تحریر ۔ شہزاد حسین بھٹی ہم مسلمان ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔اسلام نے جس قدر زور علم اور حصول علم پر دیا ہے کسی اور بات پر اتنا نہیں دیا کیونکہ علم سے انسان ظلمت سے نور کی طرف آتا ہے اس میں تدبر اور سوچ پیدا ہوتی ہے اپنی ذات سے آگہی ملتی ہے اور وہ شعور ذات ابھرتاہے جس سے عرفان خدا وندی نصیب ہوتا ہے ۔گویا علم وہ نور ہے جس سے وہ ذات و کائنات دونوں روشن ہو جاتے ہیںاور یہی وہ عظیم نعمت ہے جس کے سامنے فرشتے بھی جھکتے ہیںاسی علمی عظمت نے آوم علیہ سلام کو ملائک بنایا ہے۔
افراد سے قومیںبنتی ہیں جس قوم کے افراد باشعور ہوں وہ قوم بھی اقوام عالم میں معززسمجھی جاتی ہے گھر کی چار دیواری میں ایک بچہ حیوان ہوتا ہے یہ مکتب کی چار دیواری اور استاد کا فیض ہے جس سے یہی بچہ صحیح معنوں میں انسان بلکہ باخدا انسان بن جاتاہے گویا تعلیم و تربیت یہی سے افراد میں سیرت و کردار کی عظمتیں اُبھرتی ہیں۔
ہر قوم کی سوچ کا اپنا ڈھب ہوتا ہے اپنے نظریات ہوتے ہیں اپنا فکر ہوتا ہے اپنی مذہبی قدریں ہوتی ہیں۔اسی اند از فکر و نظر کے مطابق اس قوم کا معیار تعلیم اور انداز تدریس ہوناچاہیے گویا تعلیمی نظام کو اس انداز سے مرتب کر نا چاہیے کہ اس سے کسی قوم کے مخصوص نظریات پھل پھول سکیں ۔اس کی دینی فکر کا تخفظ اور سوچ میں نکھارپیدا ہو سکے ہم اس ملک کے لیئے ایسا نظام تعلیم بنائیں جو اس وطن عزیز کے اساسی نظریے سے مطابقت رکھتا ہو ۔
انگریز نے اس سر زمین پر سینکڑوں سال حکومت کی ہے وہ یہاں سے نہیں جانا چاہتا تھا ۔اس لیئے اس نے اس نئے نظام تعلیم کے ذریعے یہاں کے رہنے والوں پر غلامی کے جراثیم پختہ کرنے شروع کر دیئے تھے اس نے تعلیم و تدریس کا ایسا خاکہ تیار کیا جس کے باعث قومی جذبہ اور عقابی روح یہاں کے نوجوانوں میں بیدار نہ ہو سکے وہ چھوٹی چھوٹی ادنیٰ ملازمتوں ہی کو اپنا اصل مقصود بنا لیں ۔خاک راہ ہی میں رزق ڈھونڈتے رہیں اور آسمان کی نیلگوں وسعتوں اور رفعتوں سے آشنا نہ ہو سکیں۔ہم ایک عرصہ تک انگریز کے نظام تعلیم کے تحت چلتے رہے اور اس کے بعد نت نئے تجربات نے روز بروز ہمارے خوابوں کو پریشان کیئے رکھا اور ابھی تک تعلیم کا کوئی بھی رُخ متعین نہیں ہو سکا ۔
ہمارے نظام تعلیم کو اس طرح سنوارنا چاہیئے کہ نئی پود کے دل میں اپنے اسلاف کی عظمت پختہ تر ہو۔اس کے دل سے غلامی کے اثرات ختم ہوں اس کی فکر میں ایک انقلاب آئے اور اسکی نگاہوں میں آفاق گیری کے ولولے ابھریں اس کے سامنے تعلیم کا ایک عظیم مقصد ہو ۔وہ صرف ڈگری لیکر ملازمت کی تلاش میں در بدرر سوا نہ ہوبلکہ ایک ایسی قوم بن کر اُبھرے جو ستاروں کی صف میں ستاروں کی طرح دمک کر چاند کے رو بروچاند کی طرح چمک کر اور پھولوں کی صف میں کلیوں کی چٹک کر اپنا مقام بنا سکے جو ہمیشہ پر امید رہے جس کے سامنے ایک واضح منزل اور ایک روشن مستقبل ہو اور ایسی نسل ،تعلیمی نظام ہی کے تحت پیدا ہو سکتی ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ اگر منزل متعین نہ ہو تو ہر سفر بیگار اور بیکار ہو جایا کرتا ہے۔
Private School
جس طرح کہ آج ہماری نوجوان نسل بھٹک رہی ہے اور ہمارے ہاں یکساں نصاب تعلیم کے فقدان نے کئی طبقات پیدا کر دئیے ہیں ۔رہی سہی کسر ہمارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے نکال دی ہے اور تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔آج کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم سے زیادہ تعلیمی ادارے کی بلڈنگ کی نمود و نمائش اور تشہیر پر بھاری رقوم خرچ کر کے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے پر زیادہ زور دے رہے ہیں اور کہیں تو ہم نے اپنے نوجوانوں کا مستقبل میڑک پاس ٹیچرز کے حوالے کر دیا ہے جو دو تین ہزار کے عوض پرائیویٹ سکول مالکان نے رکھی ہوئی ہیںاور کوئی کوالیفائیڈ استا دمیسر نہیں۔
سرکاری اداروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ تو موجود ہیں لیکن ان کی کارکردگی غیر اطمینان بخش نظر آتی ہے جہاں تک نظام تعلیم کا تعلق ہے تو ہر ادارے کا اپنا نصاب تعلیم ہے۔ حکومتی سطح پر ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ ہمارے معاشرے پر آنے والے ادوار میں منفی اثرات مرتب کر یں گی۔ تعلیم کا مقصد محض کتابیں رٹا کر امتحان پاس کرانا نہیں بلکہ نسل نوع کی تربیت اس انداز سے کرنا مقصود ہے کہ اس کے دل میں اسلام سے لگاؤاور پیغمبر اسلام ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت پیدا ہو ،ایک ولولہ ہو جو اس کے جگر میں آگ لگا دے۔
ایک جذبہ ہو جس کے تحت منزلیں اس کے قدم چومیں،ایک عشق ہو جو آگ کو گلزار بناتا چلا جائے اور ایک نور ہو جس سے زندگی کی ساری ظلمتیں کافور ہو جائیںجب تک علم خود سراپا عمل اور صاحب کردار نہیں ہو گا نظام تعلیم کا کوئی سا خوبصورت خاکہ بھی رنگ روپ نہیں لا سکے گا ۔ہمارے ارباب اختیار کو چاہیئے وہ صرف بیانات نہیں بلکہ عملی طور پر نظام تعلیم کے لیئے اقدامات کریں تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں۔