تحریر: میاں نصیراحمد قرآن پاک میں ماں باپ کیساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی تلقین کی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اسلام میں حقوق وفرائض کانظام دو طرفہ ہے یعنی ایک طبقہ کے حقوق دوسرے طبقے کے فرائض ہیںوالدین اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں بچوں کوانگلی پکڑکر چلنا سیکھاتے ہیں ان کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش پوری کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں جہاں۔ تک کے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہیں کرتے خود بھوکھے رہ کر اپنی اولاد کو پیٹ بھر کر کھلاتے ہیں اولاد کی آنکھ میں آنسو آجائے تو ان کا دل خون کے آنسو رو پڑتا ہے
والدین اپنی اولاد کو اچھی سے اچھی تعلیم دلوا کر اس کا معاشرے میں اعلی مقام بناتے ہیں اپنا آرام و سکون سکھ چین اولاد کی راحت پر قربان کر دیتے ہیں اسلام میں والدین کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے اسلام نے والدین کیساتھ حسن سلوک کی بڑی تلقین کی ہے والدین کا مقام بہت بلند اور افضل ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشادہے سب سے افضل صدقہ ضرورت مند رشتہ دار پر خرچ کرنا ہے اور احسان کے لئے رشتے کے اعتبار سے سب زیادہ قریب اور بہتر والدین ہیں ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے
اسلام حقوق اللہ او رحقوق العباد کے مجموعے کانام ہے۔ بندوں کے حقوق میں سب سے زیادہ اہمیت اسلام نے والدین کو دی ہے۔پھر جس طرح والدین کے اوپراولاد کے بار یمیں حقوق عائد کیے ہیںاسی طرح اولاد کے اوپربھی والدین کے کچھ حقوق عائد کیے ہیںوالدین کے اولاد پر اتنے احسان ہوتے ہیں کہ اولاد ساری زندگی ان کی خدمت کرے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے والدین سے گفتگو میں نرمی اور ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے لیکن بہت شرم کے کیساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کل کی اولاد اپنے والدین کو گالیاں بھی دیتی ہے
اور بر’ا بھلا بھی کہتی ہے اسلام میں بڑی سختی سے منع کیا گیا ہے کہ والدین کو ا’ف تک نہ کہو اور نہ ہی ان کو جھڑکوان کیساتھ ہمیشہ نرمی سے پیش آؤ اور ایسی کوئی بات نہ کرو جس سے والدین کی دل آزاری ہو حدیث نبوی ہے ماں باپ سے نیکی کرنے والی اولاد جب اپنے والدین کو محبت واحترام سے دیکھتی ہے تو خدا تعالی ہر نگاہ کے بدلے اسے ایک مقبول حج کا ثواب دیتا ہے اولاد بوڑھے والدین کا سہارا ہوتی ہے مگر یہ بڑے افسوس کی بات ہے وہ والدین جو اپنے بچوں کو پال کر جوان کر تے ہیں انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی آرام سے گزار سکیں وہی اولاد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر بیوی کے غلام بن جاتے ہیں
Parent
ماں باپ کی مالی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرتے اور والدین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور والدین جب زندگی سے تنگ کر ابدی نیند سو جاتے ہیں تو او لا د ان کی مغفرت کے لیے ان کی قبر پر بھی جاتا پسند نہیں کرتے اور والدین کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کے رشتہ داروں کے ساتھ تعلق رکھنا گورا نہیں کر تے ماں باپ اپنی اولاد کو اس لئے اچھی تربیت دیتے ہیں کہ آئندہ دور میں مجھے لات مارکر نکال دے کیا یہ صحیح ہے ماں باپ کے ساتھ اولاد اتنی بے دردی سے کیوں پیش آتی ہے کیا آج کے دور میں یہی سکھایا جاتا ہے
والدین کے ساتھ اچھا برتاونہ کرو اولاد جوانی میں ماں باپ کا احترام نہیں کرتی اگر شادی کرلے تو بیوی کا حکم بجالاتی ہے ایک طرف ماں باپ کو دْکھ دے کر دوسری طرف بیوی کو خوش کرنا، اولاد کو زیب دیتا ہے کہ میں خوشی مناوں اور میرے ماں باپ در در کی ٹھوکریں کھائیں یہ بات بڑی غورطلب ہے کہ کیا ایک مسلمان کی اولاد کو اسلام یہی سکھاتا ہے؟ اولاد یہ کیوں نہیں سوچتی کہ میرے ماں باپ نے اتنے مشکل مراحل سے گزر کر میری پروَرِش کی ہے،
آج مجھے ان کا سہارا بننا چاہئے، ان کی دْعائیں لینی چاہئیں ارشاد باری تعالیٰ ہے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اْن کو اْف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اْن سے بات ادب کے ساتھ کرنااور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اْن (کے حال) پر رحمت فرما اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آج کل کی اولاد کو والدین کا فرما بردار بنا دے اور جن کے والدین زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کر کے دینا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیںاللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو