تحریر: انجینئر افتخار چودھری تحریک انصاف میں ایک ایسی خاتون بھی ہیں جسے مل کر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ آپ پاکستان کی ایک شخصیت سے مل رہے ہیں جو ماضی کا حصہ مگر حال کی شخصیت ہیں یہ شبیہ ہے محترمہ فاطمہ جناح کی جس نے قاید اعظم کا ساتھ دیا اور ساتھ دینے کا حق بھی ادا کیا۔ میں آج اس خاتون کے لئے قلم اٹھا رہا ہوں جس کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز رہا ہے ہمیشہ چہکتی، مسکراتی اس بہن کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے سچی بات یہ ہے تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد جو شخصیت مقبول اور معروف ہے وہ یہی عظیم خاتون ہے جسکا نام ہے محترمہ فوزیہ قصوری نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کارکنوں کے دلوں میں رہنے والی ،نوجوان جسے ماں کہتے ہیں اور بڑے اسے بہن کہنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ اس عظیم خاتون نے پاکستان تحریک انصاف کے لئے رات دن ایک کر دیے۔پارٹی کو وجود میں آئے سترہ سال ہو چکے ہیں فوزیہ بہن اس وقت سے ہی تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔یہ عظیم خاتون٨ ستمبر ١٩٥٢ کو کراچی میں پیدا ہوئیں جو آج کل اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد میں رہائیش پذیر ہے ان کے میاں کا نام دانیال قصوری ہے جو بیکن ہائوس اسکولز اور یونیورسٹی کے مالک ہیں۔
کراچی یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف نارتھ کارولینا سے ایم بی اے کیا اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر آف انٹر نیشنل افیئرز کیا وہ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کزن بھی ہیں ویسے تو ان کا گھرانہ تحریک پاکستان میں سرگرمی سے حصہ لینے والوں میں شامل ہے وہ پیپلز پارٹی کے بھٹو دور کے سینئر وائس چیئر مین میاں محمود علی قصوری کی بھتیجی بھی ہیں یوں سیاست ان کے خون میں شامل ہے یہی وجہ ہے کے اس بہادر خاتوں نے پاکستان تحریک انصاف کو سیاست کے خوبصورت ہنر سے اس درجہ تک پہنچایاہے،کوئی اس خاتون سے متاآثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ،پی پی ٦ میں جب نوید (میرے بیٹے )نے ممبر شپ کیمپوں کا سلسلہ شروع کیا تو فوزیہ وہاں بھی آئیں وہ میرے لئے میری سگی بہن ممتاز اختر سے کم نہیں۔ پنڈی میں احسن رشید کے لئے منعقدہ ورکرز کنونشن میں میری ان سے ملاقات ہوئی تو فورا نوید کو اوپر بلوا لیا۔سچے کارکنوں کا دل رکھنا کوئی ان سے سیکھے۔
کبھی یو ٹیوب پے اس غیرت ناہید کی تقریریں ملاحظہ ہوں ایسا لگتا ہے کہ کوئی آپ کے دل کو تاروں کو چھیڑتے ہوئے آپ کے من میں چھپے جذبہ حب الوطنی کو جھنجوڑ رہا ہے ،پاکستان اور اس کے محروم لوگ فوزیہ بہن کی تقاریر کا حصہ ہوتے ہیں میرے خیال میں پاکستان کی حالیہ تاریخ کو جن دو خواتین نے متاآثر کیا ہے ان کا نام شہید بے نظیر بھٹو اور فوزیہ قصوری ہے تاریخ کی خوبیاں کریدیے بی بی کے والد کے ساتھ فوزیہ قصوری کے چچا محمود علی قصوری کا ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ دوستانہ تھا اور انہی کی اولاد پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے جدوجہد کرتی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے محترم بی بی شہید اپنے لہو سے ملک خداداد کی تاریخ کے پنوں پر اپنے خون سے سنہرے لفظ تحریر کر گئی ہیں اورادھر محترمہ قصوری اپنی جدوجہد سے نئی تاریخ لکھ رہی ہیں اللہ رب العزت ان کی عمر لمبی کریآمین۔
PTI
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حادثاتی اموات اور سیاسی قتل ناقابل فراموش دکھ چھوڑ گئے ہیں ہماری دعا ہے کہ کسی اور دکھ سے قوم بچی رہے اور پاکستان کی جبین سے سیاہ داغ صاف کرنے والے سیاسی اکابرین ان المیوں سے دوچار نہ ہوں جو لیاقت علی خان ذوالفقار علی بھٹو ، خواجہ رفیق ڈاکٹر نذیر،مولوی شمس الدین اور بہت سے لوگوں کی شکل میں وقع پذیر ہو چکے ہیں۔ حالیہ نئے دکھ مسنگ پرسنز کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔اللہ اس قسم کے حادثات سے سب کو بچائے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی سیاسی زندگی میں ابھرنے لگی تھی،سچی بات تو یہ ہے ٢٠٠٧ میں تحریک انصاف کا رکن بننا لوگوں میں باعث مذاق ہوا کرتا تھا۔ اس سے پہلے تو پھر بڑے جگرے کی بات تھی اور فوزیہ بڑے جگرے والی خاتون تھیں وہ اوائل سے ہی عمران خان کے ساتھ تھیں۔ یقینا وہ عمران خان کا فین کلب تھا جس میں جدوجہد کرنے والے قابل ستائیش ہی نہیں قابل صد مبارک باد بھی ہیں۔
جو ن٢٠٠٧ میں پارٹی کا دفتر اسمبلی لاجز میں عمران خان کی رہائیش گاہ میں ہوتا تھا۔میں نے پارٹی جائین کی تو اس وقت سیفاللہ نیازی ،کرنل یونس اور سردار اظہر طارق اسی دفتر میں ہوتے تھے۔بعد ازیں یہ دفتر جناح سپر کے پاس آ گیا عدلیہ موومنٹ میں پارٹی نے سر اٹھانا شروع کیا اور ایک روز میرا تعارف فوزیہ بہن سے کرایا گیا شہزاد ناقش میڈیا سیکرٹری تھے ۔تحریک انصاف عمران خان ،سیف اللہ نیازی،کرنل یونس،سردار اظہر اور زاہد کاظمی،اکبر ایس بابر،عمر چیمہ کا نام تھی۔اسلام آباد میں ایک اویس خالد ،علی اعوان،جمیل عباسی،اظہر میر اور جناب سلیم گنڈہ پور ہوتے تھے ان کی اہلیہ اور بیٹی انتہائی سر گرم لوگوں میں تھیں احسن منصور بھی تھے ۔معروف قانون دان اویس احمد سیکریٹری انفارمیشن تھے۔مجھے احسن رشید پارٹی میں لائے تھے، اگر یہاں ایڈ میرل جاوید اقبال کا نام نہ لینا مناسب عمل نہ ہو گا۔ مجھے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری دی گئی۔ اپنی ملازمت کے بعد یہ ذمہ داری نبھانے پارٹی دفتر آ جاتا،رفیق عصمت اللہ،ارشد،شعیب دفتر میں ہوتے تھے۔میں نے مختلف چینیلز میں پارٹی عہدے داروں کے لئے وقت لینا شروع کر دیا،ہر چینیل عمران خان سے نیچے بات ہی نہ کرتا تھا
مجھے اچھی طرح یاد ہے برادر مظہر برلاس پنجابی چینیل میں پروگرام کیا کرتے تھے میں فوزیہ بہن کو وہاں لے گیا وہاں جا کر معلوم ہوا بہن تو پنجابی بول ہی نہیں سکتیں طے ہوا سوال پنجابی میں ہو گا اور جواب اردو میں۔یہ ابتداء تھی فوزیہ بہن کی ٹی وی چینلز پر آنے کی۔پھر حالت یہ ہو گئی کہ ان کی ریٹنگ بے شمار بڑے بڑے سیاسی اقابرین کو چھونے لگی۔تحریک انصاف کی نمائیندگی جس خوبصورت انداز میں فوزیہ قصوری نے کی کسی اور دوسرے لیڈر سے نہ ہو سکی ۔گرچہ شیریں مزاری نے اپنا حق ادا کیا مگر ان کی شخصیت میں وہ کشش نہ تھی جو فوزیہ قصوری میں تھی۔ فوزیہ قصوری کی خوبصورتی یہ تھی کہ وہ کسی بھی صورت میں غصے میں نہیں آ تی تھیں شیریں مزاری ان کا مزاج منفرد ان کی صلاھیتیں جدا دنیا کے کسی بھی گوشے میں جائیں ان کے شاگرد ملیں گے پاکستان کے دو قومی نطریے پر ان کی دھبنگ سوچ کے ہم شروع سے مداح ہیں شیریں مزاریاور فوزیہ دو مختلف مزاج ہیں ایک شفیق ماں بہن اور دوسری کڑکڑاتی بجلی مگر دشمنان پاکستان پر لہذہ ان کا تقابل کرنا مناسب نہیں۔ فوزیہ اگر پاکستان کی اسمبلی میں پہنچتی ہیں تو یقین کیجئے مجھے فاطمہ جناح پہنچی دکھائی دیتی ہیں۔فوزیہ تیرے جاں نثار بے شمار