لاہور (حسیب اعجاز عاشر سے) گزشتہ روز پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر قذافی سٹیڈیم لاہور کے پنجاب کیفے ٹیریامیں معروف کالم نویس محمد شہزاد اسلم راجہ کے پہلے مجموعہ کالم ”آوارگی” کی رونمائی کے حوالے سے ایک یادگار تقریب کا انعقاد کیاگیا۔محمد شہزاد اسلم راجہ نے ١٩٩٦ء میں نوائے وقت ملتان کے ہفتہ وار ایڈیشن ”پھول اور کلیاں” سے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا،اور آج کئی اخبارات اور میگزین میں انکی تحریریںشائع ہو رہی ہیں،محمد شہزاد اسلم راجہ نئی نسل کے حقیقی ترجمان لکھاری ہیں ۔خوبصورت الفاظ کا چنائو، منفرد مگر عام فہم اندازِبیان ہی دن بہ دن اِنکے قارئین میں اضافے کا سبب ہیں،انہیں زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو کے بریک بینی سے کئے گئے مشاہدات کو سلیقے سے قرطاس پر بکھیرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ درحقیقت یہ ”آوارگی” ایک جنون کا نام ہے اور یہ جنون ہے۔۔۔ سچ کو سچ لکھنے کا، جھوٹ کو جھوٹ لکھنے کا، دوست کو دوست لکھنے کا، دشمن کو دشمن لکھنے کا،یہ جنون ہے تلخ حقائق لکھنے کا، تنقید برائے اصلاح لکھنے کا، نئی نسل کی رہنمائی کرنے کا، یہ جنون ہے ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کا، عوام کو قوم بنانے کا،پاکستان کے روشن پہلو کو اُجاگر کرنے کا، اقوام عالم میں پاکستان کا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کا، یہ جنون ہے مذہب اسلام کے حقیقی درس محبت،اخوت،امن،مساوات کو عام کرنے کا۔محمد شہزاد اسلم راجہ کی یہ جنونیت اِنکی تحریروں کے عنوانات،الفاظ اور جملوں سے چمکتی دھمکتی کرنوں کی ماننداُبھر کر اطراف کو منور کرنے میں محوِ عمل ہو چکیں ہیں۔
نامور شاعر و ادیب جناب زاہد شمسی کے زیرِ صدارت اِس تقریب میں جناب شہزاد عاطر(سخنور انٹرنیشنل)، محترمہ یاسمین بخاری،جناب وسیم عباس اور حسیب اعجاز عاشرنے مہمانانِ خصوصی کی حثیت سے شرکت کی۔نظامت کے فرائض ندیم اظہر ساگر(ریذیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ سلطنت لاہور) نے انتہائی حسن و خوبی سے اپنے منفرد انداز دلکش جملوں اور برجستہ عمدہ اشعار کے انتخاب کے ساتھ انجام دیئے،استقبالیہ کلمات بھی ندیم اظہر ساگر کے حصے میں آئے۔تلاوت کلام پاک کی سعادت محمد علی افضل نے حاصل کی جبکہ علی رضاقادری نے ہدیہ نعت ِرسول مقبولۖ پیش کرکے دلوں کو منور کر دیا۔تالیوں کی گونج میں شہزاد اسلم راجہ نے صدرِ محفل جناب زاہد شمسی کے ہمراہ کتاب کی باقاعدہ رونمائی عمل میں لائی۔جنرل سیکرٹری بزمِ غالب ڈاکٹر ابرار اور سیکریٹری ادب سرائیک ایڈوکیٹ سفینہ سلیم چوہدری نے اِس موقع پر شہزاد اسلم راجہ کو مبارکباددی اورپھولوں کے گلدستے بھی پیش کئے۔جناب پروفیسر عرفان پاشا(کالم نگار،براڈ کاسٹر، شاعر و ادیب) اور جناب ظہیر سلہری(ایڈیٹوریل انچارج روزنامہ سمائ) غیر متوقع وجوہات کی بنا پر شرکت سے قاصر رہے ۔ جناب سیداسلم جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ اسلم راجہ ہمارے لئے کسی اثاثے سے کم نہیں۔سادہ الفاظ میں مگر پُر اثر اور بامقصد لکھتے ہیں ۔اِن کی تحریریں نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔حکمرانوں پے تنقید بھی کرتے ہیں مگر ہر تحریر کے اختتام پر اصلاح کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔”آوارگی” کی اشاعت پر دلی مسرت ہے۔ڈھیروں مبارکبادیںاور دعائیں کہ انکی تحریروں کا سلسلہ جاری رہے۔
فوزیہ چغتائی نے شہزاد اسلم راجہ کے کالم با عنوان ”میرا کارنامہ زندگی میری حسرتوں کے سوا کچھ نہیں”میں لکھے گئے اِس شعر سے”وقت بدلا دیس کی حالت نہیں بدلی۔۔قوم کے رہبر تیری عادت نہیں بدلی”سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا آج کا نوجوان دلبرداشتہ ہو چکا ہے ۔ہماری قوم کے حکمرانوں کو اپنے رویوں پے نظرثانی کی اشد ضرورت ہے ،وعدوںکی پاسداری پے خاص توجہ دینا ہو گی تا کہ نئی نسل میں نہ امیدی نہ پنپ سکے۔ اِسی کوتاہیوں کی نشاندہی شہزاد کے کالموں میںکی گئیں ہیں۔انہوںنے محمد شہزاد اسلم راجہ کو اُنکی قلمی جہادپرخراجِ تحسین بھی پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ شہزاد ایک سچا محب وطن پاکستانی ہے۔دعاگوہ ہیں کہ اللہ تعالی انہیں اِس نیک کام میں استقامت دے اور”آوارگی” اپنے نیک مقاصد کے حصول تک اپنی منزل کے جانب گامزن رہے۔
جناب محمد عباس شاہ(چیئرمین دارالشعور پبلیکیشنز) نے محمد شہزاد اسلم راجہ کو ”آوارگی” کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارئے ہاں سچ بولنے کے وقت سچ نہیں بولا جاتا ،سچ اُّسوقت بیان ہوتا ہے جب اُسکی افادیت بلکل صفررہ جاتی ہے مگر شہزاد اسلم راجہ یقینا داد و تحسین کا مستحق ہے جو اُس وقت سچ لکھ رہا جب اِسکی ضرورت ہے اور یہی سچ صیح راہوں کے تعین کے لئے مددگار ثابت ہوگا۔ہم اِنکے ہر قدم پر انہیں کامیابیوں کی دعائیںدیتے ہیں۔
حسیب اعجاز عاشر (دبئی) کا کہنا تھا کہ محمد شہزاد اسلم راجہ کے کالم نگاری اور شخصیت کے حوالے سے کچھ کہا جائے تووقت کی قلت آڑے آجائے جتنے عمدہ لکھاری ہیں اتنے نفیس انسان بھی ہیں۔اِنکے تمام کالموں کا مطالعہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔انکی سچائی انہیں دوسرے لکھنے والوں میں ممتاز رکھتی ہے۔مجھے قوی اُمید ہے کہ اگرنئی نسل اِس ”آوارگی” کا مطالعہ کر لے تو وہ انشاء اللہ تعالی آوارگی سے بچ کر اِس ”آوارگی” کی لت میں پڑ جائیگی،جو اُن کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔انہیں کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد۔دعاگوہ ہیں کہ زورِ قلم اور زیادہ۔
وسیم عباس نے شہزاد اسلم راجہ کی کتاب ”آوارگی” پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اِس کی ایک ایک تحریر پڑھنے کے قابل ہے اِنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو خو ب نبھایا ہے ،انہیںنہ شہرت کی حوس ہے نہ ذاتی کسی مفاد سے غرض۔یہ لکھتے ہیں تو فقط معاشرے کی اصلاح کے لئے لکھتے ہیں۔وطنِ عزیز سے انکی انتہا کی محبت اِنکے کالموں سے خوب چھلکتی ہے۔یہ نئی نسل کے کالم نویسوں کی صفِ اول میں شمار ہوتے ہیں،دل کی گہرائیوں سے ”آوارگی” کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
محترمہ یا سمین بخاری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کم عمری میں اتنی دلیری سے پاکستان کا حقیقی منظر نامہ اور تلخ حقائق کو بے نقاب کرنا ایک قابل تحسین امر ہے یقینا اِس سے بانی پاکستان کی روح کو سکون حاصل ہو گا۔ہمیں اِ ن جیسے ہی قلمی جہاد کرنے والوں کی اشد ضرورت ہے تا کہ غلطیوں سے اپنی اصلاح ہو سکے ہو اور پاکستان اُس رنگ میں نظر آسکے جسکے لئے اِسے حاصل کر سکے۔ڈھیروں دعائیں کے ساتھ انہیں ”آوارگی” کی اشاعت پر بھرپور مبارکباد۔
شہزاد اطہر نے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ شہزاد اسلم راجہ وہ گیانی ہے جس نے جتنا سفر خدائی کے ساتھ کیا ہے اس سے دُگنا سفر وہ اپنی ذات کی پہنائیوں میں کر چکا ہے۔وہ لوگوں کو بے مقصد بے سمت سفر کرتا دیکھ کر تڑپ جاتا ہے۔وہ اپنے قلم کو تبر بنا کر جھاڑ جھنکار کو کاٹ کر اپنے لئے اور اپنے وطن کے لوگوں کے لئے ایک خوشنما منظر بناتا ہے جہاں سے روشن آسمان کو دیکھا جا سکتا ہے،یہی تباین اس کو دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔ مجھے اسلم راجہ پر فخر ہے اور میری دعائیں اور محبت اس کے ساتھ ہیں۔
صاحبِ محفل محمد شہزاد اسلم راجہ نے اظہار خیا ل کرتے ہوئے صدرِ محفل،مہمانانِ خصوصی اور تمام شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنکی شرکت ،اور اظہارِ چاہت نے تقریب کو یادگار بنا دیا،بعدازاں حبیب جالب کے اِس شعر ”یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا۔۔جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے”سے آغاز کرتے ہوئے کہا یہ شعر ہی میرے عنوان”آوارگی”کی وجہ بنا اپنے قلمی سفر پر روشنی ڈالی اور اِس سفر سے وابستہ حسین، دلچسپ و یادگار واقعات کو بھی حاضرین کی نذر کیا انہوں نے اُن شخصیات کا ذکر بھی بڑے احترام سے کیا جنکی حوصلہ افزائی اور رہنمائی انکے لئے تقویت کا باعث رہی جن میںانکے والد محترم محمد اسلم راجہ (محرحوم)،ولدہ محترمہ، اِنکی شریک حیات سمیرا شہزاد،چچا محمد افضل، بھائی ڈاکٹر آصف اسلم سمیت ایم سلیم طالب، شہزاد عاطر،کمال ایوب صدیقی،پروفیسر عاصم درانی،زاہد شمسی،محترمہ صغراء صدف، خاقان حیدر غازی، سید فراصت بخاری، وسیم عباس، حسیب پاشا، پروفیسر عرفان پاشا،سید اسلم جاوید ہاشمی اور حسیب اعجاز عاشر کے نام شامل تھے۔ اختتام پر انہوں نے ایک بار پھر تمام شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے نیک تمنائوں کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ میرا پہلا مجموعہ کالم آپ کے ہاتھوں میں ہے اور آپکی،اہل ادب کی حوصلہ افزائی کی متقاضی ہے۔
اپنے صدارتی خطبے میں صدرِ محفل جناب زاہد شمسی نے محمد شہزاد اسلم راجہ کو اُنکے پہلے مجموعہ کالم ”آوارگی” کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی اور خوبصورت تقریب کے انعقاد پر انتظامیہ کی خدمات کو بھی خوب سراہا انہوں نے ندیم اظہر ساگر کی نظامت کو بھی پسند کیا جنکی قابلِ تعریف انداز نے آغاز سے اختتام تک محفل کی رنگینیوں کی لمحہ بھر کے لئے بھی کمی نہ آنے دی،انہوں نے کہا تحریر وہی باقی رہتی ہے جو خون سے لکھی جائے۔ سچائی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینے سے نہ تو تحریر زندہ رہتی ہے اور نہ ہی تحریر لکھنے والا تاریخ کا حصہ بنتا ہے۔نظامی صاحب کا یہ جملہ ”سچ نہ لکھنا عصمت دری کے مترادف ہے” میرے اندر رچا بسا ہے اور لکھاریوں کو قلم سے حرف ،لفظ اور جملے لکھ دینے سے پہلے اِسی انمول سبق کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔میرے لئے یہ کہنا باعثِ مسرت ہے کہ محمد شہزاداسلم راجہ بھی انہیں راہوں کا مسافر ہے جس راہ پے نہ سر جھکتاہے اور نہ ہی سچ بکتا ہے۔میرے دل سے اِنکی صحت ،لمبی زندگی اور میدانِ صحافت میں بھرپورکامیابیوں کی دعائیں ہیں۔اختتام پر انہوں نے اپنا ایک قطعہ شہزاد اسلم راجہ کی نذرکرکے شرکاء محفل سے بھرپور داد و تحسین سمیٹی۔
اس بات پے ہے ایمان بہت یہ مٹی ہے ذیشان بہت میں پاکستان کا بیٹا ہوں بس یہ میری پہچان بہت
ناظمِ محفل ندیم ساگرنے جس دلنشین ومعطر فقرات کے ساتھ دعائیہ و اختتامیہ کلمات پیش کئے، سبھی اِن کے مداح ہوئے۔ تقریب میں سجاد بخاری،ماجد امجد ،ایم اے تبسم ،محمد عمران سمیت مختلف شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والی کئی نمایاں شخصیات نے شرکت کی۔فوٹو سیشن میں شرکاء ہر دلعزیز محمد شہزاد اسلم راجہ کے ہمراہ فوٹو کے لئے بے تاب نظر آئے۔تقریب کے اختتام پر شرکاء گرما گرم چائے کی ضیافت سے لطف اندوزبھی ہوئے۔