تحریر: ایم ابوبکر بلوچ چوک اعظم (لیہ) ایک وقت تھا صحافت کے شعبے کو معاشرے میں نمایاں مقام حاصل تھا جسکی وجہ صحافت میں میرٹ، انصاف، احساس انسانیت، ایمانداری اور خدمت کا جذبہ تھا لیکن افسوس آج سب کچھ اسکے برعکس ہے۔بدلتے حالات اور ملکی صورتحال نے انسان کو پیسے کی لالچ میں اندھا کر دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ انسان کا پیٹ صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے مظلوم اور ظالم کا فرق ختم ہو چکا ہے۔
مقامی تو مقامی حتیٰ کہ قومی سطح کے اخبارات میں صحافیوں کی سیلیکشن کرتے وقت میرٹ اور تعلیم کی بجائے پیسے کو اہمیت دی جاتی ہے چند سال قبل ہر شہر میں قومی اخبارات کے پاس ایماندار،تعلیم یافتہ اور باکردار صحافی ہوتے تھے اور کسی قومی اخبار میں نمائندگی حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام سمجھا جاتا تھا لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ حالات حاضرہ میں صحافیوں کی بولی لگتی ہے کوئی بھی مالدارصاحب حیثیت چاہے وہ ظالم ہو یا جاگیردار،چوہدری ہو یا وڈیرا ، سیاستدان ہو یا قانون دان ، آسانی سے کسی صحافی کو خرید سکتا ہے ۔ آخر کیوں؟؟؟آجکل صحافت میں تعلیم یافتہ ، ایماندار اور باکردار لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔کوئی بھی بدنام زمانہ ،کرپٹ انسان چند ہزار روپوں کے عوض کسی بھی لوکل یا قومی سطح کے اخبار کی نمائندگی حاصل کر سکتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔
چند سکوں میں بکتا ہے یہاں انسان کا ضمیر کون کہتا ہے میرے ملک میں مہنگائی بہت ہے۔
انتہائی معذرت کے ساتھ کہ موجودہ حالات میں سیاستدانوں اور ظالموں نے لوکل اخباری مالکان اور قومی اخبارات کے نمائندوں کو خرید رکھا ہے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں پولیس چوروں اور ڈاکوئو ں کی سرپرستی کرتی ہے ۔ کسی ممبر صوبائی اسمبلی ، ممبر قومی اسمبلی کو اس بات کا علم تک نہیں ہوتا کہ اسکی حمایت میں اخبارات میں شائع کی خبر یا اسکی طرف سے جاری کئے گئے بیان کیا لکھا ہوا ہے؟کیونکہ یہ سب محض فرضی ہوتا ہے ۔ آپکو اپنی گلی،محلے اور شہر میں ہر تیسرا آدمی صحافی ملے گا لیکن اگر کسی کی جانچ پڑتال کی جائے تو کوئی پیشے کے لحاظ سے نائی ہوگا،کوئی موچی ہوگا تو کوئی قصائی اور اگر انہی حضرات میں سے کسی صحافی کی شخصیت کو پرکھا جائے تو بدنام زمانہ اور بدکردار ہونگے جوکہ بظاہر دیکھنے میں سفید پوش اور معزز شہری ہونگے لیکن کسی کو کیا معلوم؟؟کہ درحقیقت انہوں نے اپنے کردار پر لگے بدنما داغ چھپانے کیلئے صحافت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے جیساکہ گدھے کو شیر کی کھال پہنا دی جائے۔ دراصل یہی لوگ پولیس ٹائوٹ ،چٹی دلالی کرنے والے اور فراڈیئے ہونگے اور اسی طرح اگر صحافتی اعتبار سے انکو آزمایا جائے تو معمولی خبر تک نہ بنانا آتی ہو گی۔ سچ تو یہ ہے کہ انہی گندے انڈوں کی وجہ سے صحافت کا معزز شعبہ بد نام ہو چکا ہے۔
Journalist
آج کی عوام میں شعور آچکا ہے اور ایسے صحافیوں کو جانتی پہچانتی ہے لیکن انکے شر سے محفوظ رہنے کیلئے چپ سادھے ہوئے ہے اگر یہ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انہی کرپٹ ،بکائو صحافیوں کی وجہ سے باکردار صحافیوں کیلئے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔کچھ دن پہلے راقم کوایک غریب رکشہ ڈرائیور ملا جو انتہائی سیدھا سادہ انسان تھا اور دیہاڑی پہ رکشہ چلا کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا تھا۔ رکشہ ڈرایئور نے مجھے(راقم کو) کہا کہ بھائی جان آپ سے اک مشورہ کرنا ہے ؟جس پر میں نے کہا جی آپ بولو۔رکشہ ڈرایئور نے کہا کہ مجھے ایک صحافی ملا جسکا نام فلاں ہے اور اس نے مجھے آفر کی ہے کہ اگرمیں اسے دو ہزار روپے ایڈوانس دوں تو وہ مجھے لوکل اخبار کی نمائندگی دلوائے گا اخبار کی نمائندگی ملنے پر دوہزار روپے مزیداسے دینے پر متعلقہ اخبار میں رکشہ ڈرایئور کے نام اور تصویر کے ساتھ اشتہار شائع ہو گااور پھر اخبار کی طرف سے پریس کارڈ بھی ملے گا۔
آخر میں اس صحافی نے رکشہ ڈرایئور کو یہ بھی کہا کہ اس طر ح تمہاری زندگی بدل جائے گی اور اس طرح تم اس روز روز کی مشقت کی بجائے آرام سے گھر بیٹھے روپے کما سکو گے۔ یہاں پہنچنے پہ راقم نے رکشہ ڈرایئور سے پوچھا کہ پھر آپ نے اس صحافی کو کیا جواب دیا؟جس رکشہ ڈرایئور نے کہا کہ میں اس وقت یہ سوچنے لگ گیا کہ مجھے تو اپنا نام تک اردو میںنہیں لکھنا آتاتو آخر میں چار ہزار روپے دے کے کیسے صحافی بن سکتا ہوں اور اس صحافی کو یہ جواب دیا کہ آپکو سوچ کے بتائوں گا۔راقم رکشہ ڈرایئور کی یہ کہانی سن کے ہنس پڑا اور اسے مشورہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ میرے بھائی یہ سب فراڈ ،جھوٹ ہے آپ اپنی حق حلال کی محنت مزدوری کرو۔ آخر معاشرے میں ایسے واقعات کا سدباب کون کریگا؟؟ اسکے ساتھ ساتھ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اخباری مالکان نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ جب دل چاہے کسی اخباری نمائندے کو اپنے اخبار میں جگہ عنایت فرما دیں اور جب دل چاہے اخبار میں اسکا اعلان لاتعلقی کا اشتہار لگا کے اسے فارغ کر دیں ۔آپکو تقریباً روزانہ مختلف اخباروں میں اعلان نمائندگی یا اعلان لاتعلقی کا اشتہا ر ضرور ملے گا حقیقت تو یہ ہے کہ محض اسی وجہ سے راقم نے آج تک کسی اخبار کی نمائندگی حاصل نہیں کی کیونکہ اصل چیز انسان کا کردار ہوتا ہے آپ کامیاب صحافیوں کی لسٹ اٹھا کے دیکھ لیںتوآپکوپتہ چلے گا کہ انہیں پہلے اخبار سے ہی عزت ،شہرت ملی ہوگی اور ایسے لوگ برسوںایک ہی روزنامے کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے بڑے اور بزرگ روزانہ صبح سویرے اخبار کا انتظار کرتے تھے اور حالات حاضرہ سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے اخبار ضرور پڑھتے تھے لیکن آج صحافت کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ ہمارے بزرگ اخبار پڑھنا گوارا نہیں کرتے اور بعض حضرات آجکل اخبار پڑھنے کو اپنے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔
آپک سب کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان تمام حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ آپکو یہ بھی ماننا ہو گا کہ آجکل انہی وجوہات کی بنا پہ صحافی ناکام ہو چکے ہیں۔ صحافی تو معاشرے کا ضمیر ہوتے ہیں کیونکہ صحافت ایک پاکیزہ جذبہ اور خدمت خلق ہے انسانیت کی خدمت سے خدا ملتا ہے۔
میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان غیور صحافیوں کو جو آجکل کے گئے گزرے دور میں بھی صحافت کو خدمت سمجھ کر احساس ذمہ داری سے کرتے ہیں یقینا انہی باکردار لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں صحافت کا بھرم باقی ہے اور تا قیامت باقی رہے گا ۔حالات حاضرہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر صحافی اپنی اس ذمہ داری کا حق ادا کرے اور صحافت کو خدمت سمجھ کے کرے تاکہ صحافت کی جڑیں مضبوط ہوں اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہوجس سے انصاف کی بالا دستی ہوگی اور ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پہ گامزن ہو گا اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین