تحریر: محمد صدیق پرہار بچے کس کو پیارے نہیں لگتے۔ یہ بات نہیں بچے سب کوپیارے نہیں لگتے۔ بہت سے انسان ایسے ہیں جو دوسروں کے بچوں کو بھی اپنے بچے تصور کرتے ہیں۔وہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ بھی اپنے بچوں کی طرح شفقت سے پیش آتے ہیں۔ اور کچھ سنگ دل ایسے بھی ہیں جو بچوں کو بھی دشمن سمجھتے ہیں یاوہ کسی اور سے دشمنی کاانتقام معصوم بچوں سے لیتے ہیں۔ آج کے اس جدیداور ترقی یافتہ دور میں جب انسانی حقوق کاپرچارکیاجارہا ہے۔ بچوں کے حقوق پربھی بات ہور ہی ہے۔ آج کے اس دور میں کہ انسان کواس کے حقوق کے بارے میں مختلف ذرائع سے آگاہی دی جارہی ہے۔ جوں جوں دور جدید سے جدید ہوتا جا رہا ہے۔ اسی تناسب سے ظلم وستم اور انتقام کے زاویے اور طریقے بھی بدلتے جارہے ہیں۔ اس جدید دور میں بھی بچوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ ایک بچہ برف والے سے برف لینے جاتاہے۔ یہ بچوں کی عادت کہہ لیں یا فطرت کہ وہ برف کے پھٹے پر جو برف گری ہوئی ہوتی ہے وہ اٹھاکر کھانے لگ جاتے ہیں۔ اس بچے نے ایسا ہی کیا تو برف والا بچے کی اس حرکت پر غصہ میں آ گیااس نے بر ف توڑنے والا نوک داراوزاراس دس سالہ بچے کی گردن میں مار دیا۔ جس سے بچہ شہید ہوگیا۔ اس بچے کومنع بھی توکیا جاسکتا تھا۔ اس نے کتنی ہی برف کھالی ہوگی۔ایک اوربچہ کوشیشہ کاگلاس توڑنے کے جرم میں ماردیاگیا۔پشاورمیں آرمی پبلک سکول میںزیرتعلیم کم وبیش ایک سوتیس طلبہ کودہشت گردوںنے شہید کردیا۔وہ یہاں کسی سے دشمنی یاجنگ کرنے نہیں علم کی دولت حاصل کرنے کے لیے آئے تھے۔باجوڑمیں ایک مدرسہ میں ڈرون گراکردرجنوں طلبہ کوجان سے ماردیاگیا۔اٹھارہ جون دوہزارچودہ کے ایک قومی اخبارمیں تونسہ شریف سے خبر ہے کہ محلہ موچیاں والامیں نامعلوم افرادنے ایک نوزائیدہ بچے کاگلادبایااوراس کی گردن میں رسی بندھی ہوئی تھی۔بعد میں اس کوگلی میں پھینک کرفرارہوگئے۔محلہ داروںکی اطلاع پرتونسہ سٹی پولیس نے موقع پرپہنچ کرنوزائیدہ بچے کی نعش اپنے قبضے میں لے کرٹی ایم اے تونسہ کے حوالے کی۔
جنہوںنے بچے کولاوارث قراردے کرسپردخاک کردیا۔تھانہ سٹی کے ایس ایچ اوعاشق حسین خان کھوسہ نے بتایا کہ نوزائیدہ بچے پرتشدد کرنے والوںکی تلاش شروع کردی گئی ہے۔پچیس جولائی دوہزارچودہ کے ایک اورقومی اخبارمیں گجرات اورلاہورسے مشترکہ خبرہے کہ چک بھولاکے رہائشی دس سالہ بچے کے معمولی رنجش پردونوںبازوکپڑے سے باندھ کرپیٹرانجن کے ذریعے کاٹ دیے گئے تھے۔زخمی بچے نے میڈیاکوبتایا کہ میں نومی کے پیٹرپرنہانے گیاتواس نے مجھ پرگرم پانی انڈیل دیا۔سرپربوتلیںماریں۔پھرمجے پکڑکرمیرے بازوکپڑے سے باندھ کرپیٹرانجن میں دے دیے اورمیرے بازوکٹ گئے۔میں زمین پرگرگیا۔بچے کی والدہ نے بتایا کہ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب میاںمحمدشہبازشریف نے چک بھولامیں مقامی زمیندارمصطفی کے دس سالہ بچے کے دونوںبازوکاٹنے کانوٹس لے لیا۔اورڈی پی اوگجرات سے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی۔ جس دن یہ خبراخبارات میں شائع ہوئی اسی دن وزیراعلیٰ شہبازشریف اس بچے کے پاس پہنچ گئے۔ عزیزبھٹی ہسپتال گجرات میں میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ کم سن تبسم شہزادکے ساتھ ہونے والے واقعہ سے بڑاانسانیت کے ساتھ کوئی اورظلم نہیں ہوسکتا۔دس سالہ تبسم شہزادگجرات کے نواحی چک بھولامیں پرائمری جماعت کاطالب علم ہے۔وزیراعلیٰ تقریباً ایک گھنٹہ تک بچے کے پاس بیٹھے اس سے باتیں کرتے رہے۔اس دوران کئی باران کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔
وزیراعلیٰ محمدشہبازشریف نے بچے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ کاش میں تمہارے بازوواپس دلاسکتا۔لیکن ایسا ممکن نہیں۔انہوںنے کہا کہ دنیامیں جہاں سے بھی ممکن ہوااس بچے کے لیے جدیدترین مصنوعی بازئوںکاانتظام کروںگا۔اورجس ملک میں ضروری ہوااسے علاج کے لیے بھیجوںگا۔محمدشہبازشریف نے کہا کہ کم سن بچے کوعمربھرکے لیے اپاہج بنانے والے سفاک شخص کوایسا کرتے ہوئے اپنی اولادکاخیال کیوںنہیں آیا۔ایسے مجرم دھرتی کاناسورہیںاورانہیںجوبھی سزادی جائے کم ہے۔وزیراعلیٰ نے متاثرہ بچے کی عیادت کے موقع پراس کے غم زدہ والدین سے واقعہ کی تفصیلات دریافت کیںجنہوںنے بچے کے کٹے ہوئے بازئوںکی تصاویردکھاتے ہوئے کہا کہ ان کے بچے کے ساتھ انتہائی ظلم ہواہے۔اس کوعمربھرکے لیے معزورکردیاگیا ہے۔اب وہ پڑھائی لکھائی بھی نہیں کرسکتا۔جبکہ وہ پانچویں کلاس کاطالب علم اورپڑھنے لکھنے کاشوقین ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے متاثرہ بچے کے ورثاء کوتسلی دی اوریقین دلایا کہ انہیں فوری انصاف دلایا جائے گا۔انہوںنے کہا کہ معصوم بچے کوعمربھرکے لیے معذورکرنے والاسنگدل اورانسانیت کادشمن کسی رعائت کامستحق نہیں اوروہ کڑی سے کڑی سزاکاحقدارہے۔انہوںنے کہا کہ بچے کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ اوراس کی حالت زاردیکھ کرانہیں شدید صدمہ ہواہے۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمدشہبازشریف نے ضلعی انتظامیہ اورعزیزبھٹی شہیدہسپتال کے حکا کوہدایت کی کہ متاثرہ بچے تبسم شہزادکوعلاج معالجہ کی ہرممکن سہولت فراہم کی جائے۔معذوربچے تبسم شہزادنے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کے ذمہ دارزمیندارکے دونوں بازواور ٹانگیںاس کے سامنے جسم سے جداکی جائیں۔
تاکہ اس کی حسرتیں بھی اسی طرح ادھوری رہ جائیں۔وہ اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے لیے لوگوںکامحتاج رہے۔وزریراعلیٰ نے اس موقع پربچے کے ورثاء کوامدادی چیک بھی دیا۔ دس مارچ دوہزارپندرہ کے قومی اخبارات میں ڈیرہ غازی خان سے خبر ہے کہ پولیس نے معصوم بچوںکودرندگی کانشانہ بنانے کے بعدبہیمانہ قتل کرنے والے سفاک قاتل کوگرفتارکرلیا۔جبکہ ملزم نے ایک بچی سمیت متعدد بچوں کو زیادتی کانشانہ بنانے کا اعتراف کرلیا۔اس سلسلہ میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرغلام مبشرمیکن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ تین روزقبل کوٹ ہیبت کے علاقہ میںمدرسہ کے لاپتہ ہونے والے طالب علم نوسالہ محمدرمضان کے قتل میںملوث ملزم کوگرفتارکرلیاگیا ہے۔ڈی پی اوکے مطابق اس سے قبل ملزم نے دوہزارنومیں ایک معصوم بچی کوزیادتی کے بعد تشددکانشانہ بنانے سمیت دیگرمتعدد بچوںکوبھی زیادتی کے بعد تشددکانشانہ بنانے کابھی اعتراف کرلیا۔اوریہ لڑکپن سے ہی معصوم بچوںکوچھری دکھاکرزبردستی زیادتی کرتا آیاہے۔ڈی پی اوغلام مبشر میکن نے کہا کہ چندروزقبل تھانہ گدائی کے علاقہ سے ایک بچے کی بوری بندنعش برآمدہوئی تھی۔اس واقعہ کے شبہ میںبھی اسی ملزم سے تفتیش کی جارہی ہے۔ تاہم ابھی تک اس کی تصدیق نہیںہوسکی۔ڈی پی اوغلام مبشرمیکن نے کہا کہ ایس پی انوسٹی گیشن سیّدعبدلرحیم شیرازی کی نگرانی میںممبران اے ایس پی سٹی شہبازالٰہی،ایس ایچ اوتھانہ صدرانسپکٹرفیاض احمد،اورانچارج سی آئی اے ملک محمدسلیم ودیگر ملازمان پرمشتمل ٹیم تشکیل اورمشترکہ کارروائی کے دوران ملزم کو گرفتار کرکے اس کے خلاف قتل ، اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔
DPO
ڈی پی او نے ملزم کی گرفتاری کے لیے تشکیل دی گئی ٹیم اور دیگر ملازمان کو نقد انعام اور تعریفی سر ٹیفکیٹ دینے کااعلان کیااور ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے آئی جی پنجاب کوسفارش بھیج دی ہے۔اس سلسلہ میں ملزم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے اورغیراخلاقی فلمیں دیکھ کرمعصوم بچوں سے زیادتی کرتا رہا ہے۔اورگذشتہ کئی عرصہ سے وہ ایسے گھنائونے فعل میں ملوث ہے۔اورقبل ازیں بھی متعدد واقعات میں پکڑے جانے کے بعد پنچائتی فیصلہ کے ذریعے قانون کی گرفت سے آزاد رہا۔ دس سالہ تبسم شہزاد کو وزیراعلیٰ نے مصنوعی بازو لا کر دیے ہیں یا نہیں۔ اس بارے توہماری معلومات کچھ بتانے سے قاصرہیں۔تاہم یہ انتہائی سفاکانہ ظلم ہے۔ اس واقعہ کوآٹھ ماہ کاعرصہ کاگزرچکا ہے۔ یقین کریں کہ اس معذوربچے کی داستان لکھتے ہوئے دل بھرآیا۔یہ تواس کاحال ہے ۔ جس کااس بچے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس کے ساتھ خاندانی یادوستی کاکوئی رشتہ نہیں ہے۔ مسلمان ہونے اورانسانیت کارشتہ ہے۔ اس کی داستان لکھتے ہوئے ہمارادل بھرآیا۔اس کا کیا حال ہوگا جواس کی ماں ہے۔ اس کی کیاحالت ہوگی۔جس کے جگر کاٹکڑاہے۔ وہ شخص کس حال میں ہوگا۔ جس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔اس معصوم بچے کے دونوں بازو کاٹتے ہوئے اس سفاک ظالم کوذرابھی احساس نہیں آیا۔اگرکسی ایک ہاتھ کی ایک انگلی میں بھی دردکرنے لگے زخمی ہوجائے تواس ہاتھ سے اچھی طرح کام نہیں کیا جاسکتا۔جس کاایک ہاتھ زخمی ہودوسرے ہاتھ سے بھی کام اچھی طرح نہیں کیاجاسکتا۔ذراتصورکریں جس طرح اس بچے کے دونوںبازونہیں ہیں۔اگرہم میں سے کسی کے ساتھ ایسا ہوتا توہمیں کیا محسوس ہوتا۔اس وقت ہماری کیاحالت ہوتی۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس بچے کے بازوکاٹنے والے ظالم شخص کے ساتھ کیاکارروائی کی گئی ہے۔تاہم اگراسلامی نظام نافذہوتا تواس کے بھی دونوںبازوکاٹ دیے جاتے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں یوںتوذراسی بات پرآسمان سرپراٹھالیتی ہیں۔یوںتوان کوعورتوں اوربچوں کے حقوق بہت ستاتے رہتے ہیں۔دس سالہ تبسم شہزادکے دوبازوکاٹ دینا انسانیت کے ساتھ انسانیت سوزجرم ہے۔
جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے پھر بھی کم ہے۔اس معصوم بچے کے ساتھ کیے جانے والے سفاکانہ ظلم کے خلاف ہم نے کسی سماجی تنظیم کے بارے میں نہ توپڑھا ہے اورنہ ہی سنا ہے کہ اس نے کوئی ریلی نکالی ہے۔ کوئی سیمنارکیا ہے۔ یاکوئی احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔دراصل بات یہ ہے کہ اس سانحہ میںایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جس سے اسلام یاپاکستان کے خلاف کوئی بات کی جاسکتی ہو۔ڈیرہ غازی خان میں جوظالم پکڑا گیا ہے۔ اس طرح کے کئی ظالم پھررہے ہوں گے۔نہ جانے اس نے کتنے پھولوںکامثلہ ہوگا۔نہ جانے کتنے مائوںکی دل آزاری کی ہوگی۔اس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے میڈیاکوبتایا کہ وہ غیراخلاقی فلمیں دیکھ کرمعصوم بچوں کے ساتھ کرتارہا ہے۔ اب اس کی اس بات پرکوئی توجہ نہیں دے گا۔ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ جوپہلے سکرین پرہوتاتھا اب زمین پرہورہاہے۔اب ان فلموںکوبندکرنے ان پرپابندی لگانے کامطالبہ کوئی نہیں کرے گا۔یہ کوئی نہیں کہے گا کہ اب ایسی فلمیں بنانے والوں، لکھنے والوں، دکھانے والوں اوران میں کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔یہی کام کسی مدرسہ یاکسی مسجدکے ہجرہ میں ہواہوتاتوانسانیت کاپرچارکرنے والوںنے آسمان سرپراٹھا لیناتھا۔
ہرشخص کی زبان پرایک ہی بات ہوتی۔ کہ دیکھیں جی یہ مولوی توہیں ہی ایسے۔اب تک مولویوں کے خلاف نئے سرے سے غیراعلانیہ مہم شروع ہوچکی ہوتی۔یاکوئی مولوی یاکسی مدرسہ کاطالب علم پکڑاجاتا تب بھی یہی صورتحال ہوتی۔اب جس طرح حکومت نے مساجدسے سپیکراتارنے کی مہم چلائی ہے۔ مساجد سے ایک سپیکرکے علاوہ دتما م سپیکر اتروادیے ہیں۔ اسی طرح اس طرح کی فلمیں بنانے والوں کے خلاف بھی مہم چلائے۔غیراخلاقی فلمیں لکھنے والوں، دکھانے والوں اوران میں کام کرنے والوں سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اب ایسی فلمیں بنانے اوردکھانے پرپابندی ہونی چاہیے۔بچوںکودیکھ کرتوویسے ہی رحم آجاتاہے۔یہ کیسے انسان ہیں جوبچوںپرظلم کرتے ہیں۔ہم مسلمان ہیں بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت ہے۔بچوںپرظلم نہ کریں بلکہ انہیں محبت اورشفقت اوراچھی تعلیم وتربیت کاتحفہ دیں۔ہم نے تواپنے ایک کالم میں سکولوں میں بچوں کودی جانے والی جسمانی سزاختم کرنے کی گزارش کی تھی۔
جس کے بعد مارنہیں پیارکاسلوگن آیا۔ اب اس کے ساتھ ساتھ بچوںپرظلم نہیں شفقت کابھی سلوگن ہوناچاہیے۔بچے توپھولوں کی مانندہوتے ہیں ۔ ان سے خوشبولی جاتی ہے۔ کھیلناکودنا اورشرارتیں کرناان کی فطرت میں شامل ہے۔ان کی بچگانہ باتیں سن کرغصہ میںنہیں آجانا چاہیے۔وفاقی اورصوبائی حکومتیں بچوںپرظلم کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کااعلان کریں۔ان ظالموں کے خلاف بھی کارروائی فوجی عدالتوںمیں چلائی جانی چاہیے۔نقصان توبڑوں سے بھی ہوجاتاہے۔ توپھراس وقت غصہ کیوںآجاتاہے جب بچوں سے کوئی نقصان ہوتاہے۔ غصہ کرنے والاکیا یہ بھول جاتا ہے کہ وہ بھی کبھی اسی طرح بچہ تھااوراس سے بھی نقصان ہوجایاکرتاتھا۔مسجداللہ پاک کی عبادت اوراحترام کی جگہ ہے۔جس جامع مسجدمیں میری امامت اورخطابت ہے۔اس جامع مسجدمیں بچے کھیلنے آتے ہیں۔ وہ خوب کھیل کودکرتے ہیں۔ان کے کھیلنے کی وجہ سے مسجدکی دریاں اپ سیٹ ہوجاتی ہیں۔ ہم ان کودرست کرلیتے ہیں مگربچوںکومنع نہیں کرتے۔جمعہ کے دن بچے صحن میں پنکھوں کے لیے لگائے گئے پائپوں کے ساتھ گھوم رہے ہوتے ہیں۔ایک محفل میلادمیں ایک شخص بچوںکوبارباراٹھنے بیٹھنے پرڈانٹ رہا تھا۔ہم نے محفل کے اختتام پرمحفل کے تمام شرکاء سے گزارش کی کہ بچوںکونہ ڈانٹا کریں۔ جب بچے کوئی غلطی کریں توانہیں پیارسے سمجھائیں کہ بیٹایہ کام اچھانہیں ہے اورتم بہت اچھے بچے ہو۔ساتھ ہی اسے انعام کے طورپرحسب توفیق پیسے بھی دے دیاکرو۔بچہ وہ غلطی دوبارہ کبھی نہیں کرے گا۔