تحریر : محمد شہزاد اسلم راجہ صاحبو گزشتہ ماہ کے آخری عشرہ میں 22 فروری 2015 ء بروز اتوار میرے کالموں کے پہلے مجموعہ ”آوارگی ” کا پروگرام پنجاب کیفے ،پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر قذافی سٹیڈیم لاہور میں منعقد ہوئی جس میں ملک کے معروف شاعرو ادیب اورنقاد جناب زاہد شمسی صاحب نے صدارت کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے ”آوارگی” کی رونمائی کی رسم ادا کی۔ اس تقریب میں بہت سے دوست احباب نے خصوصی طور پر شرکت کی خاص طور پر میرے ادبی استاد اوردوست سخنور انٹر نیشنل کے جنرل سیکرٹری شہزاد عاطرنے خاص طور پر رحیم یار خان سے آکر شرکت کی ۔ اس تقریب کے اختتام پر تو تمام احباب اپنے”آوارگی” ختم کر کے اپنے گھر وں کو چل دیئے مگر میری اور شہزاد عاطر کی اصل ”آوارگی”تو اگلے دن 23 فروری 2015 ء کو شروع ہوئی ۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق میں اور جناب شہزاد عاطر شہرِ لاہور کی ”آوارگی ” کو نکلنے ہی والے تھے کہ شہزاد عاطر کا رابطہ فون پر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے بہت ہی منفرد لب و لہجہ کے پنجابی اردو شاعر ، پنجاب شعری مجموعہ ”دکھ دا سورج ” کے خالق جناب خالد جاوید صاحب سے ہوا۔خالد جاوید صاحب نے شہزاد عاطر کو خواہش ظاہر کی کہ آج ناشتہ ان کے ہمراہ کیا جائے۔شہزاد عاطر کے توسط سے میں جناب خالد جاوید صاحب کو بطور شاعرغائبانہ ہی جانتا تھا۔
شہزاد عاطر نے مجھے حکم صادر کیا کہ اب پہلے خالد جاوید صاحب کے پاس جایا جائے۔ اب یہاں پر مجھے خالد جاوید صاحب کا ایک اور تعارف بطور منیجر محکمہ اوقاف پنجاب شہزاد عاطر نے کروایا۔ اب میرے ذہین میں خالد جاوید صاحب کی تصویر ایک شاعر کے ساتھ ساتھ ایک بارعب آدمی کے طور پر بن گئی۔ شہزاد عاطر اور میں جب خالد جاوید صاحب کے دفتر جو کہ دربار حضرت علی ہجویری کے بیسمنٹ میں واقع ہے پہنچے تو ہمیں فل پرو ٹو کول ملا جس سے میرے ذہن میں بنی خالد جاوید صاحب کی بارعب تصویراور زیادہ بارعب ہو گئی ۔ لیکن جب میں خالدجاوید صاحب سے ملا تو ان کی شخصیت کو درویش صفت اور فقیر منش پایا۔ شہزاد عاطر سے تو ان کا یارانی پرانا تھا لیکن میں پہلی دفعہ ان کے سامنے آیا تھا ۔ پہلی ہی ملاقات کے پہلے لمحے سے آخری لمحے تک اس درویش صفت اور فقیر منش شخصیت خالد جاوید نے مجھے بابائے اردو اشفاق احمد کی بات جو عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کے بارے میں تقریق کرنے کی ہے وہ یاد آگئی۔ بابائے اردو جناب اشفاق احمد کہتے ہیں
”مجھے بہت جستجو تھی کہ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کا فرق جان سکوں ، ایک دن ابا جی نے بتایا کہ ۔۔۔ اشفاق۔۔۔اپنی انا کو کسی ایک شخص کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے اور اپنی انا کو سب کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے” ۔ درویش صفت اور فقیر منش شخصیت خالد جاویدکو میں نے ایسا عشقِ حقیقی میں ڈوبا پایا کہ انہوں نے اپنی انا سب کے سامنے ختم کر رکھی ہے ۔جس در پر وہ اپنی نوکری ، اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں وہاں تو بڑے بڑے بزرگوں نے بھی حاضری دی۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے اس جگہ آکر حاضری دی اور اعتکاف بھی کیا جس کی نشانی آج بھی وہاں موجود ہے ۔ خود حضرت علی ہجویری عشقِ حقیقی میں ڈوبے ہوئے تھے اور اللہ تعا لیٰ کے پسندیدہ نیک بندوں میں اپنا ایک مقام بنایا اور اپنے فیض سے پاس آنے والے سب لوگوں کو مستفید کرتے رہے اور آج بھی کر ہے ہیں حضرت علی ہجویری اپنے چاہنے والوں سے محبت کرتے ہوئے ان کو اپنے قریب لا کر عشقِ حقیقی میں لے جاتے ہیں ۔ حضرت علی ہجویری نے اپنے اس چاہنے والے خالد جاوید کو بھی اپنے پاس اللہ کے حکم سے بلا لیا اور خالد جاوید صاحب کو اپنی خدمت پر معمور کرکے و ہ موقع دیا کہ جو کہ بہت سے لوگ چاہتے ہوئے بھی حاصل نہیں کر پاتے۔
ALLAH
صاحبو ! میں ناچیزگنہگار بہت دفعہ اس در پر فاتحہ کے لئے گیا اور جاتا بھی رہتا ہوں، بہت دفعہ میں نے دیکھا کہ بڑے عہدوں پر فائز اعلیٰ حکام اوربہت سے سجادہ نشین، گدی نشین، اور پیر دیکھے دربار حضرت علی ہجویری پر مرکزِ تجلیات تک گئے ۔ میں ان کو دیکھ کر سوچا کرتا تھا کہ یہ کتنے خوش نصیب ہیں جو مرکزِ تجلیات جا کر فاتحہ کرتے ہیں ، دعا کرتے ہیں ۔ میں سوچاکرتا تھا کہ کبھی میں گنہگار بھی مرکزِ تجلیات تک جائوں اور کسی نیک بندے، کسی اعلیٰ عہدے پر فائز افسر ، کسی پیر فقیر کے ساتھ نتھی ہو کر۔ تو صاحبو ! درویش صفت اور فقیر منش شخصیت خالد جاوید صاحب کے دفتر میں بہت دیر تک ادبی گفتگو ہوتی رہی ، اسی ادبی گفتگو کے دوران ہمارے ملک پاکستان کے معروف نو جوان ثناء خوانِ مصطفیٰ ”علی رضا قادری” بھی ہماری یعنی میری ، شہزاد عاطر اور ہمارے میزبان جناب خالد جاوید صاحب کی دعوت ِ ”آوارگی” پر وہاں آن پہنچے تب میری خواہش دربار حضرت علی ہجویری پر مرکزِ تجلیات پر جا کر فاتحہ کرنے کی پوری ہونے کا وقت ہو گیا اور جناب خالد جاوید صاحب میرے لئے وہ بن گئے جب کے لئے خود خالد جاوید صاحب نے کہا تو ساتھ ہوتا رستہ نکال بھی لیتے تیرے بغیر کہاں راستہ نکلنا تھا
میں اس دن سے پہلے ”اُس” ”تو”کو تلاش کرتا رہا جس کے ساتھ رستہ نکلنا تھا اور آج وہ ”تو” خالد جاوید کی شکل میں سامنے ساتھ آگیا اور دربار حضرت علی ہجویری پر مرکزِ تجلیات پر جانے کا راستہ نکل آیا ۔ خالد جاوید صاحب کے ہمراہ باوضو ہو کر میں نے، شہزاد عاطر اور علی رضا قادری نے مرکزِ تجلیات پر جا کر حاضری دی اور فاتحہ کی اور دعا ئیں بھی کیں اوروہاں پر موجود خادم نے ہمیں وہاں کا تبرک ”چادر ” بھی ہم تینوں کے گلے میں ڈالی ۔ اس کے بعد نمازِ ظہر ادا کی اور پھر سے جناب خالد جاوید صاحب کے دفتر میں محفل ِ ادب سجی اب اس محفل ِ ادب میں ہمارے ساتھ سنیئر شاعر ، استادوں کے استاد شاعر جناب باقی احمد پوری بھی شامل تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ میں اور میرے ادبی استاد اور دوست شہزاد عاطر جو ”آوارگی ” کرنے نکلے تھے، اس میں باقی احمد پوری سے ملاقات کرنا بھی شامل تھی مگر وہ ”آوارگی ”دربار حضرت علی ہجویری سے شروع ہوئی
وہاں پر خالد جاوید صاحب کے دفتر میں محفلِ ادب سے ہوتی ہوئے ”مرکزِ تجلیات ” سے گزر کر پھر سے خا لد جاوید صاحب کے دفتر میں محفلِ ادب پر آکر ٹھہری تب جناب باقی احمد پوری صاحب سے ٹیلیفونک رابطہ ہوااور ان کو ہم نے اپنے موجودہ مقام جس جگہ ہم بیٹھے تھے اور جس شخص کے پاس بیٹھے تھے کے بارے بتایا تو جناب باقی احمد پوری بھی ہماری محفلِ ادب میں شریک ہونے کے لئے وہاں ہی تشریف لے آئے اور پھر کیاتھا ”خوب جمے گا رنگ جب مل بیٹھیں گے پانچ دیوانے یار” اس محفلِ ادب کا اختتام ہوا نمازِ عصر ادا کی ۔ نمازِ عصر سے فارغ ہوئے تو میرے بڑے بھائی ڈاکٹر آصف اسلم بھی وہاں تشریف لے آئے اب یہاں سے اسن دن کی ”آوارگی” ختم ہوئی اور ہم سب خالد جاوید صاحب سے رخصت لے کر گھر آئے ۔ صاحبو ! یہ ”آوارگی ” یہاں ہی ختم نہیں ہوئی یہ ”آوارگی ”اللہ نے چاہا تو چلتی ہی رہے گیاور بہت جلد آپ صاحبان کے لئے ”ایک اور آوارگی” لے کر حاضر ہوں گا۔