مان لیتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی خر ابیاں رچ بس گئی ہیں ،وقت لگے گا ،یہ بھی منظو ر ،مگر حر کات سے محسو س ہو تا ہے کہ کو ئی کتنا اچھا جا رہا ہے ،خا ص طور پر جب سو چ ظاہر ہو تی ہے ،یا پلا ننگ معلوم پڑتی ہے تو واضع ہو رہا ہو تا ہے ۔مگر ہو کیا رہا ہے خو ا ہشا ت کا او دھوم مچا ہو ا ہے نصیحت کی آواز کیسے سنا ئی دے
بڑی سادہ سی مثا ل دی جاتی ہے کہ تر قی یا فتہ ممالک میں ہر طر ح قانون کی پا سدا ری کی جاتی ہے ،عوام کو انصاف گھر گھر پر ملتا ہے ،وہ بھی کسی بھی کیس میں ہو ں تو مقر رہ وقت پر نتا ئج ان کو مل رہے ہو تے ہیں اور ان کو معلوم ہو تا کہ فلاں کیس میں کتنے دن درکا ر ہیں ۔اور ہمارے ملک میں کسی بھی ادارے کی صورت حال ایسی کہ بند ہ پیچھے کی طر ف قد م اٹھا کر بھا گتا ہے ۔یہی خیال کیا جاتا ہے کہ کسی سے واسط نہیں پڑئے ،اگر کسی مجبو ری میں کا م پڑ جائے تو حشر ایسا کیا جاتا ہے جیسے دکھ سے کہا جائے کہ پہلے کہا ں تھے اتنی دیر سے کیوں آئے ۔اس سوچ کے ساتھ وریہ اپنا یا جاتا ہے۔
بات شروع کی تر قی یا فتہ ممالک کی ،بڑ ی تعداد میں پاکستانی شہر ی بر طا نیہ میں مقیم ہیں ۔ان سے جب ان کے کاروبا ر کے بارے پو چھا جائے تو وہ بڑ ی احتیا ط سے کا م لیتے ہیں ۔پھر جب وہ کسی آفس میں اپنا کام کرواتے ہو ں گے تو کتنی احتیا ط بر تے ہو ں گے ۔پاکستان میں رہ کر شائد یہ با تیں ادھوری لگتی تھیں ،جب سے لند ن آیا سکر ین کا پر دہ پورا نظر آیا کہ یہا ں کی اصل حقیقت کیا ہے ۔بات لمبی کیے بغیر یہ بتا تا چلوں کہ یہاں پر جب کو ئی شہر ی ئنا گھر خر ید تا ہے تو اس کو اپنی انکم شو کر نی ہو تی ہے ساتھ اس کو بتا نا پڑتا ہے کہ اس کے ساتھ کتنے افراد رہ رہے ہیں
اس کے اخرا جات کیا ہیں اور اس کی بچت کتنی ہے ،تمام معاملے میں جا نچ پڑتا ل کی جاتی ہے اس کے صورت حال مکان خر ید نے تک جا تی ہے ۔اس طرح کی صور ت حال بزنس بڑھا نے کے معاملے میں بھی پیش آتی ہے ۔کونسل آفس کی جانب سے مکمل جا نچ پڑتال کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بہت احتیا ط سے کا م لیتے ہیں۔کیو نکہ سے معاملا ت دیکھے جاتے ہیں کہ اس کے پاس اتنا پیسہ کہا ں سے آیا ہے ،اس لئے کچھ لو گ زیا دہ زحمت نہیں کر تے بجا ئے زیادہ پر اپر ٹی اور لمبے چو ڑے بزنس کی طرف جاتے ۔ایک بہت نارمل سی مثال قارئین کے سامنے رکھی ہے ۔اس معاملے میں اگر غلط معلومات فراہم کی جائیں تو کو رٹ کیس چل سکتا ہے۔ اس طر ح چیک اینڈ بیلنس سے بہت سی پیچید گیاں پیدا نہیں ہو تی ہیں اور معا شرتی خرابیو ں کی روک تھا م ہو رہی ہو تی ہے۔
بر طا نیہ جیسے ملک کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہاں کی عوام بہت خو شخال ہے ،انصاف گھر گھر ملتا ہے ،تعلیم اور میڈیکل کی سہو لیا ت فر ی فراہم کی جا تی ہیں ۔کیو نکہ جب کو ئی پرا پر ٹی اور بز نس زیا دہ کر تے ہیں تو اس نو عیت سے ان کو ٹیکس ادا کرنا پڑ تا ہے ۔اور یہاں کا سسٹم ایسا ہے کہ پہلی بات کہ ٹیکس ادا کیا ہی نہیں جاتا اور جو کیا جاتا ہے نمک کے برابر ہوتا ۔سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جو تر قی یا فتہ ممالک کی عوام ٹیکس ادا کرتی ہے وہ خود سے کرتی ہے یا سرکا ر زیا دہ سختی کر تی ہے ،تو اس کا جو اب اتنا سا ہے کہ یہاں کی حکومت بہت حد تک گنجا ئش دیتی ہے مگر کو ئی حد کراس کرتا ہے تو اس کو مکمل سزا ء دی جاتی ہے ۔سزاء کی نو عیت بھی اسی طر ح کی ہو تی ہے ،اس لئے کو ئی ٹیکس نہیں دینے کے بارے سو چتا بھی نہیں ہے۔
Tax
ان تما م اقدامات کے پیچھے جو سسٹم قائم ہے وہ چیک اینڈ بیلنس کا ہے ۔حکومتی ادارے ہیں جو تما م معلوما ت رکھتے ہیں ،اس کے تحت پالیسی بن رہی ہو تی ہیں ۔اس لئے کو ئی اس کاروائی سے بچ نہیں سکتا کہ اس کی انکم ٹیکس کے لحاظ سے تھو ڑی ظا ہر ہو رہی ہو اور اس کا کا روبار اور گا ڑیا ں زیا دہ ہو ں تو پو لیس کی گر فت سے وہ بچ نہیں سکتا ۔اب اگر اپنے ملک کی صورت حا ل دیکھیں تو معلوم پڑتاہے کہ سرکا ری ا فیسر کی تنخواہ کچھ اتنی ہو تی کہ وہ بہت تھو ڑا ٹیکس ادا کر رہا ہو تا ہے مگر اس کے بچے بیر ون ملک تعلیم حا صل کر رہے ہو تے ہیں ۔تھو ڑے ذ ہین لوگ اپنے اثا ثے کم ظا ہر کر تے ہیں تا کہ ٹیکس کم دینا پڑے ،اور اپنے عز یز اور رشتہ دار وں کے نام استعما ل کر ر ہے ہو تے ہیں۔
اب ہم یہ نہیں کہتے کہ پاکستا ن میں اس طر ح کے ادارے مو جو دنہیں ہیں ہ جو چیک اینڈ بیلنس کر یں ۔اور شہر یوں کے بارے معلومات سب مو جو د ہو تی ہے ۔اس بنا پر کر پشن کے کیس بھی بن رہیں کبھی کبھار ہم ایسی خبر یں سنتے ہیں ۔مگر ان اداروں کے ہو تے ہو ئے سر عام ایسا بیا نا ت جاری ہو تے ہیں جس سے تضاد محسو س ہو تا ہے ۔سینٹ الیکشن میں پیسہ لے اوردے کر ووٹ لینے کا فیصلہ ہو رہا ہے ۔کروڑوں کی آفر کی جاتی ہے ،اتنی سی خبر پر اداروں کوحرکت میں آ جا نا چا ہیے۔یہ جا نچ پڑ تا ل ہو نی چاہیے کہ جو کروڑوں کی آفر کی گئی وہ دولت کہا ں سے آئی اور جس کو رشو ت دی جاتی اس کے اکا ونٹ میں یہ رقم کہاں سے آئی ۔تحقیق اس طر ح شروع ہو تو بہتری کا آغاز ہو تا ہے۔
کیا ایسی روایت نہیں چلنی چاہیے ؟اگر نہیں تو اس طر ح کے اجلا س ہو تے رہیں گے کہ بھا ئی اس بار پیسہ دے کر ووٹ نہیں لیں گے اور نہ دیں گے ۔اس طر ح مطلب یہ بنتا کہ اس بار ملک کے حالات ٹھیک نہیں اگلی بار حساب براب کر لیں گے ۔قارئین سو چیں جو اتنا پیسہ دے کر سیٹ لتیا ہو گا کیا وہ دیا نت داری سے کام کر ئے گا اگر اس نے دیا نت داری کے اصول پر رہنا تھا تو ر شوت دینے کی روایا ت نہ ڈالتا ۔اس طر ح کرپشن کا اغا ز ہو تا ہے پھر کسی بھی نو عیت کے اجلا س کر یں کر پشن کو کنٹر ول نہیں کیا جا سکتا ہے ۔بر طا نیہ جیسے ملک میں اگر ایک چھو ٹا سا گھر اس کی انکم کے حسا ب نہیں بنتا تو کو رٹ کیس شر وع ہو جاتا ہے اور کو نسل والے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
مگر ہمارے ہاں کچھ عر صہ میں صوبائی اور قو می اسمبلی میں جا نے والے بڑے بز نس مین بن جا تے ہیں ۔ تیس سال بعد معلو م پڑا کہ غلط کا روائی پر کسی اور کے لا ئسنس پر پو ائنٹ لگا ئے گے کیونکہ اس نے ٹر یفک کے قانون کی خلا ف ورزی کی تھی تو اس جج کو تیس سال بعد اس غلط کا روائی کی سزا دی گئی ۔کیو نکہ اس کی غلطی کی بنا پر کسی کو سزا ملی اس لئے اب اس جج کو سز ا ء بھگتنا پڑ رہی ہے یہ واقعہ بھی بر طا نیہ جیسے ملک کا جہاں کا وزٹ ہمارے سیاست دان آئے دن کر تے رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں تا زہ خبر یں چل رہی ہیں کہ سینٹ کے الیکشن میں کنتے پیسوں کی آفر کی جاتی ہے ۔ کیا معاملا ت ایسے چلتے رہیں گے تو عوام کس خو ش فہمی میں کہ ملک میں مسائل کو ختم کیا جائے گا ۔ہمارے خد مت گاروں کے خو اہشا ت کم ہو نے کا نا م نہیں لے رہی ہیں کیا صرف ان کا حق ہے کہ کچھ بھی کریں اور ان کے خلا ف کو ئی کا روائی نہ ہو ۔ مان لیتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی خر ابیاں رچ بس گئی ہیں ،وقت لگے گا ،یہ بھی منظو ر ،مگر حر کات سے محسو س ہو تا ہے کہ کو ئی کتنا اچھا جا رہا ہے ،خا ص طور پر جب سو چ ظاہر ہو تی ہے ،یا پلا ننگ معلوم پڑتی ہے تو واضع ہو رہا ہو تا ہے ۔مگر ہو کیا رہا ہے خو ا ہشا ت کا او دھوم مچا ہو ا ہے نصیحت کی آواز کیسے سنا ئی دے