تحریر: انجم صحرائی چو بارہ روڈ پر سیٹھ شیخ غلام حسین ، شیخ سیٹھ امام بخش اور شیخ فیض رسول اور سلطان خان کی آ ڑھت ریاض الیکٹرونکس ، کوہاٹی ہوٹل ، زیب میوزک سنٹر اور کریم نواز ہو ٹل۔ فوٹو گرافرز میں لاہور فو ٹو گرافر کے بارے تو میں بتا ہی چکا ہوں اس کے علاوہ زیدی فوٹو گرافر، ساحل فوٹو سٹوڈیو۔ چٹان فوٹو گرافر، عکاس فوٹو سٹوڈیو ،تصویر محل کے علاوہ ضیاءاللہ خان ناصر نے بھی لیہ فوٹو گیلری کے نام سے اپنا سٹو ڈیو بھی اسی دور میں قا ئم کیا تھا ۔میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس زما نے میں لیہ میں ایک ہی سینما ہو کرتی تھی ناز سینما۔ سنا ہے کہ اس سے بھی پہلے حالیہ مرجان ہوٹل کے قریب ایک ٹو رنگ ٹاکیز ہوا کرتی تھی۔ جو میں نے سنی ہے دیکھی نہیں ، ناز سینما روڈ پر ہی نیا زیوں کا ٹھیکہ ہوا کرتا تھا شا ئد ہمارے آج کے نو جو نوں کو تو پتہ ہی نہ ہو کہ اس زمانے میں افیم اور چرس بھی حکو مت کے منظور شدہ ٹھیکوں پر ملتی تھی۔ ناز سینما کے سا منے بلی پہلوان کا ہو ٹل ایک مصروف چا ئے کا ہو ٹل تھا۔ گلستان سینما اور چندا سینما بہت بعد میں بنیں ۔گلستان سینما کے پہلے منیجر رفاقت رضوی تھی جو پرو فیسر فرحان چا ند رضوی کے والد تھے ان کی اہلیہ آپا فردوس معروف ما ہر تعلیم ہیں رفاقت رضوی اور آ پا فردوس رضوی نے کمال محنت کی اور اللہ نے ان کی شب و روز محنت کو قبول کرتے ہو ئے انہیں چاند جیسا پرو فیسر بیٹا عطا کیا جونہ صرف آ پا فردوس بلکہ سارے لیہ والوں کے لئے با عث فخر ہے۔
بھا ئی رفا قت رضوی اور آپا فردوس کی محبتیں اور شفقتیں بھی میرے ” شب و روز زند گی “کا ایک نہ بھو لنے والا باب ہیں ۔ ریلوے روڈ پر صا بر ہوٹل اور تھل ہوٹل سمیت بہت سے ہوٹل اور سرائے ہوا کرتی تھیں سرا ئے کا ذکر آیا ہے تو میں قیام پا کستان سے قبل لیہ شہر کی ہر جس را ئے گابا سرا ئے کے بارے بھی آپ کو بتا تا چلوں قیام پا کستان کے بعد یہ سرا ئے امام خا نہ حسینیہ میں تبد یل ہو گئی ہے کہا جا تا ہے کہ یہ ہر جس رائے گابا سرائے 1935 میں قا ئم کی گئی اس سرائے کے بانیان بارے دو آرا ہیں ایک تو یہ کہ یہ سرائے لیہ کے مشہور گا باخاندان نے بنا ئی تھی ایک اور روایت کے مطا بق اس سرائے کو قائم کرنے والے ملتان کے کو ئی مہاراج تھے جنہوں نے یہ سرا ئے ہندو یا تر یوں کے لئے بنا ئی تھی لیکن ہر جس رائے گابا سرائے کے بنا نے والا میرے خیال میں لیہ کا گابا خاندان ہی تھا۔
مشہور قا نون دان بیر سٹر کے ایل گا با اسی گابا خاندان کے چشم و چراغ تھے کے ایل گابا کا اصل نام کنہیا لا ل گا با تھا کے ایل گابا نے ابتدا ئی تعلیم ماڈل ہا ئی سکول سے حا صل کی گورنمنٹ ما ڈل سکول کی تا ریخ بارے جو تحریر سکول ہیڈ ما سٹر کے دفتر کے باہر دیوار پر لکھی ہے اس میں بھی کے ایل گابا کو سکول کا طالب علم لکھا گیا ہے لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جب میں نے سکول ہیڈ ما سٹر سے دریا فت کیا کہ کیا کے ایل گابا کا تعلیمی ریکارڈ ان کے سکول میں مو جود ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 1952 سے پہلے کا تمام سکول ریکارڈ ضا ئع ہو گیا ہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ وہ لیہ کے پہلے وکیل تھے کنہیا لا ل گا با نے وکالت کی تعلیم مکمل کر نے کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام کنہیا لا ل گا با کی بجا ئے خالد لطیف گابا رکھ لیا تھا کے ایل گا با قا ئد اعظم کے ہم عصر قا نون دان تھے کے ایل گا با نے کئی مقد مات میںبیر سٹر جناح کے مقا بلہ میں بھی وکا لت کی۔
کے ایل گا با کئی کتا بوں کے مصنف بھی تھے جن میں Prophet of Desertاور پا کستان ٹو ڈے بہت مشہور ہیں ۔ اس زما نے میں جی ٹی ایس کا اڈہ اور دیگر بسوں کے اڈے شہر میں ہی ہوا کرتے تھے نیو خان کے عروج کا دور تھا اسی لئے ریلوے روڈ ، سینما روڈ اور شہر کے لاری اڈے تقریبا ساری رات ہی جا گا کرتے تھے لیہ شہر میں پرا نے برف کے کارخا نوں میں نہر کے کنارے قائم فردوس آ ئس فیکریٹری اور ریلوے روڈ پر شاہ جی کا برف کا کارخانہ خا صے معروف تھے ۔ پرا ئیویٹ تعلیمی اداروں میں بی بی جی کے سکول کا بڑا شہرہ تھا ۔اس کے علاوہ خالد پبلک سکول کو پہلے پرا ئیویٹ تعلیمی ادارے کا اعزاز حا صل ہے۔ خالد پبلک سکول کے بانی چو ہدری خالد جا وید ایک معروف ما ہر تعلیم تھے وہ کوٹ سلطان میں بھی ہا ئی سکول کے ہیڈ ما سٹر رہے جب میں نے کوٹ سلطان سے ضلع کو نسل کا الیکشن لڑا وہی ہمارے پرا ئیزا ئیڈنگ آ فیسر تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ضلع لیہ کی افتتاحی تقریب میں شمو لیت کے لئے اس وقت کے وفا قی وزیر اطلا عات راجہ ظفر الحق لیہ آ ئے تو خالد پبلک سکول کے بچوں نے ہی مارچ پاسٹ پیش کیا تھا لیہ شہر کے پہلوان اور اکھا ڑے پورے پنجاب میں مشہور تھے جوان جان بنا نے اور ورزش کر نے اکھا ڑوں میں جا یا کرتے تھے امام خانہ حسینیہ کے عقب میں ایک قبر ہے جسے ما ئی میراں کا مزار کہا جا تا تھا یہاں لبھو پہلوان کا اکھا ڑہ تھا شہر کے بیشتر نو جوان زور آز ما ئی کے لئے اسی اکھا ڑے میں آ تے تھے۔ اسی کے ساتھ ہی اس زما نے کی مشہور دو گلوگار بہنوں وزیری اور امیری کا گھر ہوا کرتا تھا۔ جن کی خوبصورت آواز اور گا ئیگی کا ایک زما نہ مداح اور معترف تھا۔
Poetry
ایک اور اکھا ڑہ مشتاق پہلوان کا تھا جو محلہ شیخاں والا میں پراچہ ہائوس کے سا منے ہوا کر تا تھا۔ کا لو پہلوان ، فیضا پہلوان اور تاج مشہد ی پہلوان لیہ شہر کے معروف پہلوان تھے ملیہ میں پہلا پرنٹنگ پریس ناز سینما کے مالک منور احمد نے لگا یا تھا یہ پریس مو جودہ چندا سینما کی جگہ پر لگا یا گیا تھا اس زما نے میں ہفت روزہ نوائے تھل کا دفتر بھی یہیں ہوا کرتا تھا اور ارمان عثمانی بھی نوائے تھل دے ہی وا بستہ تھے۔ لیہ شہر میں اس زما نے میں ادبی محفلیں اور سرگرمیاں عروج پر ہوا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر قیصر رضوی کے کلینک کی چھت پر ہر پندرہ دنوں کے بعد ایک شعری نششت سجتی۔ نسیم لیہ اور دیگر دوست گا ہے بگا ہے ریلوے سٹیشن کے سامنے صابر ہوٹل کی چھت پر مشاعرہ منعقد کرتے۔ خیال امروہوی عدیم صرا طی ، امان اللہ کاظم ، نذیر چو ہدری ، غافل کر نا لی ، شعیب جاذب کیف شکوری ، عثمان خان اور فیاض قا دری کا شمار اس زما نے کے نمایاں شعراء میں ہو تا تھا ۔ محمد عثمان خان محکمہ بلد یات میں ملازم تھے اور اسی نا طے سر کاری تقریبات کی میز با نی کا قر عہ فال عمو ما انہیں کے نام نکلتا۔
محمد عثمان خان ریٹائر منٹ کے بعد سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی Associated Press of Pakistan (APP) سے وا بستہ ہو گئے تھے چند سال پہلے اے پی پی اسلام آباد کے میرے ایک مہربان دوست نے مجھے بتا یا کہ اے پی پی کو لیہ کے لئے نما ئندہ کی ضرورت ہے آپ اپلا ئی کریں میں نے در خواست گذار دی مجھے انٹر ویو کے لئے بلا یا گیا تحریری ٹیسٹ بھی ہوا اور میں کا میاب بھی ہو گیا بعد میں مجھے کہا گیا کہ میں ایک تحریر لکھ دوں کہ لیہ میں اے پی پی پی کا کو ئی نما ئندہ نہیں ہے ہم ڈسٹرکٹ انفا ر میشن آ فیسر سے رپورٹ ما نگ لیتے ہیں ظاہر ہے کہ عثمان خان ان دنوں فیلڈ سے آ ئوٹ ہیں رپورٹ یہی آ ئے گی ہم آپ کو لیہ میں اے پی پی پی کی نما ئند گی دے دیں گے یہ حقیقت تھی کہ عثمان خان ناسازی طبع کے سبب کا فی عر صہ سے اسلام آباد میں اپنے بچوں کے پاس مقیم تھے اور مجھے اس کا پتہ تھا لیکن یہ میرے لئے بہت مشکل تھا کہ میں اے پی پی کی نما ئند گی حاصل کر نے کے لئے یہ لکھ دوں کہ عثمان خان فیلڈ سے آ ئوٹ ہیں میں سمجھتا تھا کہ مجھے اخلا قی طور پر ایسا نہیں کرنا چا ہئے عثمان خان میرے سینئر سا تھیوں میں سے تھے میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا سو میں نے ایسا نہیں کیا ۔ پتہ چلا کہ چند ہی دنوں بعد ایک اور صاحب اے پی پی کے لیہ میں Correspondent بن گئے ہیں ۔ اعجاز شاہ کا کہنا ہے کہ تم جس اخلا قیات کے عادی ہو مار کیٹ میں اس کی ڈیمانڈ نہیں ہے ادب شناش لو گوں میں الہی بخش سرا ئی سر فہرست تھے ۔ الہی بخش بھی بلدیہ کے ملازم تھے مگر انہیں تاریخی نوادرات اور کتا بیں جمع کر نے کا جنون تھا ۔ کہا جا تا ہے کہ ان کے کتب خانہ میں سینکڑوں کتا بیں تھیں میں نے ان کی زند گی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کے کتب خانہ کو دیکھنے کی بار ہا کو شش کی مگر نا کام رہا۔
الہی بخش سرائی ایک سادہ ، پر خلوص اور میزبان شخصیتتھے سفید تہمند،کرتا اور پٹکا پہنے سر ا ئیکی وسیب کے کلچر کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ تا حیات اپنے گھر کے سا منے چو پا ل کی روائت نبھا تے رہے ان کی وفات کے بعد ہو نے والی تعزیتی تقریب میں جب مجھے بو لنے کا مو قع ملا تو میں نے کہا کہ الہی بخش سرا ئی کی موت سے جہاں ہم ایک علم و ادب دوست عظیم شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں وہاں مر حوم کی موت سے لیہ میں چو پال کلچر بھی ختم ہو گیا ہے ۔ ایک اور شخصیت ملک خادم عباس کی تھی ۔ملک خادم عباس ، پی پی پی کے صدر عا شق حسین کھو کھر کے بڑے بھا ئی تھے سبزیمنڈی میں ملک غلام خادم عباس کی دکان بھی سیاسی کارکنوں کے لئے ایک سیا سی بیٹھک کی حیثیت رکھتی تھی ۔ مرحوم ایک وضعدار میزبان اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت تھے ۔ اس سیا سی بیٹھک میں بیٹھنے والے لو گوں میں نیاز جکھڑ ، مہر فضل سمرا ، پرو فیسر نواز صدیقی ، مو لا داد خان ، عبد المجید بھٹہ اور شیخ بدر منیر جیسے دانشور اور سیا سی کارکن بھی شامل ہیں ۔اسی زما نے کی ایک اور علم دوست شخصیت واحد بخش بھٹی ہوا کرتے تھے جو محکمہ ریلوے میں ملازم اور مزدور راہنما بھی تھے مشا عروں میں ان کے ہر شعر پر داد دینے اور واہ واہ کر نے کا انداز بڑا منفرد اور بلند آ ہنگ ہوا کرتا تھا ۔ پی پی پی کے پہلے دور میں سر کار کی طرف سے مزدوروں ایک وفد کے ہمراہ انہیں امریکہ بھیجا گیا ۔ جلال خان ایڈ وو کیٹ بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ جلال خان ایڈ وو کیٹ تو پرو گرام کے مطا بق وطن واپس آ گئے لیکن واحد بخش بھٹی وہیں امریکہ میں ہی رہ گئے ۔ انہوں نے وہاں دوسری شادی کی اور پھر پا کستان سے بھی اپنی فیملی کو بھی امریکہ بلا لیا۔
واحد بخش بھٹی نے امریکہ میں بڑی بھر پور زند گی گذاری نیٹ پر شائع ہو نے والے اپنے اخبار”راوی “میں وہ” بابے کی بیٹھک “کے نام سے کالم بھی لکھا کرتے تھے بلدیہ لا ئبریری پہلے کرنال والی مسجد کے سا تھ پارک کی بلڈ نگ میں تھی بعد میں جناح پارک بننے کے بعد پارک میں بننے والے دو کمروں میں منتقل ہو گئی تھی ۔ جناح پارک میں بننے والی اس مختصر سی بلڈ نگ کے ایک کمرے میں لا ئبریری اور دوسرے کمرے میں یو نین کو نسل کا دفتر واقع ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قا بل ذکر ہے کہ اسی بلڈ نگ کے بالکل ملحق سیوریج کے گندے پا نی کا ڈسپوزل سسٹم بنا ہوا ہے اور یوں یہ لا ئبریری شا ئد دنیا کی پہلی واحد لا ہبریری ہے کہ جس سے استفادہ کر نے والے علم و ادب کے شا ئقین کے لئے ہر وقت متعفن اور بد بو دار فضا کا ماحول بلدیا تی نوازشات کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔