تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا چین کے صدر ژی چن پنگ 23 مارچ یوم پاکستان کی تقریب میں بطورمہمان خصوصی شرکت کریں گئے۔ یہ خبر جہاں پاکستانی عوام کے لئے باعث اعزاز ہے وہاں چینی عوام کے لئے بھی کیسی فخر سے کم نہیں ۔چین کا شمار باوفا ملکوں میں ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے ۔جب بھی پاکستان پر خطرات کے بادل منڈلائے ۔چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ بھی دیا۔ اور پاکستانی موقف کی بھر پور حمایت بھی کئی۔چین ایک پر امن ملک ہے ۔ اور اپنے امن پسند پڑوسی اسلامی جموریہ پاکستان کو کسی بھی مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑا۔یہ ہی وجہ ہے۔اب دینا کے ممالک پاک چین دوستی کی مثالیں دیتے ہیں جیسا کبھی مقامی لوگ عشق و محبت میںلیلیٰ مجنوں، سسی پنوں، ہیر رانجھا کی مثالیں دیتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح ملکی سطح پر چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے اونچی سمندروں سے گہری اور چٹانوں سے مضبوط ہے۔ بھارت جو ازل سے ہی پاکستان کا کھلا دشمن ہے ۔جس کو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔ جو پاکستان میں لسانی ، صوبائی، رنگ و نسل۔ذات و پات،امیر غریب،اور فرقہ واریت جیسے ناسوروں کو پاکستانی قوم کی رگوں میں اتار کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔یہ بھارت اور بھارت کی ایجنسیوں کی ہی کارستانی ہے جو بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے۔
پاکستان میں جو بھی دہشت گردی کی کاروائیاں ہوتی ہیں وہ سب بھارتی ایجنسی را کی مرہومنت ہوتی ہیں۔ تخریبکاروں کو ٹرینگ اسلحہ اور بھاری معاوضہ انڈیا سرکار اپنی جیب سے اد کرتی ہے۔ بھارت ایک ہی جنوں ہے کشمیر ،آسام کی طرح پاکستان کو بھی غلام بنا کر پورے خطے میں میرا کردار ہو۔ بھارتی حکمرانوں نے پہلے دن سے ہی اپنے اند پاکستان اور مسلم کا بغض، حسد ،کینہ اور جلن انڈیا کو بے چین کئے ہوئے ہیں ۔اسلام نے چودہ سو سال سے قبل ہی کہ دیا تھا۔ حسد، بغض، اور کینہ پروری انسان کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیتیں ہیں۔ بھارت فرد واحد کا نام نہیں۔بلکہ ایک ملک ہے۔ اس لئے پور ملک بھارت اندر سے صرف کھوکھلہ ہی نہیں ہوا بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وہ وقت اب دور نہیں جب بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے دنیا دیکھے گئی۔دنیا کی نظر میں جموریت کا چیمپین بھارت بنا ہوا ہے۔ مگر یہ قانون فطرت ہے ہم سچ دبا تو سکتے ہیں مگر ختم نہیں کر سکتے۔
Narendra Modi
امریکن صدر باراک اوباما جو گزشتہ دنوں یوم بھارت کے موقع پر مہمان خصوصی کی حثیت سے تشریف لائے تھے۔ بھارتی حکومت نے اپنے مہمان کو غیر معمولی سیکورٹی فراہم کی گئی تھی۔ مہمان خصوصی کے دورے پر ائرپورٹ پر جہازوں کی آمدو رفت بند تھی۔اپنے آقا امریکی صدر کی خشنودی حاصل کرنے کئے بھارتی وزیر اعظم اپنے وزیروں کے ہمرا ائرپورٹ گرم جوشی سے اپنے مہمان کا استقبال کیا۔ اکیس توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔امریکہ نے بھارت کو اپنی حمایت ۔توانائی۔سول فوجی امداد ۔ ہر قسم کی ٹیکنالوجی معشیت۔ صحت۔ تعلیم۔ غرض زندگی کے تمام شعبہ جات میں راہنمائی او حمایت کا یقین دلایا ہے انہوں نے اتفاق کیا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے مل کر چلنے سے ہی دینا میں امن اور ہماری (امریکہ اور بھارت ) کی سلامتی اور خوشحالیکی ضمانت مضمر ہے۔امریکی صدر نے کہا پاکستان میں چھپے دہشت گرد اور دہشت گردوں کی کمین گائیں نا قابل برداشت ہے۔بھارت نے امریکی صنعت کو اجمیرشریف،وشا کانیٹم،اندھراپردیش، اور آلہ آباد اتر پردیش میں امریکی ڈالروں سے سمارٹ سٹی بنانے کی امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے بنیادی ڈھانچوں میں اتفاق کے تحت یو ایس ایڈ کو خوش آئیندقرار یا ہے۔
بھارت کے 500 شہروں کو نشنل آربن ڈویلپمنٹ مشن کے تحت ، کلین انڈیا ،حفظان صحت،مصنوعات سازی،اقتصادی اور مالیاتی ترقی حصہ داری کے تحت امریکہ مالی اور ہر ممکن تعاون کرے گا۔۔۔ کیونکہ امریکی صدر کئی بار کہ چکے ہیں انڈیا کی ترقی امریکہ کی ترقی ہے۔ دوسرے لفظوں میں انڈیا امریکن کالونی کا درجہ حاصل کر کے علاقہ میں تھانداری حاصل کرنا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے 2001ء دو طرفہ تجارت بڑھ کر 100بلین ڈالرز تک پہنچ گئی ہے۔تجارت میں مزید پانچ گناہ اظافہ کرنے کے لئے۔امریکی صدر نے ضروری اقدام میں آسانی پیدا کرنے کی یقین دہانی کروادی ہے۔
جھوٹ اور سچ ایک ساتھ صدیاں بھی چلتے رہیں تب بھی ایک دوسرے میں ضم نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح قانون فطرت ہے۔جب ظلم حد سے بھڑتا ہے تو فطرتی طور پر مٹ جاتا ہے۔ اللہ آسام۔ کشمیر کے شہیدوں کے لہو کے بدلے قابض بھارتی درندوں سے جتنی بھی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں ان کو بھارتی تسلط سے آزاد تو ضرور کروائے گا مگر انڈیا کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے پہلے انڈین شیطانوں کے چہروں سے انسانیت اور جموریت کا خول اتار کر دنیا اور آخرت میں انکو زلیل و خوار کرے گا دنیا کی سپر پاور امریکہ کا صدر باراک او باماجب سب کے سامنے بھارتیوںکے وزیر اعظم نریندرمودی کو کہا چیمپین بننے کیلئے لوگوں کو شخصی ۔ مہذبی اور انسانی حقوق کی آزادی دینا ہوگئی۔۔بھارت کے لئے نریندرمودی کو یہ مشورہ ایسے ہی ہے جیسے نریندرمودی کو امریکی صدر نے تھپڑ مارا ہو۔۔۔