جرمنی میں الیکٹریکل انجینیئرز نے ایک سہ جہتی پراسیسنگ سسٹم تیار کیا ہے جو ڈیمنشیا یا دماغی کمزوری کے شکار افراد کے روزانہ معاملات کی نگرانی کرتا ہے اور انہیں وقت پر دوائیں لینے سمیت مختلف چیزیں یاد دلاتا ہے۔
یہ نظام ایسے مریضوں یا افراد کی صورتحال کے بارے میں ان کے رشتہ داروں یا ان لوگوں کو معلومات فراہم کرتا رہتا ہے جو ان کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اس نظام کو OPDEMIVA کا نام دیا گیا ہے جو دراصل مخفف ہے جرمن زبان میں ’رویوں کے ذہین انداز سے تجزیے کے ذریعے ڈیمنشیا کے مریضوں کی دیکھ بھال کا نظام‘ کا۔ یہ نظام دراصل ذہنی کمزوری کے شکار افراد کو حتی الوسع اس قابل بناتا ہے کہ وہ دیگر لوگوں کی مدد کے بغیر گھر میں اکیلے رہ سکتے ہیں اور اپنے معمولات انجام دے سکتے ہیں۔
اسمارٹ سینسرز کے نیٹ ورک پر مبنی یہ نظام جرمنی کی کَیمنِٹس Chemnitz یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے شعبہ ڈیجیٹل سگنل پراسیسنگ اینڈ سرکٹ ٹیکنالوجی کے انجینیئرز نے تیار کیا ہے۔ یہ نظام مریض کی پوزیشن، اس کے جسم کی حرکات اور مختلف چیزوں کے ساتھ ان کے انٹرایکشن یا تعامل کے بارے میں معلومات حاصل کرتا
ڈیمنشیا کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے اب تک جتنے بھی نظام تیار کیے گئے ہیں ان میں ویڈیو کیمروں کا استعمال لازمی طور پر ہوتا ہے۔ چونکہ یہ کیمرے کسی کے گھر کے اندر کی تصاویر باہر موجود کسی اسٹیشن تک بھیجتے رہتے ہیں، اس لیے یہ پرائیویسی کی خلاف ورزی کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم جرمن ماہرین کے تیار کردہ نظام میں کیمروں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
Leadership with education
یہ نظام تیار کرنے والوں میں شریک ایک خاتون انجینیئر یُولیا رِشٹر Julia Richter کے مطابق اس نظام کے ذریعے حاصل ہونے والا ڈیٹا دراصل گھر سے باہر بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ مثلاﹰ مریض اگر باتھ روم میں داخل ہوتا ہے تو اسے آواز کے ذریعے یاد دلایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے دانت صاف کر لے یا اگر وہ کافی دیر تک بیٹھا ٹیلی وژن دیکھتا رہتا ہے تو اسے یاد دلایا جا سکتا ہے کہ وہ اٹھ کر چہل قدمی کر لے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے رِشٹر کا کہنا تھا کہ اس نظام کا مقصد ڈیمنشیا یا دماغ کی کمزوری کے شکار مریضوں کے روزانہ کے معمولات پر نظر رکھنا اور ان کا جائزہ لینا ہے۔ رشٹر کے مطابق مریضوں سے متعلق ڈیٹا اسمارٹ فون کے ذریعے ان کے رشتہ داروں یا ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو بھی بھیجا جا سکتا ہے: ’’اگر مریض اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ تصاویر کہیں بھیجی جائیں، تو ایسا بھی ممکن ہے۔‘‘
رشٹر مزید بتاتی ہیں، ’’سینسر اس بارے میں بھی معلومات فراہم کرتے ہیں کہ آیا مریض نے مناسب مقدار میں پانی پیا ہے، مناسب حد تک حرکت میں رہا ہے یا پھر اس نے اپنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا ہے یا نہیں۔‘‘
دنیا بھر میں قریب 44 ملین افراد ڈیمنشیا کے مریض ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ جرمنی کی الزائمر سوسائٹی DAlzG کے اندازوں کے مطابق جرمنی میں سال 2050ء تک ڈیمنشیا کے مریضوں کی تعداد تین ملین تک پہنچ جائے گی کیونکہ ملکی آبادی میں معمر افراد کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈیمنشیا کے مرض کا خطرہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔