تحریر: محمد آصف اقبال یہ حقیقت ہے کہ تمام ہی افکار و نظر یات کے حاملین تشدد اور اشتعال انگیزی کو اچھا نہیں سمجھتے،اس کے باوجود اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں ہر سطح پر جرائم و تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ اور ان کو انجام دینے والوں کوکیا فائدہ حاصل ہوتے ہیں؟ان جیسے بے شمار سوالات ہیں جن کے جواب ملک کا ہر شہری تلاش کرنا چاہتا ہے، اس کے باوجود کسی ٹھوس نتیجہ تک پہنچنا اور پختہ بنیادوں پر جواب تلاش کر لیناممکن نہیں ہے۔
وجہ یہ ہے کہ اُس کے پاس وہ وسائل موجود نہیں ہیں،جس کے ذریعہ واقعہ کی صحیح روداد،انجام دی گئی سرگرمی اور واقعہ کے نتیجہ میں انفرادی و اجتماعی فائدے و نقصانات اخذ کیے جا سکیں۔اس کے باوجود واقعات کا سلسلہ وار جائزہ لینے سے کسی حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ متاثرین کون ہیں اور فائدے کہاں اورکسے حاصل ہو رہے ہیں۔لیکن ثبوتوں کی کمیت کی بنا پر ،ممکن ہے کہ نتائج جو اخذ کیے جا رہے ہیں،وہ غلط ہوں۔ایسا ہی ایک واقعہ آج سے تقریباً تیرہ سال پہلے سن 2002میں منظر عام پر آیا تھا
بے شمار لوگ حادثہ کا شکار ہوئے ،حکومت نے اس تعلق سے کمیشن بنایا اوررپورٹیں طلب کیں۔ملزمین کے خلاف مقدمے دائر ہوئے اور مجرمین کو سزائیں سنائی گئیں۔اس سب کے باوجود ہمت نگر فسادات میں مارے گئے3برطانوی شہری اور ایک ہندوستانی ڈرائیور کیس کے تمام 6ملزمین”خوش قسمت ہیں”جنہیں اسپیشل کورٹ نے بری کر دیا۔وجہ؟ثبوتوں کا فقدان ۔فیصلہ سناتے ہوئے کورٹ نے کہا کہ ایسی صورت میں جبکہ ملزمان کے خلاف کافی ثبوت نہیں ہیں،بری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔کورٹ کا فیصلہ اور اس کے الفاظ خود کورٹ کی لاچاری کو واضح کرتے ہیں،کیونکہ ہر کورٹ میں فیصلہ شواہد اور ثبوتوں کی بناپر ہی دیا جاتا ہے۔لہذا یہ فیصلہ بھی اسی پس منظر میں سامنے آیا ہے یعنی شواہد اور ثبوتوں کا فقدان۔
فیصلہ سناتے ہوئے ہمت نگر ڈسٹرکٹ کے پرنسپل جج آئی سی شاہ نے کہا کہ چونکہ تمام ملزمان پر آئی پی سی کی دفعہ 302قتل اور 307قتل کی کوشش کے تحت مجرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔اورمیرے پاس کوئی متبادل نہیں ہے ،اس لیے میں تمام ملزمان کو بری کر رہا ہوں۔ دوسری جانب اُسی گجرات میں جہاں کا واقعہ اوپر درج ہے،گاندھی جی پیدا ہوئے اور انہوں نے ملک کی آزادی کے لیے اُس وقت ستیہ گرہ کو اپنا ہتھیار بنایا،جبکہ انگریزوں نے ہندوستانیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوئے تھے۔ستیہ گرہ،دراصل ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے
جو عدم تشدپر مبنی ہے۔ 1915ء میں ملک انگریز حکومت کا غلام تھا اور ملک کا کسان اور مزدور طبقہ حددرجہ ظلم و ستم برداشت کر رہا تھا۔ اس وقت گاندھی جی نے مروجہ تعصب کے خلاف آواز اٹھائی اورکسانوں اور شہری مزدوروں کے ساتھ بے تحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خلاف احتجاج کیا۔یہ اس وقت کا واقعہ ہے جبکہ ملک غلام تھا اورکسانوں پر ظلم و ستم جا ری تھا۔ لیکن آج ملک کو آزاد ہوئے 68سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے،اس کے باوجود ملک میں کسانوں کا استحصال جاری ہے چاہے وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ہو۔بڑی فیکٹریوں کے لگانے سے کھیتی کی افزائش کامتاثر ہو نا ہو،یاکیمکل سے آلودہ پانی اور فضا کھیتیوں کو برباد کر رہی ہو یا پھرحکومت وقت تحویل آراضی قانون کے تحت کسانوں کا استحصال کیاچاہتی ہو۔ظلم و ستم پہلے بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے
Teachings
بس طریقے اور نام بدلے ہوئے ہیں۔ ایک گاندھی اس وقت کسانوں کی بقا کے لیے جدوجہد کر رہا تھا تو ایک آج گاندھیائی تعلیمات پر عمل پیرا انا ہزارے، کسانوں پر جاری استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عدم تشدد کے تصور پر مبنی ملک ہندوستان ،جس کی تاریخ میں اشوکا اور بدھ کی تعلیمات بھی قابل ذکرمانی جاتی ہیں،کیا امن و امان کے قیام اور ظلم و زیادتیوں کے خاتمہ میں یہ طریقہ کامیاب ہوگا؟ایسے موقع پر گاندھیائی تعلیمات پر عمل پیرا افراد کو گاندھی کی سوانح کا بھی مطالع کرنا چاہیے
جس میں گاندھی خود “حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی” و فلسفہ میں لکھتے ہیں،کہ “جب میں مایوس ہوتا ہوں،تو میں یاد کرتا ہوں کہ پوری تاریخ مین سچ اور محبت کے راستہ کی ہمیشہ جیت ہوئی ہے۔دنیا میں بڑے سے بڑے قاتل اور ظالم ہوئے ہیں جو ایک وقت ناقابل شکست لگے، لیکن آخر کار وہ زیر ہوکر رہے “۔اور یہی میری بھی جدوجہد کی امید ہے۔
حالات کے تناظر میں تیسری جانب وہ اسلامی تعلیمات ہیں،جس کی روشنی میں ظلم و ستم کے زمانے میں انسان کا رویہ کیا ہو؟ اس کی واضح تعلیمات ملتی ہیں۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
(مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ تم کو بدگوئی کا حق ہے) لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جائو، یا کم از کم برائی سے درگزر کرو، تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے”(النسائ:١٤٩)۔اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت بلند درجہ کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے۔کہا کہ اس میں شک نہیں کہ تم پر ظلم کیا جا رہا ہے اور تم مظلوم ہو، لیکن پھر بھی افضل یہی ہے کہ خفیہ ہو یا علانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جائو اور برائیوں سے درگزر کرو،کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے۔
جس خدا کا قرب چاہتے ہو اس کی شان یہ ہے کہ نہایت حلیم اور بردبار ہے، سخت سے سخت مجرموں تک کو رزق دیتا ہے اور بڑے سے بڑے قصوروں پر بھی درگزر کیے چلا جاتا ہے۔ لہذا اس سے قریب ترہونے کے لیے تم بھی عالی حوصلہ اور وسیع الظرف بنو۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانوں پر جاری ظلم و ستم اور زیادتیوںواستحصال کا، فی زمانہ مقابلہ کیا جاتا رہا ہے۔اس کے باوجود مسائل کا حل متعلقہ زمانہ میں مختلف نظریاتی وعملی رویوں سے تلاش کیا گیاہے ۔ان ہی طریقوں میں سے ایک طریقہ رائج الوقت عدالت کا ہے جس میں شواہد و ثبوتوں کی بنا پر فیصلے لیے جاتے ہیں۔دوسرا عدم تشدد جیسی تحریکوں و نظریات کا ہے، جس میں انسان ظلم و تشدد کا مقابلہ اپنے مخصوص انداز میں کرتا ہے۔اور تیسرا وہ طریقہ ہے جو خو دانسانوں کے پیدا کرنے والے نے بتایاہے۔یہ طریقہ فی الوقت سورہ النساء کی آیت 149 کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ظلم و ستم جو جاری ہے، اور آئندہ جومتوقع ہے، کا حل کون سے طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے تلاش کیا جاسکتا ہے؟ساتھ ہی یہ بھی طے کریں کہ مسائل کے حل کے لیے ہم کس وقت قدم اٹھائیں گے؟اس وقت جبکہ وہ رونما ہو چکے ہوں؟ یا قبل از وقت بھی ان سے بچنے کی تدابیر تلاش کی جا سکتی ہیں؟ہندوستان میں عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف کمیونٹی،گروپ اورفرقے جب حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں، اس کے بعد ہی سوچنے اور غور و فکر کرنے والے متحرک ہوتے ہیں۔
برخلاف اس کے واقعہ سے پہلے اور واقعہ کے ایک عرصہ بعد، خواب خرگوش میں کھوئے رہتے ہیں۔پھر جب کوئی واقعہ رونما نہ ہوجا تا ہے تو پہلی کوشش امن کمیٹیوں کا قیام ہے،تووہیں دوسری کوشش مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سست رفتاری سے قانونی چارہ جوئی کا عمل۔ سوال یہ ہے کہ ہم جس مقام پر بھی موجود ہیں ،کیا وہاں قبل از وقت ایسی کمیٹیاں تشکیل نہیں دی جا سکتیں جو نہ صرف حادثہ کے وقت امن کے قیام میں مدد گار ہوں بلکہ عام حالات میں بھی ایک دوسرے کی خبر گیری،مدد اور تعاون میں موثر کردار ادا کریں؟ساتھ ہی ایسے افراد جو ظلم و جبر کو پسند نہیں کرتے، جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ظلم کے لیے اٹھنے والے ہاتھوں پرگرفت ہونا چاہیے،ان کے خلاف نہ صرف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے بلکہ سزا بھی دلوانی چاہیے۔
کیا ایسے افراد کو مقاصد کے حصول کے لیے قبل از وقت منظم نہیں کیا جاسکتا؟واقعہ یہ ہے کہ حادثہ سے پہلے ہی سنجیدہ اورمنظم کوششیں مستقبل قریب میں ہونے والے حادثات سے بچاتی ہیں۔ لہذاان دو پہلوئوں سے امن پسند طبقے کوہمہ وقت سرگرم رہنے کی ضرورت ہے۔اور یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ ہم انسانی بنیادوں پر اپنے گرد و پیش کے افراد سے مضبوط رشتے استوار رکھتے ہوں!
Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com