اگلے پانچ عشروں کے اندر اندر پاکستان کا سب سے بڑا بندرگاہی شہر کراچی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بحیرہٴ عرب میں ڈوب کر صفحہٴ ہستی سے غائب بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
ڈی پی اے نے اسلام آباد سے اپنے ایک جائزے میں جریدے ایکسپریس ٹریبیون میں چھپنے والی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سمندر میں پانی کی مسلسل بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث یہ خطرہ موجود ہے کہ سن 2060ء تک دو کروڑ سے زیادہ کی آبادی والا کراچی ہی نہیں بلکہ صوبہٴ سندھ کے کچھ دیگر شہر بھی زیرِ آب آ جائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ ملک کے سمندر سے متعلقہ علوم کے چوٹی کے ماہرین نے ایک روز قبل سینیٹ کی کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ان خطرات سے آگاہ کیا اور آنے والے عشروں میں ملک کے شمال اور جنوب میں درجہٴ حرارت میں تین تا پانچ ڈگری اضافے کے امکانات کے پیشِ نظر فوری طور پر اور جنگی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
ان ماہرین میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے سربراہ آصف انعام بھی شامل ہیں، جنہوں نے بتایا ہے کہ ’کراچی کے علاقے ملیر کے کئی حصے ابھی سے زیرِ آب آ چکے ہیں جبکہ سندھ میں ٹھٹہ اور بدین کے اضلاع بھی سن 2050ء تک غرق ہو چکے ہوں گے‘۔
جریدے ایکسپریس ٹریبیون نے آصف انعام کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ ’گزشتہ پینتیس برسوں کے دوران سمندری پانی دو کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ دو لاکھ ایکڑ زمین بھی نگل چکا ہے‘۔
ماحولیات کے ایک ماہر قمر زمان چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حیثیت حد سے زیادہ صنعتی سرگرمی کے حامل دو بڑے ممالک چین اور بھارت کے درمیان ایک سینڈ وِچ کی سی ہے اور یہ کہ زمینی درجہٴ حرارت میں ہونے والے اضافے کے دوران پاکستان کو ایک جانب شمال میں ہمالیہ کے تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشئرز کے مسئلے کا سامنا ہے تو دوسری جانب جنوب میں سمندری پانی کی مسلسل بلند ہوئی سطح سے خطرہ ہے۔
آصف انعام نے مزید کہا کہ اگر حکومتِ پاکستان نے فوری طور پر اقدامات نہ کیے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ حکمتِ عملی نہ اپنائی تو آنے والے برسوں میں پاکستان کے لیے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے 1989ء سے پاکستان کو اُن ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، جو سمندروں میں پانی کی بلند ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔