بلائو اپنے اللہ کو تم لوگ بڑی عبادت کرتے ہو نا تو آج اپنے اللہ کو آواز دو۔ انڈین آرمی کے کرنل کے یہ طنزیہ جملے سن کر ہم سب کے جسموں میں پارے دوڑنے لگے۔ڈی ڈی ایچ او تلہ گنگ ڈاکٹر عبدالرزاق کے والد محترم 80سالہ صوبیدار میجر(ر) محمد یعقوب نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ وہ 1951ء میں پاک فوج میں بھرتی ہوئے ۔1971ء میں پاک بھارت جنگ میں ضلع سلٹ (بنگال) کے مقام پر پوری بٹالین نے ہتھیار ڈالے اور جنگی قیدی بنا لئے گئے ۔جس کے بعدانڈین آرمی والے ہمیں آگرہ(انڈیا) لے گئے اور وہاں جیل نما کیمپ نمبر 77میں رکھا ۔اس قلعہ نما جیل میں صرف جے او سیز(جونیئر کمیشن آفیسرز) رکھے گئے تھے۔
ہماری تعداد123تھی ۔دسمبر کے یخ بستہ دن تھے ۔ایک روز جیل کے انچارج کرنل نے ہم قیدیوں سے کہا کہ تم لوگ بڑی اللہ کی عبادت کرتے ہوئے آج ذرا میں بھی تو دیکھوں تمہارا اللہ ہے کہ نہیں بلائو اپنے اللہ کو اور قلعہ کی دیواریں گرا دو ۔یہ واقعہ بتاتے ہوئے اس بار بھی انکل محمد یعقوب کے چہرے پر عجیب سی تمتماہٹ با سانی محسوس کر سکتا تھا ۔خود میرے جسم میں بھی سنسناہٹ دوڑنے لگی ۔اشتیاق سے انکل محمد یعقوب کو دیکھنے لگا ۔جنہوں نے بتایا کہ انڈین آرمی کے کرنل کی یہ بات سن کر ہم سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ اسی اثناء میں ہمارے ایک ساتھی قیدی حافظ قرآن غلام محمد جن کا تعلق تلہ گنگ ہی کے گائوں بڈھیال سے تھا۔
جوش سے ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا اور قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دی ۔ہم سب ہمہ تن گوش ہو گئے آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔ وقت دھیرے دھیرے سرک رہا تھا۔ہمارے دل کی ڈھرکنیں تیز تر ہو رہیں تھیں ۔حافظ غلام محمد نے جو تلاوت شروع کی تو ساری رات ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر قرآن مجید پڑھتا رہا ۔اور پھر بارش شروع ہو گئی ایسی طوفانی بارش پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔بارش ہو تی رہی اور پھر میرے اللہ نے دیکھا دیا ۔کفار کو دیکھا دیا کہ کہ وہ ہے وہ اپنے ماننے والوں کا مان کبھی نہیں توڑتا ۔قلعہ کی شہر کی جانب والی دیوار گر گئی۔غلام محمد کی تلاوت جاری تھی ۔دیوار گرتی دیکھ کر انڈین آرمی میں کھلبلی مچ گئی۔
Weapons
اسلحہ تان لیا گیا ۔ہنگامی طور پر مزید ایک بریگیڈ فوج طلب کی گئی ۔قیدیوں کی نگرانی بھی مزید سخت کر دی گئی ۔دیوار کی مرمت کرائی گئی ۔حالات قدرے پر سکون ہوئے تو اُسی کرنل کے سامنے فخر سے سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور کہا کہ اب بتائو ہمارے اللہ کا وجود ثابت ہو چکا ہے ۔ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔انڈین آرمی کا وہ کرنل شرمندہ ہو گیا اور کھسیانی سے مسکراہت کے ساتھ آنکھیں کتراتا ہوا وہاں سے کھسک گیا ۔ پھر ایک روز باہم صلاح و مشورہ ہو کرجے او سیزنے جیل سے سرنگ کھودنا شروع کر دی ۔اس سرنگ کی لمبائی قریبا ایک میل سے زیادہ تھی ۔کامیابی کے قریب تھے کہ ہمارے ہی ایک ساتھی نے راز فاش کر دیا۔
جس کے بعد سرنگ بند کر دی گئی ۔اس واقعہ کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی جیل دورہ پر آئیں ۔جیل کے انچارج کرنل کو برخاست کر دیا گیا ۔اقوام متحدہ کی ٹیم بھی آئی ۔جنہوں نے بھارتی حکام کو باور کرایا کہ جنگی قیدیوں کو اپنی رہائی کیلئے ہر قسم کے اقدامات اُٹھانے کا حق حاصل ہے تم لوگ کا کام ہے اِن کی حفاظت کرنا ۔خیربعد میں تمام 123جے او سیز قیدیوں کو الگ الگ بند کر دیا گیا ۔پھر دشمن ہمارا کھانا پینا بند کر کے ہمیں آزمانے لگے ۔انکل محمد یعقوب نے بتایا کہ اس دوران ہی ایک انڈین حوالدار جے رام سے میری کسی بات پر لڑائی ہو گئی ۔میں نے اُس کی خاصی چھترول کر دی۔
جس پر مجھے ایک سکھ کمانڈر نے بلوایا اور لڑائی کی وجہ پوچھی ۔وہ سکھ کمانڈر باتوں باتوں میں مجھ سے پاکستان میں میری رہائش کا پوچھنے لگا تو میں نے کہا کہ تم کیوں پوچھ رہے ہو ۔اُس نے کہا کہ میں پاکستان میں اگر تم سے ملنا چاہوں تو کیسے ملوں ۔میں اُس کو جواب دیا کہ تم جی ایچ کیو کے ذریعے مجھے مل سکتے ہو ۔میرے اصرار پر کہ تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہو تو اُس نے بتا یا کہ وہ دھرابی کا رہنے والا تھا ۔اور میرا نا نا تلہ گنگ میں لوہے کی دکان کرتا تھا ۔شائد اُس کو پتہ چل گیا تھا کہ میں دھرابی کے نزدیک ہی رہتا تھا۔
میں نے اُس کی کسی بات میں دلچسپی نہ لی ۔بہر حال اُس نے انڈین حوالدار کی پٹا ئی کرنے پر پہلے مجھے شوٹ کرنے کی دھمکی دی پھر مجھے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا جہاں میرے پائوں تک جلائے گئے ۔ جیل میں 19ماہ کی قید کے بعد رہائی ہوئی ایک ٹرین کے واہگہ تک پہنچے اور پاک سرزمین پر پہنچتے ہی سجدے میں گر گئے ۔انکل یعقوب کی داستان ختم ہوچکی تھی لیکن میرے دل و دماغ میں وہ جملے ابھی تک گونج رہے تھے بلائو نہ اپنے اللہ کو تم لوگ بڑی عبادت کرتے ہو نا ۔ایک لہذا سے اب بھی عالم کفار ہم سے یہی کہہ رہا ہے لیکن شاید ہمارے پاس حافظ غلام محمد نہیں ہے۔
Nazar Hussain Chaudhry
تحریر :نذر حسین چودھری NIC 37203-3154306-9 chnazar@gmail.com