گلگت (جیوڈیسک) گلگت میں جیل توڑنے کے حوالے سے ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ قیدیوں کو اس اقدام میں جیل کے سیکیورٹی عملے کی مدد حاصل تھی۔ ایک مفرور قیدی اس وقت زخمی ہوگئے تھے جب پولیس نے انہیں جیل سے تیرہ کلومیٹر دور واقع قصبے منواڑ میں گھیرے میں لے لیا تھا مگر پھر بھی یہ قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ گلگت بلتستان پولیس کے سربراہ ظفر اقبال اعوان نے بتایا کہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز نے جمعے کی شام ایک انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر سرچ آپریشن کا آغاز کیا تھا اور اسدوران منواڑ کے قریب پہاڑی علاقے میں جھڑپ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے دریا کے قریب شاہراﺅں کو سیل کردیا تھا مگر قیدی ایک کھائی میں چھلانگ لگا کر فرار ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ ایس ایچ او اور ایک قیدی اس مقابلے میں زخمی ہوئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس کو اس جگہ سے منشیات، کھجوریں اور دیگر اشیاء ملیں جو مفرور قیدی چھوڑ گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرچ آپریشن کو مختلف علاقون تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ظفر اقبال اعوان کا کہنا تھا کہ پولیس علاقے کے میڈیکل اسٹورز اور نجی ہسپتالوں کو چیک کررہی ہے تاکہ زخمی قیدی کا سراغ تلاش کیا جاسکے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ چار قیدیوں کی جانب سے جیل سے بھاگنے کی کوشش میں انہیں جیل کے اندر سے سیکیورٹی عملے کے کچھ افراد کی معاونت حاصل تھی تاہم اس حوالے سے تحقیقات ابھی جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد جیل کے عملے کے سات افراد اور تین مذہبی رہنماﺅں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ گلگت کنٹونمنٹ پولیس نے تنظیم الفاروقیہ کے رہنماﺅں میرباز، جمشید اور انعام کے ساتھ ساتھ گلگت جیل وارڈنز اکبر زمان، موسیٰ عالم، ہیڈ کانسٹیبل سیف الدین، ڈسپنسر عزیز، کانسٹیبل محمد افضل اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کانسٹیبل عارف کے خلاف ایک کیس بھی رجسٹر کرکے ان کا انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔
ابتدائی پولیس تحقیقات کے مطابق نانگا پربت میں غیرملکی سیاحوں اور ان کے گائیڈ کی ہلاکت میں ملوث افراد سمیت چار قیدی جن میں حضرت بلال، دلبر خان، لیاقت اور حبیب الرحمان شامل ہیں، بیرک نمبر چھ میں رکھے گئے تھے۔ انہوں نے سیکیورٹی عملے کے کچھ افراد کی مدد سے فرار کا ایک منصوبہ بنایا تحقیقات میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ جیل کے اندر قیدیوں کو پسٹلز بھی فراہم کیے گئے تھے۔