تحریر : محمد احسن چوہدری کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہمار ا سفر اس طرح غمگین ہو گا، میرا دوست ہر عید پر مجھے اسرار کرتا تھا کہ بھائی احسن اس مرتبہ اپنے گائوں میں عید کے لیے نہ جائو بلکہ میرے ساتھ میرے گائوں چلو، لیکن میں ہر مرتبہ انکار کر دیتا کہ بھائی میرے گھر کے تمام افراد جا رہے ہیں وہ مجھے اپنے خاندان سے علیحدہ عید کے لیے اجازت نہ دیں گے، سوچتا تھا، کہ کبھی ان کے گائوں جائوں گا، اور وہاں خوب تفریح کریں گے، سوچتا تھا کہ اپنے دوست کی شادی پر جائو گا تو اپنے دوست کا جنت جیسا گائوں دیکھوں گا، میرا دوست بتایا کرتا تھا کہ ہمارا گائوں بہت پیارا ہے، ایک مرتبہ چلو، واپسی کو دل نہیں کرے گا۔
کئی بار کوشش کرنے پر بھی نہ جا سکا، لیکن ایک ایسا بُرا دن آیا کہ مجھے اپنے دوست کے گائوں جانا پڑا، میرے دوست کا بھائی منور خان جس کے ساتھ ہمارا سلوک بھائیوں کی طرح تھا، میں جب بھی اپنے دوست کے پاس جاتا تو منور خان کو ضرور ملتا ، منور خان بھائی بہت خوش اخلاق تھا، جب بھی دیکھوں مسکراتا رہتا، افسردہ لوگوں کے چہرہ پر خوشی لاتا، وہ صرف اپنے گھر والوں اور دوستوں کے لیے ہی صرف لاڈلہ نہ تھا بلکہ پورے علاقہ کے لوگوں کے لیے لاڈلہ تھا، سب منور سے بہت پیار کرتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے ایک مسکراتا ہوا پھول ہو، غریبوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا تھا ، جو بھی محتاج آتا ،اس کے ہاں سے خالی ہاتھ نہ جاتا۔
ایک دن منور اپنے دوستوں کے ہمرہ ایک لمبی سیرو تفریح کے لیے شہر قصور کے لیے گئے ، سیر وتفریح کے بعد جلدی گھر واپسی کے لیے نکل پڑے منور کے والدین گائوں سے آئے تھے، منور اپنے دوستوں سے کہ رہا تھا، کہ گھر جلدی جائیں میرے امی اور ابو گائوں سے آرہے ہیں ، جا کر انہیں ملنا ہے،گھر میں امی بھی منور کو ملنے پر بیتاب تھیں۔ منور اور اس کے دوست بائیک پر تھے منور اور اسکا دوست عبدالحفیظ ایک بائیک پر تھے، راستے میں آتے ہوے ایک ایسا واقع رونما ہوا کہ ہر ایک دل پر گہری ضرب لگی، رات کا وقت تھا عبدالحفیظ بائیک چلا رہا تھا اور معلوم نہ تھا کہ سامنے سپیڈ بریکر ہے، اور یہ سپیڈ بریکر کتنے لوگوں کی زندگی کو غمگین کر دے گا، سپیڈ بریکر اور تیز رفتاری نے میرے پھول جیسے دوستوں کو ہسپتال پہنچا دیا ، اور منور خان کچھ دن ICUمیں رہنے کے بعد اس دنیا کو خیر باد کہہ گیا، اور سب کی زندگی کو اتنا غمگین اور تنہا کر گیا، اس دن میرے دوست دارس خان نے فون کر کے بری خبر دے کر غمگین کر دیا، گھر پہنچا تو پورا علاقہ غمگین تھا، ہم نے اپنے دوست کو کیا سنبھالنا تھا۔
ہم سب دوست خود کو تو سنبھال نہیں پا رہے تھے، ہسپتال سے میت آتے ہی تمام دوست میت کی طرف لپکے اور پورہ علاقہ اپنے ایک پیارے پھول کی جدائی میں رو رہے تھے، پورہ علاقہ میں چیخیں گونج رہی تھیں۔ پھر منور کی میت کو اپنے گائوں لیجانے کے لیے پھر ایمبولینس میںرکھا، تمام علاقہ ایمبولینس کے ساتھ لپکا ہوا تھا، کبھی سوچا نہ تھا کہ اتنا غم ملے گا، پھر ایمبولینس گائوں شکر درہ کی طرف چل پڑی ہم دوست رئیس ، جاویدخان، راشد، رضوان، دارس خان اور میںبھی گائوں کے لیے نکل پڑے ، اتنی غمگین رات تھی وہ، ہمارا سفر رات کا تھا، پہاڑی اور خطر ناک رستہ اب خطرناک بھی معلوم نہ ہوتا تھا، ہمیں منور کے دکھ سے بڑا دکھ کوئی بھی نہیںلگتا تھا، ہم صبح 4 گائوں پہنچے ، اتنا پیارا گائوں جس کا نام شیردل تھا، اتنے حسین مناظر تھے، یوںتھا جیسے جنت ہو، بڑے بڑے پہاڑ ، اور پہاڑوں سے نکلتیں اللہ کی نعمتیں ، لیکن افسوس کے یہ ہمیں اس موقع پر دیکھنے کو ملیں جب ہمیں ایک بہت بڑا دکھ ملا ہو، تب کسی چیز سے بھی محبت نہ تھی، کچھ بھی اچھا نہ لگتا تھا، بس اپنے دوست منور کے ساتھ گزرے وہ پیارے پل یاد آتے۔
Allah
یاد آتا کہ میرے بھائی منور کا چہرہ مسکراتا ہوا، اور منور کے ساتھ گزرے وقت کو یاد آنے پر رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے، اپنے آپ کو بہت کنٹرول کیا، ہم کیا دارس خان کو حوسلہ بڑھاتے ہمارے اپنے حوسلے ہی ٹوٹ چکے تھے، اس منظر کو دیکھنا بہت مشکل تھا،جب میرے دوست کی امی اپنے جوان بیٹے کے لیے کس طرح رو رہیں تھیں، ایک ماں پر کیا بیتتی ہے جب ایک جوان بیٹا اس دنیا کو چھوڑ کر چلا جائے وہ بھی اتنا مسکراتا ہوا پھول جیسا بیٹا۔۔؟ ہمارے پاس کوئی چارہ نہ ہے، ہم صرف اپنے بھائی کے لیے اب دعا کے علاوہ کچھ نہ کر سکتے تھے، اور ہم بھی اللہ کی رضا میں راضی ہو گئے ، اور اللہ سے اپنے دوست کی بخشش کے لیے دعائیں مانگتے رہے، جنازے کا وقت آگیا، بڑے بڑے پہاڑوں کو پار کر کے ہم اپنے دوست کی میت کو باری باری کاندھا دیتے ہوے جنازگاہ اور قبرستان کے پاس پہنچے جہاں لوگوں کا بہت بڑا حجوم پہلے سے تھا،اور بہت بڑا جنازہ ہوا، اور بعد میں مغفرت کے لیے دعا ہوئی سب کی آنکھیں اشکبار تھیں، اور جسم ایسے کانپ رہا تھا، یوں لگتا تھا دوست کی جدائی سے ہماری جان بھی نکل گئی ہو، پھر میرے دوست کو دفن کیا گیا۔
قبرستان میں یوں لگتا تھا جیسے کربلا کا ماحول ہو اور ہر ایک فرد ررو رہاتھا، کسی سے بھی اپنی حالت پر کنٹرول نہ ہو رہا تھا، پھر دوبارہ دعا مانگی اور گائوں کی طرف واپس چل دیے ، اگلے دن دارس کے چچا زاد بھائی عامر ہمیں تیل اور گیس کے کنویں پر لے گیا، جہاں انہوں نے ہمیں بتایا کہ اللہ ہمیں پہاڑوں میں سے کس طرح قدرتی وسائل دے رہا ہے، اور عامر بھائی نے ہمیں کنوں سے نکلنے والی گیس اور تیل کے پلانٹ کے بارے میں مکمل بتا یا، کی تیل اور گیس کو کس طرح نکالا جاتا ہے، اور کس طرح علیدہ کر کے استعما ل میں لایا جاتاہے، لیکن منور کی جدائی نے ہمیں اس نعمت کا بھی وہ لطف نہ مل سکا، ہمارا دوست ہمیںبہت غمگین کر گیا، یوں لگتا تھا کہ ساری خوشیاں چھین کر لے گیا ہو، پھر ہم دوست لاہور واپسی کے لیے روانہ ہو گئے۔ اللہ میرے پھول جیسے دوست کوجنت میں اعلیٰ مقام دے اوردوست کے گھر والوں کو صبر دے۔ آمین