تحریر: انجم صحرائی اس زمانے میں تحصیل دفاتر آج کے تھانہ سٹی کی جگہ ہوا کرتے تھے تحصیل دفاتر میں کے سامنے عرضی نویسوں کے چھپر ہوا کرتے تھے ان میں ایک بارعب شخصیت عطاءاللہ خان کے عرضی نویس کی بھی تھی جن کچھپر تحصیل آفس کے بالکل سامنے ہوا کرتا تھا عطاءاللہ خان محکمہ مال سے ریٹا ئرڈ قانونگو تھے میرے بہت ہی پیارے نوجون صحافی، آر جے ایف ایم 89 اور 1122 کے ہو نہار آ فیسر عنا ئت اللہ خان بلوچ کے والد تھے۔ مجھے یاد ہیں میری دادی اماں اور با با جی عمو ما اپنے ریوینو مسا ئل کے لئے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں میری ملاقات ملک محمد اقبال جکھڑ سے تحصیل آفس کے نقول ایجنسی کے کمرے میں ہوئی تھی۔ اقبال جکھڑ میرے ایک کزن جمال ناصر کے دوست اور ریٹا ئرڈ ڈی جی پی آر ملک محمد حسین جکھڑ کے چھوٹے بھا ئی ہیں، ملک محمد حسین جکھڑ سے میری پہلی ملا قات انہی کے توسط ہو ئی تھی ان دنوں ملک محمد حسین جکھڑ ڈی جی پی آر نہیں تھے میری ملک محمد حسین جکھڑ سے دوسری ملا قات وزیر اعلی ہا ئوس میں اس وقت ہو ئی جب محکمہ تعلقات عا مہ پنجاب نے اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وا ئیں سے پنجاب بھر کے منتخب صحا فیوں کی ملاقات کا اہتمام کیا تھا ملک محمد حسین بحیثیت ڈائریکٹر جزل پبلک ریلیشن اس تقریب کے منتظم اور میز بان تھے کھا نے سے پہلے اس تقریب بہر ملاقات میں وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائیں نے صحا فیوں کی طرف سے کئے گئے سوالات کے جوابات بھی دیئے تھے سوال و جواب کی اس نششت میں سوال پو چھنے کا طریقہ یہ تھا کہ سوال پو چھنے والا صحافی اپنا تحریری سوال ڈی جی پی آر کی خدمت میں پیش کرتا اگر وہ مناسب سمجھتے تو سوال بیان کر دیتے اور وزیر اعلی جواب مرحمت فر ما دیتے مجھے یاد ہے ہم نے بھی ایک سوال پیش کیا تھا مگر شا ئد ہمارا سوال اس قابل نہیں تھا کہ اسے محترم وزیر اعلی کے گوش گذار کیا جا تا سو ہم اپنے سوال کے جواب سے محروم رہے۔
وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وا ئیں سے ہو نے والی اس ملا قات میں لیہ سے ہمیں شر کت کا اعزاز حا صل ہوا تھا اور ہم نے اپنے ذاتی خر چہ پر یہ مہنگی عیا شی کی تھی یہ سال 1990-91 کی بات ہے ۔ میرا جر نلسٹ ایکریڈیشن کارڈ اور جر نلسٹ ریلوے کارڈ بھی اسی دور میں بنے تھے ۔ ہم اپنے جن ہو نہار لیہ وال شخصیات پر فخر کر سکتے ہیں بلا شبہ ملک محمد حسین جکھڑ ان میں سے ایک ہیں ۔اس حوالے سے ایک اور شخصیت جس سے اپنی مختصر سی ملاقات کی یادیں اپنے قار ئین سے شیئر کرنا چا ہوں گا وہ ہیں مشکور خان ۔ مشکور خان لیہ وال تو نہیں تھے ان کی والدہ کا تعلق لیہ سے تھا اور آ فرین ہے ان پر کہ انہوں نے اپنی والدہ کی جنم بھو می سے ایسا رشتہ نبھا یا کہ ایک عر صہ بیت جا نے کے بعد بھی لوگ مشکور خان کی محبتوں کو بھول نہیں پا ئے ۔میری جس زما نے میں مشکور احمد خان سے ملا قات ہو ئی وہ اس زما نے میں Joint Secretary, Establishment Division, Cabinet Secretariat, Rawalpindi کی حیثیت سے خد مات انجام دے رہے تھے ہوا یوں کہ میں ان دنوںآ وارہ گردی کے سلسلہ میں پنڈی کے دورے پر تھا میں نے مشکور احمد خان بارے بہت سنا تھا کہ وہ اتنے بڑے آ فیسر ہیں اور اس کے با وجود لیہ والوں کو نہ صرف وقت دیتے ہیں بلکہ ان کے کام بھی آ تے ہیں ہم نے سو چا کہ پنڈی تو آ ئے ہی ہو ئے ہیں کیوں نہ مشکور خان سے ملا قات ہی کر لی جا ئے سو ہم بغیر کسی کام کے ان کے آ فس پہنچ گئے۔
ان دنوں کیبنٹ سیکٹریٹ کی بلڈ نگ راولپنڈی کینٹ سٹیشن کے سا تھ ہی ہوا کرتی تھی ۔ سو ہم نے سیکٹریٹ کے استقبالیہ پر جا بتا یا کہ ہم لیہ سے آ ئے ہیں اور مشکور خان صاحب سے ملنا چا ہتے ہیں ۔ اچھا زما نہ تھا سیکیو رٹی رسک کا نام بھی نہیں سنا تھا اس زما نے میں ۔ سو استقبالیہ والوں نے مجھے بغیر کسی شک و شبہ کے بڑی عزت کے ساتھ اپنے کیبن میں کر سی پر بٹھا لیا اور فون کے ذریعہ صاحب کے پی اے کو مہمان کی خبر دی ۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد بلا وا آ گیا اور سیکیورٹی والوں نے بڑے ادب سے مجھے کہا کہ آ پ پہلے فلور پر چلیں جا ئیں وہاں صاحب کا کمرہ ہے مل لیں ۔ میں سیڑ ھیاں پھلا نگتے فسٹ فلور پر پہنچا اور ایک دروازے پر مشکور احمد خان کی تختی لگے دیکھ کر کمرے کا دروازہ کھولا اور sir May I come in کہہ کر اندر دا خل ہو گیا۔ مشکور خان اس وقت فون پر کسی سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر فون بند کر دیا اور مجھے ایسے دیکھا جیسے پو چھ رہے ہوں کہ کون ہیں آپ ؟ میں نے اپنا نام بتا یا تو کھڑے ہو گئے بڑی محبت ،شفقت اور گرم جو شی سے ہا تھ ملا یا اور کرسی پر بیٹھنے کو کہا ۔ ملا قات کا مقصد پو چھا تو میں نے بتا یا کہ بس آپ کو دیکھنا تھا آپ کی بڑی تعریفیں سنی تھیں یہ جان کر کہ میں ان سے بغیر کسی مطلب کے ملنے آ یا ہوں بہت خوش ہو ئے ۔ چا ئے کے دوران کہنے لگے کہ میں لیہ کا نہیں ہوں میری والدہ لیہ کی ہیں اور اپنی والدہ کے سبب میں لیہ والوں کو بہت عزت دیتا ہوں لیہ کے لوگوں کی بڑی قدر کرتا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ جب بھی لیہ سے مجھے کو ئی ملنے آ تا ہے تو صرف کام کے لئے ملنے آتا ہے بغیر کسی مقصد کے کو ئی نہیں آ تا۔
اور پھر کام کا بھی کو ئی معیار نہیں ہو تا ہنستے ہو ئے کہنے لگے اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ اگر وٹرنری ڈاکٹر کسی کی گھوڑی کے لئے گھوڑا نہیں دے پا رہا ہو تو مجھے کہا جا تا ہے کہ میںڈاکٹر کو شفا رش کردوں ۔مشکور احمد خان سے کو ئی پون گھنٹہ کی ملا قات کے بعد جب ہم نے ان سے اجازت چا ہی تو کہنے لگے صحرائی تم سے مل کر بہت خو شی ہو ئے ملتے رہنا لیکن ایک بات میں تمہیں کہنا چا ہتا ہوں اگر بری نہ لگے تو ۔۔۔ میں نے جی ۔۔کہنے لگے جب تم دروازہ کھول کر اچا نک میرے کمرے میں آ ئے اس وقت میں ایک بر گیڈیئر سے بات کر رہا تھا یہ بات میں تمہارے سا منے نہیں کر سکتا تھا سو جب تم میرے کمرے میں داخل ہو ئے تو میں نے مجھے فون بند کر نا پڑا ۔آپ جب بھی کسی کو ملنے جا ئیں پہلے اس کے پی اے آ فس میں جا کر اپنا بتا ئیں اس طرح جب تم کسی کو انفارم کر کے ملو گے تو تمہاری ملا قات زیادہ خو شگوار ہو گی ۔ مشکور احمد خان سے دوبارہ تو میری کبھی ملا قات نہ ہو سکی مگر میں نے ان کی یہ نصیحت پلے باندھ لی اور ہمیشہ کو شش کی کہ جب بھی کسی سے ملا قات کروں ملاقات کے آداب ملحوظ خا طر رکھوں۔
News Agency
بات ہو رہی تھی چو بارہ روڈ کی۔ ریلوے پھا ٹک سے آ گے گلبرگ ہو ٹل، جی ٹی ایس کے سا تھ ہی یم صدیق ایم رشید نیوز ایجنسی۔ یہ لیہ کی اکلوتی نیوز ایجنسی تھی اس زمانے میں مرحوم نثار عادل کے والد رشید ایجنسی پر بیٹھا کرتے تھے رشید کے دوستوں میں ایک بابا رحمت بھی ہوا کرتے تھے جو عمو ما ایجنسی پر ہی پا ئے جا تے۔ صبح صبح جب اخبار آتا تو مفت میں بیسیوں لوگ ایجنسی کا رخ کرتے اور مفت اخبار بینی کا مزہ لیتے۔ ایجنسی پر کام کر نے والے اخباری ہا کر میںنثار عادل اور ان کی فیملی کے علا وہ استاد اقبال ْ چو ہدری اصغر اور استاد اکبر اس ایجنسی کے با نی ہا کروں میں سے ہیں ۔ میرے با با جی نے بھی کچھ عر صے اس ایجنسی پر ملاز مت کی تھی اور اخبار فروخت کئے ۔ اس زما نے میں جی ٹی ایس اڈے کے گیٹ کے سا منے شفیع مجمع لگا یا کرتا تھا مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ وہ حکیم تھا یا نہیں مگر وہ اپنی بنا ئی ہو ئی طاقت کی دیسی گو لیاں فروخت کر نے کے لئے مجمع لگا تا تھا ۔ وہ بڑا مجمع باز تھا اپنی لچھے دار گفتگو سے لو گوں کو تسخیر کر لیتا تھا اور کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ شفیع نے مجمع لگا یا ہوا ہو اور اس کی گو لیوں کے پیکٹ فروخت نہ ہو ئے ہوں ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے بھی بچپن میں کئی بار اس کی دلچسپ گفتگو اس کے مجمع میں اکڑوں بیٹھ کر بڑے انہماک سے سنی۔
اس وقت انجم صحرائی کا جنم ہوا تھا اور نہ ہی ہم نے دانش کی واسکٹ پہنی تھی۔ اس سے آ گے بسوں کے اڈے تھے مگر ان اڈوں سے پہلے منظور نیازی اور خدا بخش نیازی کی دکا نیں بھی ہوا کرتی تھیں ۔ منظور نیازی پہلے محکمہ ریلوے میں ملازم تھے بعد میں انہوں نے ریڈ یو مرمت کی دکان بنا ئی منظور نیازی ایک ماہر ریڈ یو مکینک تھے۔ خدا بخش بھی منظور نیازی کے رشتہ دار تھے اور یہ دو نوں جماعت اسلامی کے ہمدرد تھے اسی لئے ہم ان کے قریب تھے ۔ نیو خان اڈے کے سا منے شیر محمد بھٹی کی دکان ہوا کرتی تھی ۔ شیر محمد فر نیچر کا کام کرتے تھے ایک دن پتہ نہین کیا سو جھی کہ فر نیچر کی دکان کو ہو ٹل میں تبد یل کر لیا ۔ شیر محمد اپنے ہو ٹل میں دال پکا یا کرتے تھے ایک دن میں ان کے ہو ٹل میں کھا نا کھا نے گیا تو میں نے ہو ٹل بارے اپنے تجربے انہیں سنوائے تو انہوں نے مجھے اپنے ہو ٹل پر کام کر نے کی آفر کی ۔ اندھا کیا چا ہے دو روٹیاں کے مصداق ہم نے ان کی آ فر قبول کرتے ہو ئے ان کے ہوٹل پر کا م کر نا شروع کر دیا ۔ ایک دن میں نے بھٹی صاحب سے کہا کہ اگر آپ دال کے سا تھ اور سالن بھی پکا ئیں تو گا ہگ زیادہ آ ئیں گے وہ نہ ما نے میں نے انہیں تجویز دی کہ اگر آپ اجازت دیں تو دوسرا سالن میں پکا لیتا ہوں جو بک گیا تب بھی میرا اگر بچا رہا تب بھی میرا ۔ شیر محمد مان گئے میں نے اگلے دن دال کے ساتھ انڈے آ لو کا سالن بھی تیار کرا لیا ۔ اب شام کو آلو انڈے والا سالن تو سارا بک گیا تھا اور دال بچ گئی۔
جس پر شیر محمدبھٹی کو بہت غصہ آ یا اور یوں صرف چند دنوں بعد ہی ہمیں اس ملاز مت سے ہاتھ دھو نا پڑے ۔ا گر میوں کے دن تھے اور میں بھٹی صاحب کے ہو ٹل پر بیٹھا تھا دن کے ڈیڑھ دو بجے ہوں گے کہ اچا نک سا منے دیکھا کہ ایک بوڑھے با بے نے اپنے ہا تھ میں پکڑا ہواموٹا سا ڈنڈا ایک نو جوان کے سر پر دے مارا ۔ چوٹ اتنی شدید تھی کہ نوجوان گر پڑا اس کے زخمی سر سے خون بہہ رہا تھا لوگ اکٹھے ہو گئے بابا بھی ڈنڈا مار کے بے ہوش ہوا ایک طرف گرا پڑا تھا ۔ لو گوں نے دونوں کو اٹھا یا نو جوان تو قدرے ہوش میں تھا مگر با بالکل بے سدھ پڑا تھا ۔ زخمی نو جوان اپنا درد بھول کر با بے کو ہوش میں لا نے کی تد بیریںکر نے لگا۔
کسی نے بابے کو پا نی پلا یا کسی نے چھینٹے مارے اور کسی نے ہاتھ ملے تب کہیں جا کے با بے نے آ نکھیں کھو لیں، با بے نے ہو ش میں آ تے ہی اپنی کئے کی زخمی جوان سے معا فیاں ما نگنا شروع کر دیں۔ با بے سے پو چھا گیا کہ اس نے نو جوان کو ڈنڈا کیوں مارا تو جواب ملا کہ میں صبح سے بھو کا بھیک مانگ رہا ہوں قدرت خدا کی کہ اب تک اتنے پیسے نہیں ملے کہ کھا نا خرید سکوں ، میرے گھر والے بھی بھوکے میرا انتظار کر رہے ہیں ، جس سے بھی سوال کیا یہی جواب ملا کہ بابا معاف کرو ۔ اب میں تھک چکا تھا میں نے اس نو جوان کے سامنے ہا تھ پھیلا کر اللہ کے نام پر سوال کیا تو اس نے بھی کہا کہ معاف کرو اس کے معاف کرو کہنے پر مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اسے ڈنڈا دے مارا۔ با بے نے یہ کہ کر ہا تھ جوڑ لئے اور معا فی ما نگنے لگا۔ با بے کی کہانی نے سبھی کو افسردہ کر دیا اور با بے کے ڈنڈے سے زخمی ہو نے والے نو جوان نے نہ صرف بابے کو معاف کیا بلکہ بابے کی مدد بھی کی۔