تحریر : ابنِ نیاز لو جی کر لو گل۔ پھر جہیز کی بات ہوئی، پھر لڑکی والوں کی جنگ ہنسائی ہوئی، پھر لڑکے والے بارات واپس لے گئے۔ یعنی کمال کی ٹانگیں توڑ دیں دونوں پارٹیوں نے مل کر۔ اور بے چارہ کمال یہ سوچتا رہ گیا کہ سوچا تھا کیا اور کیا ہو گیا۔ یہ موضوع کوئی نیا نہیں ہے۔ سینکڑوں ہزاروں آرٹیکلز، کالمز، اداریے اس موضوع پر لکھے جا چکے ہیں۔ مختلف میڈیا چینلز پر اس حوالے سے بحث و مباحثہ ہو چکا ہے، محفلیں سج چکی ہیں۔ لیکن آج تک کوئی اسکا حل نہیں نکال سکا۔ اور نکل بھی کیسے سکتا ہے کہ باتیں تو سب کرتے ہیں لیکن جو فلسفہ یا حکمت یا فیصلہ اسکے پیچھے پنہاں ہے اسکو کوئی سوچتا تک نہیں چہ جائیکہ بیان کیا جائے میں کوئی عالم نہیں، کوئی تاریخ دان نہیں بلکہ طفلِ مکتب ہوں ۔ ہر دم سیکھنے کو جدو جہد میں رہتا ہوں۔ باوجود اس کے دل چاہا کہ اس موضوع پر کچھ بات کروں۔ کوئی قطعاً یہ نہ سمجھے کہ چونکہ میں خود اس چیز (جہیز) کا ڈسا ہوا ہوں اسلیے دل کی بھڑاس نکال رہا ہوں۔ نہیں۔بلکہ گذشتہ چند ہفتوں سے اس موضوع پر یکے بعد دیگرے کئی تحریریں نظر سے گزری ہیں۔ کئی جگہوں پر اس موضوع بات چیت سنی۔ اور ہر جگہ ہر تحریر میں ہر دو پارٹیوں کو ہی قصور وار ٹھہرایا جا رہا تھا۔ بنا کوئی دلیل دیے، بنا کسی ثبوت کے لڑکے والے بیٹی والوں کو اور بیٹی والے لڑکے والوں پر الزام دھر رہے تھے۔ جہیز کے حوالے سے ہمارے دین میں ہمارے لیے کیا رہنمائی ہے ؟ کیا کہیں سے یہ علم ہوتا ہے کہ جہیز ہے کیا؟ ایک لعنت، مطالبہ یا رسم؟ جہیز کو لعنت کہنے والے لوگوں میں سے اکثریت خود اس لعنت میں مبتلا ہوتی ہے۔ بھری محفل میں یا جہاں اس پر بات ہو رہی ہو ، دوسروں سے بڑھ کر اسے لعنت لعنت کہتے ہیں۔ لیکن جب اپنی باری آتی ہے ، بیٹی کے باپ ہوں یا بیٹے کے اس لعنت میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں۔ لڑکے والے اگر ہیں تو جہیز کے سامان کی ایک لمبی فہرست لڑکی والوں کو تھما دیتے ہیں۔ اور اگر لڑکی والے ہیں تو اکثر اپنی اوقات سے بہت بڑھ کر بیٹی کو جہیزدیتے ہیں مبادا کل بیٹی کو اسکے سسرا والے طعنے دیتے رہیں اور اسکے ساتھ برا سلوک صرف اس وجہ سے کریں کہ وہ جہیز میں سامان کم لائی تھی۔
اتنا جہیز دینے کے لیے چاہے بیٹی کے باپ کو اِدھر اُدھر سے قرض کیوں نہ لینا پڑے، اپنے آپ کو گروی کیوں نہ رکھنا پرے۔ البتہ جن کی استطاعت ہے یعنی مال و دولت والے ہیں وہ بھی جہیز دیتے ہیں تو جہیز کے سامان کی نمائش ضرور کرتے ہیں، محلہ بھر میں بتاتے پھرتے ہیں کہ یہ سامان ہے وہ سامان ہے۔دوسرے لفظوں میں ریاکاری کے مرتکب ہوتے ہیں اور ریاکاروں کے بارے میں قرآن میں آتا ہے کہ ان کے لیے بہت خرابی ہے ۔ نماز بھی جو اس طرح پڑھتے ہیں کہ دوسرا دیکھے اور تعریف کرے، یا دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں ان کو بھی ریاکار کہا گیا ہے۔ اور اسی کے ساتھ تفسیر میں عام ریاکاروں کو بے نمازیوں کے ساتھ ملا کر کہا گیا ہے۔ تو اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انکے لیے کتنا عذاب ہو گا۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم نے اپنی لاڈلی اور پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا تھا وہ کچھ اس طرح سے تھا۔دو یمنی چادریں، دو نہالی جس میں آلسی کی چھال بھری ہوئی تھی، چار گدے، چاندی کے دو بازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک پانی رکھنے کا برتن یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک چارپائی یا پلنگ بھی آیا ہے۔ اس فہرست کو غور سے دیکھیں تو سب سے پہلے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہیز سادگی کا بہترین نمونہ ہے۔ پھر کوئی بھی چیز فالتو نہیں، سب کی سب استعمال کی چیزیں تھیں۔ کوئی میک اپ کا سامان نہیں تھا۔ کوئی صوفہ سیٹ یا کرسیاں نہیں تھیں، کوئی سنگھار میز، شوکیس نہیں تھا۔کیا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم یہ سب اشیاء اپنی بیٹی کو جو سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھیں، نہیں دے سکتے تھے۔ لیکن اپنی امت کے لیے ایک نمونہ بھی تو پیش کرنا تھا۔ کہ جہیز دینے لگو تو دو باتیں مد نظر رکھو۔ ایک تو اپنی حیثیت کے مطابق ، دوسرا وہ چیزیں جو قابلِ استعمال ہوں۔ نہ کہ رکھے رکھے خراب تو ہو جائیں، لیکن استعمال میں ایک آدھ مرتبہ کے بعد غائب ہو جائیں کہیں سالوں میں لڑکی استعمال کرے۔ اب جہاں تک حیثیت کی بات ہے تو صاحبِ مال و دولت ظاہر ہے زیادہ جہیز دے گا لیکن اس میں بھی اس بات کا بطورِ خاص خیال رکھے کہ نمود و نمائش کا اظہار نہ ہونے پائے ورنہ ایک مستحسن عمل میں ریاکاری شامل ہو جائے گی اور سارا ثواب غارت ہو جائے گا۔
ویسے اکثر علماء کرام رسولِ پاک صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم کی زندگی سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز ہی کی مثال دیتے ہیں۔ میرا ان سے یہ سوال ہے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم کی تین بیٹیاں اور بھی تھیں۔کیا آپ صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم نے ان کو جہیز نہیں دیا ہو گا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم نے تو ہمیشہ انصاف کا حکم دیا ہے اور خود سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا۔صرف اسی ایک بات سے یقینایہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم نے باقی تینوں بیٹیوں کو بھی کم سے کم اتنا ہی جہیز دیا ہو گا۔ بلکہ اس وقت تو آپ صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی حیات تھیں تو یقینا جہیز اس وقت کی حیثیت کے مطابق ہو گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے وقت رسول پاک صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم کی مالی حیثیت کیا تھی، وہ اس وقت کے جہیز سے ظاہر ہے۔ اگر ان باتوں کو دیکھا جائے تو جہیز لعنت ہر گز نہیں ہے بلکہ ایک مسنون ، مستحسن عمل ہے۔ جو لوگ اس کو لعنت کہتے ہیں وہ گویا ایک سنت سے رو گردانی کرتے ہیں۔ اب میری اس بات کے جواب میں اکثریت کہے گی کہ وہ زیادہ جہیز کو لعنت کہتے ہیں۔ لڑکے والوں کی طرف سے مطالبے کو لعنت کہتے ہیں۔ تو بھائی آپ جہیز کو لعنت نہ کہو، آپ لڑکے والوں کو برا کہو، جو جہیز کی فہرست بنا کر مطالبہ کرتا ہے۔ جب بات جہیز کے مطالبے کی طرف آگئی تو سوال یہ ہے کہ مطالبہ کیوں؟ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟ کیوں جہیز کے سامان کی ایک لمبی فہرست لڑکی والوں کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے؟ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جب لڑکے اور لڑکی والوں کے بیچ رشتے کی بات چیت چل رہی ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ صرف ایک ملاقات میں سب کچھ فائنل نہیں ہوجاتا ہے۔
Bride Hands
تین چار بار آپس میں میل ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ تب لڑکے والے تاریخ طے کرنے سے پہلے بیٹی والوں کو یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ جہیز کی مد میں انکی یہ یہ ترجیحات ہوں گی۔ پہلے سے ایک فہرست ان کو تھما دیں کہ اگر یہ سامان تعیش عنایت کر سکتے ہیں تو بات آگے چل سکتی ہے۔یقینا لوگ اس طرح کرتے ہوں گے لیکن آٹے میں نمک کے برابر ہو ں گے۔ ایسی صورت میں میں بیٹی والوں کو ایک مشورہ مفت دینا چاہتا ہوں کہ وہ بھی اس طرح کی فہرست کے جواب میں لڑکے والوں سے کچھ مطالبات کر لیا کریں۔ یاد رہے میں نے ایسی صورت میں کہا جب لڑکے والے جہیز کی ایک لمبی لسٹ تھمائیں (ویسے بھی یہ مطالبات ناجائز نہیں ہیں، کوئی بھی کر سکتا ہے )۔یہ مطالبات کچھ اس طرح ہوں گے۔ ١۔ نکاح اور رخصتی تک لڑکا کم از کم آخری تین پارے حفظ کرے گا۔ ٢۔ قرآن پاک کے سارے تیس پاروں کا ترجمہ پڑے گا۔ ٣۔ روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرے گا اور کم از کم ایک رکوع بمع ترجمہ پڑھے گا۔ ٤۔ لڑکا پانچ وقت کی نمازیں نہ صرف باجماعت پڑھے گا بلکہ تکبیرِ اولٰی کے ساتھ پڑھے گا۔ ٥۔ رمضان کے فرض روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ نفلی روزے بھی رکھے گا۔ ٦۔ شادی کے پہلے سال خود بھی حج کرے گا اور بیوی کو بھی حج کرائے گا اور ہر دوسرے سال عمرہ کرے گا۔ ٧۔ زکوٰة کے شرعی اصولوں کے مطابق باقاعدگی سے زکوٰة ادا کرے گا۔ ٨۔ شرعی حلیہ اپنائے گا جس میں داڑھی رکھنا اور مونچھیں ترشوانا شامل ہیں۔ ٩۔ اپنی بیوی کو بھی ان تمام کاموں کا پابند بنائے گا۔ ١٠۔ خود بھی نامحرم خواتین سے دور رہے گا اور اپنی بیوی کو بھی نامحرم مردوں سے دور رکھنے کی ہر ممکن سعی کرے گا۔ ١١۔ حلال رزق کمائے گا، خود بھی کھائے گا ١ور اپنے اہل و عیال کو بھی کھلائے گا۔] میں دیکھتا ہوں کہ پھر جہیز کا مطالبہ کتنے لوگ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ بیٹی والوں کی اکثریت بلکہ شاید خود لڑکیوں کی اکثریت بھی دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہی عملی طور پر دور ہے۔ تو لڑکی والے اس طرح کے مطالبات کیسے کر سکتے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں وہ اکثر لالچی ہوتے ہیں لیکن سفید پوش ہوتے ہیں۔ سفید پوش سے یہاں مراد کہ انکے پاس کھانے پینے، رہن سہن کے لیے اتنا ہی ہوتا ہے کہ انہیں مہینے یا سال کے کسی دن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا۔ لیکن لالچ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ کسی بھی ماں باپ کے لیے بیٹی سے بڑھ کر دولت کوئی نہیں ہوتی۔ ایک تو ان سے وہ بھی لے رہے ہیں اوپر سے ستم بالائے ستم ان کی غربت کا مذاق اڑا کر سارے جگ میں جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ لالچی لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ انکی اپنی بھی بہن بیٹیاں ہوں گی۔ کل مکافاتِ عمل کے نتیجے میں یہ برا وقت ان پر بھی آسکتا ہے۔ پھر وہ زمانے کو کیا منہ دکھائیں گے۔ لیکن یہ لوگ اسکا حل بھی نکال لیتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے اور سنا بھی ہے کہ جب ایسی صورت حال ان کو پیش آتی ہے تو یہ اپنی بہو کا جہیز اٹھا کر اپنی بہن بیٹی کے جہیز میں دے دیتے ہیں اور پھر بہو کو تنگ کرتے رہتے ہیں کہ اپنے باپ کو کہو فلاںچیز دے، فلاں چیز دے۔انکے پیٹ کا لالچی مٹکا کبھی نہیں بھرتا۔ایسے لوگوں کیلئے جہیز لعنت ہے۔
جہیز کو رسم بھی بنا لیا گیا ہے۔ لڑکے والے مطالبہ نہ بھی کریں تو بھی لڑکی یہ سوچ کر جہیز دیتے ہیں اور زیادہ دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔وہ زمانے بھر کو کیا منہ دکھائیں گے۔ محلے میں، شہر میں ، اپنے جاننے والوں میں اپنی ظاہری عزت بچانے کے لیے قرضہ لے کر ، مکان گروی رکھ کر اپنی بیٹی کو لاکھوں کا جہیز دیتے ہیں۔ جن میں ایک دستی رومال سے لے کر فریج، ٹی وی، ڈیپ فریزر، صوفہ سیٹ، ڈبل بیڈ کے ساتھ سنگل بیڈ، کرسیاں، میزیں ہزاروں روپے کے کپڑے جو شاید لڑکی زندگی میں ایک ہی بار پہنے گی، خاص طور پر عروسی جوڑا یعنی لہنگا۔ میری اس بات سے یقین لڑکیوں نے منہ بنانا ہے کہ ایک بار تو شادی ہوتی ہے تو کیوں نہ پہنا جائے۔ بہنو! ضرور پہنو لیکن دینِ اسلام نے ہمیں اسراف سے منع فرمایا ہے۔ اور لہنگا ٹائپ کا جوڑا اسراف کی بد ترین مثال ہے۔ جو کہ کم از کم بیس سے تیس ہزار میں بنتا ہے اور پھر ایک ہی مرتبہ پہنا جاتا ہے۔خیر بات ہو رہی تھی رسم کی تو جناب عالی! کیا ضروری کہ آپ اپنی ناک اونچی رکھو۔یہاں تو شاید لوگ آپ کی عزت کر لیں گے کہ اتنا جہیز دیا ہے، چاہے بعد میں آپ ساری عمر قرضہ کی رقم قسطوں یں لوٹاتے رہو۔ لیکن کیا آپ میں اتنی جرأت ہو گی کہ قیامت کے دن پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم کو یہ جواب دے سکو گے کہ زمانے سے ڈر لگتا تھا۔ محلے کے لوگ بے عزت کر تے تھے۔ شہر والے جگ ہنسائی کرتے تھے۔ ارے کیا تم لوگ خدا سے نہیں ڈرتے؟ اگر نہیں ڈرتے تو پھر جو جی چاہے کرو، کیونکہ خدا سے نہ ڈرنے والوں کو کھلی چھٹی ہے کہ دنیا ان کے لیے جنت ہے۔ سزا ان کو ملے گی اور ایسی ملے گی کہ ان کے لیے سخت و شدید عذاب کی وعید ہے۔ وہ جہنم کے گہرے طبقے میں ہوں گے۔ اگر اس ساری بات چیت کا خلاصہ بیان کروں تو پہلی اور سب سے بڑی بات یہ کہ جہیز کو کسی صورت میں بھی لعنت نہ کہا جائے کہ یہ تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم ہے۔ ایک مستحسن عمل ہے۔ دوسری بات جہیز کو اپنی حیثیت کے مطابق دینا چاہیے۔ تیسری بات جہیز میں کیا کچھ ہے، اس کا اعلان ہر گز نہ کیا جائے کہ یہ ریاکاری میں آجاتا ہے ۔ جس نے دیکھنا ہو گا وہ لڑکے کے گھر جا کر دیکھ لے گا۔ لیکن یاد رہے کہ جہیز جیسا بھی ہو گا، دیکھنے والے کو پسند نہیں بھی آتا تو اسکا اظہار ہر گز نہ کرے۔ نہ لڑکے والوں کے سامنے اور نہ بیٹی والوں کے گھر میں۔ اور نہ ہی محلے ، شہر میں اسکا چرچا کرے کہ کسی کے عیب چھپانا مستحسن عمل ہے۔ دوسرا یہ وقت آپ پر بھی آسکتا ہے۔ پھر کیا خیال ہے؟