جناب حسن نثار صاحب کی خدمت میں

Allama Iqbal

Allama Iqbal

تحریر:ابن نیاز
حسن نثار صاحب کسی زمانے میں بہت اچھا لکھتے اور اب بھی بہت اچھا لکھتے ہیں لیکن جب سے ان کو لوگ پہچاننے لگے ہیں ان کے قلم میں خم آگیا ہے۔ اب ان کے لکھنے کا انداز دوسروں کی باتوں میں سے باتیں نکالنے سا ہو گیا ہے، جسے ہم عرف عام میں مین میخ نکالنا کہتے ہیں۔ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے یومِ ولادت پرانھوں نے ایک کالم لکھا تھا جس میں انھوں نے اقبال جیسے مردِ مومن کو ایک عام سا شاعر کہا تھا۔ علامہ اقبال کو انھوں نے اس درجے کا شاعر کہا تھا کہ جن کی شاعری کو بالکل بھی توجہ نہیں دینی چاہیے۔ وہ علامہ اقبال جن کا کلام گویا قرآن پاک کا منظوم مفہوم شدہ ترجمہ ہے۔ رسول پاک سے عشق کا یہ عالم تھا کہ جب آپ ۖ کا نام مبارک علامہ کے سامنے لیا جاتا تھا تو انکی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آجاتے تھے ۔ بے اختیار ان کے لبوں پر درود پاک جاری ہو جاتا تھا۔ ان کا کلام ایران میں پڑھایا جاتا ہے۔ اور حسن نثار صاحب کہتے ہیں کہ وہ ایک اناڑی اور عام سے عمومی شاعر تھے۔ کالم نویس کے نام کے ساتھ میں نے صاحب اس لیے لگایا کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں، ورنہ میرا دل ہر گز نہیں چاہتا۔

بے شک حسن نثار صاحب کا علم بہت زیادہ ہے اور وہ اس علم کا استعمال بھی بہت کرتے ہیں۔ اپنے کالمز میں ، ٹی وی پروگرامز میں وہ دوسروں کی دال نہیں گلنے دیتے۔ اپنے علم میں وہ اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ انکی سمجھ کے مطابق ان سے آگے کوئی نہیں ہے۔ جو بھی ان کے آگے بات کرتا ہے، حسن نثار صاحب ان کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مفکر، علامہ، مفتی سمجھتے ہیں۔ اور میرے خیال میں انھوں پچھلے کچھ عرصہ سے اسلامی کتابیں بھی پڑھنا شروع کی ہیں، وہ کتابیں جو تحریفوں سے بھری پڑی ہیں، جو ان لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جنھوں نے ان کو لکھنے کے لیے باقاعدہ دوسری اقوام سے وعدے کیے ہیں۔ یا پھر ان کو اسلام کی تعلیمات پسند نہیں آئیں کہ وہ انکی زندگی میں قدغن لگاتی ہیں۔ ان کو صغیرہ و کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے بچاتی ہیں۔ تب ہی جناب حسن نثار صاحب بھی مختلف معاملات کی اپنی مرضی کی تشریح کرتے ہیں۔

آج ہی میری نظر سے ان کی ایک مختصر تحریر نظر سے گزری جو کہ ویلیٹائن ڈے سے متعلق تھی۔اس تحریر کی پہلی سطر ہی دل کو دہلا دینے والی تھی۔ اللہ پاک کے اس فرمان سے بالکل الٹ تھی جس کے مفہوم کے مطابق جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا کل کو اسی قوم کے ساتھ اٹھا یا جائے گا۔ پھر یہ کے بے حیائی کے کاموں کو جو پھیلانے میں جس حد تک مدد دے گا، وہ گویا اس بے حیائی کے گناہ کو پھیلانے میں پورا پورا گناہ میں شامل ہو گا۔ اور حسن نثار صاحب کہتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے منانا چاہیے یا نہیں، یہ ایک فضول بحث ہے۔ جو منانا چاہتا ہے منائے اور جو نہیں چاہتا وہ نہ منائے۔ میرا سوال حسن نثار صاحب سے یہ ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ اللہ اور اسکے رسول پاک ۖ کا کلمہ پڑتے ہیں۔ کل بہت سے ہندوئوں کو دیکھتے ہوئے آپ کا جی چاہے کہ آپ بھی کسی بھگوان کے آگے سجدہ کریں، تو کیا کر لیں گے؟ کل آپ کا جی چاہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ لازمی نہیں کہ آپ کسی نامحرم سے ہی شادی کریں، بلکہ آپ کو اگر اپنی بہن اس حد تک اچھی لگتی ہے کہ اس کے بنا آپ کو گھر سونا لگتا ہے تو آپ اپنی بہن سے ہی شادی کر لیں تو کیا آپ کہہ لیں گے؟ یقینا آپ یہ بات عوام سے کہہ دیں گے۔کل آپ کہیں گے کہ جس کا جی چاہے نکاح کرے، جس کا نہیں چاہتا نہ کرے، بنا نکاح کے اکٹھے رہ لیں۔

Allah

Allah

اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں کہ مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ نیکی کے کاموں کی طرف لوگوں کو بلائے اور برے کاموں سے ان کو روکے۔ تو یہ جو ویلنٹائن ڈے منانے سے پاکستانی قوم کو اور بالخصوص مسلمانوں کو روکا جا رہاہے وہ قرآن کے اسی حکم کے تحت ہے۔ آپ نے تو گویا قرآن کا ہی انکار کر دیا۔ یا کم از کم اس آیت اور اس جیسی آیات کا انکار کر دیا۔ پھر جو آپ نے دوسری بات کی کہ بہت سوں کے پلے یہ بات نہیں پڑ رہی کہ اب کوئی تہوار کسی کا ذاتی نہیں رہا۔ بلکہ دنیا کے گلوبل ویلج ہونے کے ناطے سارے تہوار آپس میں مل جل گئے ہیں اور یہ لازم ہے کہ وہ گھُل مل جائیں۔آپ کے بقول ہمارا کھانا پینا، پہننا گہری مماثلت رکھتا ہے۔ جناب عالی! انگریز تقریباً ہر ممنوع جانور کا گوشت کھاتے ہیں جن میں خنزیر، چوہے، کیکڑے، سیہہ، وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ مسلمان ، اللہ ہمیشہ محفوظ رکھے، ان جانوروں کا گوشت کھانے سے دور دور بھاگتے ہیں۔ انگریز چرچ میں جا کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نعوذ بااللہ، اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ جب کہ ہم مسلمان انہیں کلمتہ اللہ اور روح اللہ اور اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ ہم چرچ کی بجائے مسجد میں پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں۔ پھر ہمارے عید کے تہوار ہوتے ہیں، جو کہ کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ہیں۔ تو ہمارا کلچر کیسے ایک ہو گیا۔ ہمارے مذہب کے مطابق اگر ہم ماں باپ کی نافرمانی کریں گے تو اللہ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ ہمارا مذہب ہی ہے جس نے ہمیں اپنے والدین کی عزت کرنا سکھایا۔ جس نے یہ کہا کہ اگر ہمارے ماں باپ بوڑھے ہو جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو۔ جب کہ انگریزوں نے اولڈ ہائوسز بنائے ہوئے ہیں جیسے ہی اولاد بالغ ہوتی ہے یا شادی کر لیتی ہے تو وہ اپنے ماں باپ کو ان اولڈ ہاوسز میں بھیج دیتے ہیں پھر بھول کر بھی شاید ان کی طرف نہیں جاتے۔ اور آپ کہتے ہیں کہ ہمارے کلچر ایک ہیں۔

کیا کاروں، ایئر کنڈیشنز، ٹی وی وغیرہ ایک جیسے ہونے سے بھی کبھی کلچر ایک ہوتا ہے۔ یہ تو استعمال کی چیزیں ہیں جو ہر گھر میں ہوتی ہیں۔ جبکہ کلچر تو ہماری زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ تہوار کسی کے ذاتی نہیں ہوتے ۔ بے شک تہوار کسی کے بھی ذاتی نہیں ہوتے۔ اور خاص طور پر مسلمانوں کے جو چند تہوار ہیں وہ تو بالکل بھی ذاتی نہیںہیں، کیونکہ وہ اللہ کے حکم کے تحت منائے جاتے ہیں نہ کہ اس میں کسی بھی انسان کی ذاتی کوشش ہوتی ہے۔ تو جو تہوار اللہ کے حکم کے مطابق ہوئے، وہ ہندو کیسے منا سکتے ہیں، یہودی ، عیسائی کیسے ان تہواروں کو اپنا سکتے ہیں ۔ وہ ہر گز ان تہواروں کے قریب بھی نہیں جا سکتے کہ اس کے لیے انہیں حضرت محمد ۖ کی نبوت پر ایمان لانا ہو گا، انہیں خاتم النبیین سمجھنا ہو گا۔

بے راہ روی کو آپ بے حیائی نہیں کہتے۔ تو اپنے رشتہ دار خواتین کو پھر ہر وہ کام کرنے کی کھلی اجازت دے دیں جو انگریز کرتے ہیں۔ جس طریقے سے وہ بارز، پبز میں جاتے ہیں، شراب پی کر مخلوط محافل سجاتے ہیں، اپنی رشتہ دار خواتین کو بھی یہ سارے کام اسی طرح انجام دینے کی اجازت دے دیں۔ انہیں تنہائی میں دوسرے مردوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے گلے ملنے کی اجازت دیں۔ کیوںکہ یہ تو انکا آزادانہ حق ہے، بے راہ روی ہر گز نہیں۔ کوئی بھی آپ کی طرف انگلی نہیں اٹھائے گا، اگر اٹھائے گا تو وہ آپ کی ذاتی زندگی میں گویا دخل اندازی کرے گا۔ ظاہر ہے یہ بات آپ کو ہر گز قبول نہیں ہو گی۔

آپ نے جن اجتماعی بیماریوں کی بات کی ہے وہ بالکل درست کی ہے۔ کسی کی بھی ان کی طرف توجہ نہیں۔ تو حضرت ان کے بارے میں بھی میں یہی کہوں گا کہ وہ بھی انفرادی حیثیت میں شروع ہوتی ہیں اور اجتماعیت تک جاتی ہیں۔کوئی اگر ٹیکس چوری کرتا ہے تو یہ اسکا انفرادی فعل ہے۔ اس کو یہ سمجھایا جائے کہ اسلام کی رو سے حکومتِ وقت نے جو ٹیکس لگایا ہے اگر وہ نہیں دے گا تو اسلام کے احکامات کی خلاف ورزی ہو گی۔ جب وہ اس بات کو سمجھے گا تو لازمی ہے کہ وہ ٹیکس دے گا۔ جب ایک فرد ٹیکس دے گا تو وہ دوسروں کو بھی قائل کرے گا، جس کی وجہ سے معاشرے میں ٹیکس دینے کا رواج بڑے گا۔شادی غمی پر ٹینٹ لگا کر راستے روکنے کو آپ نے بے راہ روی اور بے حیائی کا نام دیا ہے۔ میں یہ تو مانتا ہوں کہ یہ راستہ روکنے والی بات غلط ہے ۔ لیکن آپ نے یہ نہیںلکھا کہ شادی میں جو بے جا اخراجات ہوتے ہیں وہ کیا ہیں؟ کیا وہ کسی غریب کی چادر سے باہر تو نہیں۔کم تولنا، جھوٹ بولنا، ملاوٹ کرنا یقیناً غلط ہے۔ نہ صرف غلط ہے بلکہ کم تولنے کی وجہ سے تو حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب بھی نازل ہوا تھا۔ لیکن آخر عوام ان بیماریوں میں مبتلا کیوں ہے؟ اس کی وجہ تو آپ نے لکھی ہی نہیں۔

محترم جناب حسن نثار صاحب، میں کم فہم، کم عقل، کم علم ، کم حیثیت کا بندہ ہوں۔ لیکن اگر آپ یا کوئی اور بھی اس طرح کی بات کرے گا تو ظاہر ہے کوئی بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو گا کہ آپ نے درست کہا۔ہمارے معاشرے میں یہ جو اخلاقی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کے پھیلنے کی پہلی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اور دوسری وجہ حکومت وقت کے بے جا مظالم۔ اور تیسری وجہ عوام کی جائز ضروریات پوری نہ کرنا۔ جب ان کو سرکاری ہسپتال میں اچھا علاج نہیں ملے گا، ڈاکٹر انہیں پرائیویٹ ہسپتال میں جانے کا کہے گا جس کے اخراجات انکی جیب خرچ سے زیادہ ہوں گے تو وہ لازمی کم تولنے پر، ملاوٹ کرکے اشیاء فروخت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جب کسی دفتر میں ماتحت کو کسی جائز کام کے لیے چھٹی چاہیے ہو گی اور اس کا افسر اسکو چھٹی نہیں دے گا تو پھر ماتحت جھوٹ بول کر کوئی ایسا بہانہ بنائے گا جس کی وجہ سے باس چھٹی دینے پر مجبور ہو گا۔شادی میں جب لڑکے والے جہیز کی ایک لمبی فہرست لڑکی والے کے ہاتھ میں تھما دیں گے یا لڑکی والے حق مہر میں لاکھوں روپے لکھوائیں گے ساتھ میں پلاٹ اور مکان بھی لڑکی کے نام کرائیں گے تو دونوں خاندان مجبور ہوں گے کہ رقم کمانے کے لیے وہ ناجائز ذرائع استعمال کریں۔ تو قصور کس کا ہوا؟

Iibn E Niaz

Iibn E Niaz

تحریر:ابن نیاز