پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید پاکستان میں پولیس گردی کی سینکڑوں مثالیں ہر گلی ہر کوچے اور ہر بازار میں کھلی آنکھوں سے ہر پاکستانی ہر روز، ہر گھنٹے ہر منٹ، اور ہر لمحہ میں ملا حظہ کر سکتا ہے۔ اگر یقین نہیں آٹا ہے تو کسی بھی سڑک پر آکر ملاحظہ کر سکتے ہیں، یاتھانے میں جا کر ملا حظہ کر سکتے ہیں بازراروں میں ملا حظہ کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آپ لاکھ جتن کر لیںاور چاہے آپ کتنے ہی طرم خان ہیں، لیکن ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ہیں۔ یہ آپ کے بنے بنائے کاموں کو بگاڑ تو سکتے ہیں۔ مگر شائد آپ ان کی ذہنیت سے واقف ہیں تو آپ کے نا جائز کام بھی یہ جائز قرار دے سکتے ہیں۔ اسی قبیل کی ان سے سُپر ایک اور مخلوق بھی ہے جس سے ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس کا ذکر پھر کسی موقعے پر کریں گے۔ یہ دونوں مخلوقات ایک دوسرے کے لیئے لازم و ملزوم بھی ہیں۔ شنید یہ ہے کہ (اگر خدا نا خواستہ آپ قتل کر دیتے ہیں) پولیس کے پاس بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم کی تصویر والے چند لال کاغذ ان کی نذر گذار دو ،تو مجال ہے کوئی قانون آپ کو قاتل ثابت کر سکے بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ ہمارے ہاں تمام جرائم کی ماں پولیس ہے!
پولیس کے فرائض کی ایک اہم بات یہ ہے کہ کوئی غریب اگر اپنی جھونپڑی کو پکا کرنا چاہے تو غریب کے دروازے پر پڑی بجری مٹی کو سونگھتے ہوئے پولیس موبائل میں بیٹھے پولیس اہلکار اُس کے گھر پر پہنچ جاتے ہیں، اوران میں سے کوئی ایک اہلکاربمعہ کلاشن کوف کے غریب کے دروازے پر اس زور کی دستک دیتا ہے کہ موبائل کو دیکھتے ہی غریب کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں ۔وہ بے چارا خوف کے مارے ہانپتا کانپتا ہوا دروازے سے باہر آکر ان صے پوچھتا ہے مائی باپ ،کیا خطا سرزد ہوگئی؟ تو کلاشن کو ہاتھ میں تھامے پولیس اہلکار غصے سے کہتا ہے گلی تیرے باپ کی ہے جو تو نے مٹی ریت پھیلائی ہوئی۔تھانے چل تجھے ساب نے بلایا ہے۔مقصد اس ساری پولیس گردی کا یہ ہوتا ہے کہ پولیس کی جیب اگر توُ گرم نہیں کرے گا تو ساری زندگی گھر پکا کرنے کا تیرا خواب شرمندہِ تعبیر نہ ہو سکے گا!!! وہ بیچارا جو ٹھیکیدار کے انڈر میں چھ ہزار روپے کی غلامی کرتا ہے۔ خوف کے مارے ان معمولی سپاہیوں کو جن کی تنخواہیں عموماََ ہمارے اندازے کے مطابق تیس سے پینتیس ہزار جائز طریقے پر بنتے ہیں ،ان موبائل والوں کو اپنی بچی کھچی جمع پونجی میں سے ان کا مطالبہ دل مسوس کے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے،اس قسم کی سینکڑوں غیر قانونی حرکتیں ہمارے قانون کے رکھوالے سارا دن اپنے فرائض منصبی میں شامل سمجھتے ہوئے کرتے رہتے ہیں۔
Arrested
جوے اور شراب کے اڈے ان کے اور ان کے سُپیریر کی زیر نگرانی سارے شہر میں چل رہے ہیں۔ کسی مجرم کو بغیر ایف آئی آر کے ان کے حوالے کردیا جائے تو وہ اگلے ہی گھنٹون میں پھر دوبارہ وار داتیں کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔اگر کہیں دوکانو ،بیکریوں، رستورانوں میں زہر یلا کھاناکھلا یا، یا بیچا جا رہا ہے تو وہ ان ہی کی نگرانی میں لوگوں کے پیٹوں میں اتارا جا رہا ہے ۔کہیں چیک انڈ بیلنس نام کی چیز دیکھنے میں اس وجہ سے نہیں آتی ہے،کہ اس ھمام میں سبھی غوطہ زن ہیں۔جن کے شائد کپڑے اترے ہوئے ہیں۔ فی زمانہ ہمارے شہروں میں دوقسم کی بھتہ مافیائیں کام کررہی ہیں ایک قانون کے رکھوالوں کی بھتہ مافیہ ہے۔ تو دوسری مجرموں کی ایک پرچی گولی کے ذریعے بھتہ وصول کر رہی ہے تو دوسری قانون کے ہاتھوںپھنسانے کی دھمکی کے ذریعے اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہمیں قانون کی بالا دستی، جس کا درس ہمارے سب ہی بڑے دیتے ہیں کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ہے۔
ہمارے پولس اہلکار تو اس قدر نڈر ہیں کہ بار بار عدالتی احکامات کا مذاق اڑاتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹ مقدمات میں ہر روز ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ جج حکم دیتا ہے کہ فلاں اہلکار کو بار بار عدالتی حکم کے باوجود کام نہ کرنے پر گرفتار کر کے ہتھکڑیاں لگا کر عدالت کے روبرو لایا جائے۔ مگر مجال ہے کوئی پولیس اہلکار اپنے پیٹی بھائی کو اس صدمے سے دو چار کرکے عدالتی حکم بجا لائیں!!!ً ملک میں سماجی خرابیوں کے ایسے ہی اسٹیک ہولڈر ذمہ دار ہیں۔کراچی جیسے شہر میںایک مسیحا کی 13،سالہ معصوم بچی کی موت ایک مشہور یستورینٹ کی زہریلی اشیاءکھانے سے ہوگئی مگر مجال ہے کہ پولس ٹس سے مس ہوئی ہو،بڑی مشکلوں اور جان جوکھوں کے بعد ایک مہینے کے بعد مظلوم خاندان کا مقدمہ درج کیا گیا۔ایسے واقعات ہر روز اور ہر لمحہ اس میگا سٹی میں ہوتے رہتے ہیں۔
اگر آپ کے پاس ذرا پرانے ماڈل کی کوئی خستہ گاڑی ہے آپ اُس کو روڈ پر لے کر نکل کر دیکھئے پولیس کے شہسوار جگہ جگہ روک کر آپ کا چلنا محال کر دیں گے ہر چوراہے پر ”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی“کے مصداق چالان کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا ئے گی۔اگر ان کی ڈیمانڈ کے مطابق اتفاق سے آپ کا کوئی غیر اہم کاغذ بھی کم ہوا تو آپ کو چلان کے چکر میں پھنسنا ہوگا۔ اگر چالان سے بچنے کا شارٹ وے چاہتے ہیں تو سنگتری سرکار خود ہی اسکا راستہ بھی آپ کو بتا دیں گے۔کہ جب آپ ان کی جیب گرم کر دیں گے تو اپنے آپ کو مزید چکروں میں ڈالنے سے بچا لیںگے۔رشو ت کے حصول کیلئے یہ نسخہ کیمیا بڑا کار گر ثابت ہوتا ہے۔
ہر روز پولیس گردی کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں جن میں انہیں اوپر سے نیچے تک خجالت بھی اٹھانا پڑتی ہے۔مگر مجال ہے کہ کہیں ضمیر کی آواز کو سُنا جائے۔اب تو ان کے ہاتھ میں دہشت گردی کے نام پر ایسا ہتھیار آگیا ہے۔جس کے ذریعے یہ جس کو چاہیں موت کے گھاٹ اُتار کر اپنی مرضی کی ایم ایل او (میڈیکو لیگل رپورٹ)بنواکر انعام کے مستحق بن جاتے ہیں ۔حال ہی میں جناح ہسپتال کے ایک میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر شہزاد کا واقعہ سامنے آیا ہے ۔جس کے پولیس کی منشاءکے تحت پولس مقابلے کی لیگل رپورٹ مرتب کرنے سے انکار پر پولیس کے اہلکاروں نے اسے اغوا کیا تشد کیااور دھمکیاں دیں۔ ان پولیس اہلکاروں نے ان کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے پولیس مقابلوں کا تمام ڈیٹا تک ضائع کر دیا ۔جس کی پوری فٹیج سامنے آنے کے ساتھ تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں اور موبائل کی شناخت بھی ہوگئی ہے۔مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سرکاری ودردی پہنے دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جائے گا؟مقدمہ تو ضرور چلے گا مگر ؟؟؟؟خدارا اس ملک سے عام دہشت گر دیوں کے ساتھ پولیس اور اداروں کی دہشت گردیوں کو روکنے اور ختم کرنے کے بھی انتظامات کئے جائیں ۔اس مقولے کا خاتمہ کیا جائے ”ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا“!!!ہر شہری، حکومتوں سے سوال کر رہا ہے کہ کیا پاکستان میں پولیس گردی کی بھی گُنجائش ہے؟؟؟؟
Shabbir Khurshid
پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com