوئے انگاروں میں تبدیل ہو چکا تھا حقے کی آواز چند ہونٹوں تک محدود ہو چکی تھی جب میرے دوست نے بابا سے کہا کہ این اے 181کی ساری سیاسی تمہید آپ نے باندہ لی لیکن اُس نوجوان کا نام نہیں بتایا جسے آپ این اے181کا مسیحا سمجھتے ہیں با با زیر لب مسکرایا اور بولا بیٹا اُس کا نام مجید خان نیازی ہے این اے 181 میں عوامی نمائندگی کے تاج کا آئندہ وارث۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک