تحریر : احسان الحق اظہر زبردست جوڑ توڑ کے بعد آخر کار سینیٹ کے الیکشن ہو ہی گئے لیکن جوڑ توڑ ابھی ختم نہیں ہوا، اب نظریں ہیں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی نشستوں پر۔مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں میں سخت مقابلے کا امکان ہے اور دونوں پارٹیاں پر امید ہیں کہ وہ پاکستان کا دوسرا بڑا آئینی منصب (چیئرمین سینٹ) حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ چیئرمین کے لئے کوئی راجہ ظفر الحق اور اسحاق ڈار کا نام لے رہا ہے تو کوئی سمجھتا ہے رحمان ملک اور فاروق نائیک بھی سامنے آسکتے ہیں۔
حتمی نتائج کے مطابق فی الحال سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں بنتی ہے کی پیپلزپارٹی کی 27 ، ن لیگ کی 26، ایم کیو ایم کی 8اور تحریک انصاف کی6 نشستیں ہوگئیں۔ تاہم ابھی فاٹا میں سینیٹ کے الیکشن ہونا باقی ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ نئے چیئرمین کی تقرری کا فیصلہ دیگر جماعتوں کی مشاورت سے ہوگا۔ حکمران جماعت ن لیگ کیلئے سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرنے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ورلڈکپ میں کوارٹر فائنلز تک پہنچنے کے ، یعنی ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ، ایک آدھا حریف قابو آ بھی سکتا ہے جبکہ ایک آدھا حریف ٹف ٹائم بھی دے سکتا ہے۔
سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں واضح کامیابی کے باوجود ن لیگ کیلئے سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا ۔ 104 کے ایوان میں سادہ اکثریت کیلئے 53 کے ہندسیکو چھونا جان جوکھوں کا کام بن گیا ہے ، ن لیگ کے موجودہ اتحاد و الحاق پر نظر ڈالیں تو ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن کچھ اس طرح بنتی ہے۔ن لیگ کی اپنی 26 نشستیں ہیں ، اس کے اتحادی جے یو آئی ف کی 5 ، پی کے میپ کی 3اور نیشنل پارٹی کی 3 نشستیں ملائیں تو یہ تعداد 37 بنتی ہے ، اب اگر اس میںسینیٹ کے موجودہ 6 آزاداراکین بھی ملادیں تو یہ تعداد 43 بن جائے گی ، چلیں اس میں فاٹا کے ہونے والے انتخابات کے 4 فاتحین بھی ڈال دیں ، تب بھی یہ تعداد 47 بنتی ہے ، اب اس میں بلوچستان کی غیر جانبدار جماعتوں بی این پی عوامی اور بی این پی مینگل مینگل کی 3 نشستیں ملائیں تو یہ تعداد 50 بنتی ہے، چلیں ایسا کریں اس میں جماعت اسلامی کی بھی ایک نشست ڈال دیں تو یہ 51 ہوگئی ، لیکن سادہ اکثریت کے لیے 2 اور سیٹ چاہیے ، اس کے لیے ان کے پاس جانا پڑے گا جو یا تو براہ راست مخالف ہیں یا پھر اس وقت پیپلز پارٹی کے اتحادی ہیں۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہت آسان دکھائی دیتی ہے ، اپنی 27 سیٹوں کے ساتھ اسے ایم کیو ایم کے 08 ، عوامی نیشنل پارٹی کے 7 اور ق لیگ کے 4 اراکین کی حمایت حاصل ہے اور یہ تعداد 46 تک پہنچ جاتی ہے ، اس میں اگر موجودہ چھ ا?زاد اراکیں شامل کرلیں تو یہ تعداد 52 تک پہنچ جائے گی ، پھر اگر بی این پی عوامی یا اختر مینگل کی ایک ہی نشست مل جائے تو سادہ اکثریت مل جائیگی ، اگر یہ نہ ملے تو پھر فاٹا کے منتخب ہونے والے 4اراکین میں سے بھی ایک ہی ووٹ چاہیے ہوگا۔اگر تیسرا دھڑا دیکھیں تو تحریک انصاف 6 ، آزاد6 جماعت اسلامی 1 ، بی این پی عوامی2 ، اور بی این پی مینگل آپس میں مل جائیں تو یہ تعداد 16 بنتی ہے اور اس میں فاٹا کے مزید4 اراکین شامل کریں تو تعداد 20 تک پہنچ جائیگی، اس دھڑے کے مشترکا گروپ بننے کے امکانات تو واضح نہیں لیکن یہی وہ لوگ ہیں جو سینیٹ کی چیئرمین شپ میں کلیدی کردار ادا کرینگے۔ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے پیپلز پارٹی نے بھی لابنگ شروع کر دی ہے اسی سلسلہ میں آصف زرداری نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دیئے۔ وہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب تک اسلام آباد میں ہی قیام کریں گے۔
Senate Election
خورشید شاہ، راجہ پرویز اشرف اور رحمان ملک کو سیاسی جماعتوں سے رابطے کا ٹارگٹ مل گیا ہے۔ رضا ربانی، قمر زمان کائرہ اور فرحت اللہ بابر بھی اس حوالے سے لابنگ کریں گے۔پیپلز پارٹی نے ایوان بالا کے دونوں عہدوں کے لئے اے این پی ، جے یو آئی اور ایم کیو ایم سے رابطوں کا فیصلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور ق لیگ سے بھی بات کی جائے گی۔ بی این پی عوامی اور پی این پی مینگل سے بھی ووٹ مانگا جائے گا ۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ سینٹ الیکشن کے نتیجے میں پی پی پی اپنے اتحادیوں کے ساتھ چیئرمین سینٹ کاعہدہ حاصل کرلیگی۔ سینٹ الیکشن اس مرتبہ کیا خوب بہاریں دکھائی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے ایک جنگ شروع کررکھی ہے کچھ”لادینی” اوربعض”بادینی” ہیں۔
موجودہ سینٹ کی 11 مارچ کو مدت ختم ہونے کے بعد کئی بڑے چہرے آئندہ 3 سال تک ایوان بالا میں دوبارہ نظر نہیں آئیں گے ‘ریٹائر ہونے والے اہم سیاسی رہنمائوں میں چیئرمین سینٹ نیئر بخاری’ مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین ‘ عوامی نیشنل پارٹی کے تین اہم رہنما حاجی عدیل ‘ افراسیاب خٹک اور زاہد خان ‘ متحدہ قومی موومنٹ کے بابر خان غوری’ (ن) لیگ کے چوہدری جعفر اقبال اور سردار یعقوب ناصر ‘ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر قانون مولا بخش چانڈیو ‘ سیکرٹری جنرل پی پی پی جہانگیر بدر ‘ صغریٰ امام ‘ گلزار خان اور وقار خان ‘ جے یو آئی (ف) کے رہنما اور مولانا فضل الرحمن کے سمدھی حاجی غلام علی شامل ہیں۔
بلوچستان سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالی خاتون کلثوم پروین نے مسلسل تیسری بار مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہو کر اپنی ”شاندار” ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ‘ کلثوم پروین نے تین بار سینیٹر منتخب ہوکر خاتون رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے بھی نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ کلثوم پروین 2003ء میں پہلی بار (ق) لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئیں ‘ 2009ء میں (ق) لیگ کا زوال ہونے پر کلثوم پروین نے بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کا ٹکٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی اور اب 2015ء میں بی این پی (عوامی) کو چھوڑ کر (ن) لیگ کا ٹکٹ حاصل کرکے ایک بار پھر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئیں۔ اسی طرح راجہ ظفر الحق ، پرویز رشید بھی دوبارہ ایوان بالا کے رکن بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔