تحریر: ڈاکٹر سید احمد قادری بات تلخ ہے، لیکن سچ ہے کہ جس طرح عوام الناس کے درمیان سے ہمارے سیاسئین کا ان کے کردار و عمل سے اعتماد و اعتبار ختم ہو گیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح عہد حاضر میں ہمارے علمأ کرام نے جب سے دینی تعلیمات سے دور ہو کر اپنی انا، خودداری اور دینی و مذہبی تشخص کو فراموش کر عملی سیاست کا حصّہ بننے کی کوشش میں مصروف ہوئے ہیں ، ان کی بھی عزّت، عظمت اور مرتبہ و وقار میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔
یوں تو ادھر علماء کے تعلق سے ایسے کئی واقعات سامنے آ ئے ہیں ،جن کی وجہ کر عام مسلمانوں نے اپنی تضحیک محسوس کی ہے ، لیکن حالیہ دنوں میں سیاست کی گلیوں کا چکّر لگانے والے علماء کے دو واقعات نے مسلمانوں کو بہت زیادہ رسوا کرایا ہے ۔ چند دن قبل اردو کے ایک روزنامہ میں اپنے ایک کالم میں یوگندر یادو نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ” دہلی الیکشن سے ایک دن پہلے امام بخاری کا واقعہ آج بھلے ہی غیر اہم دکھائی دے ، لیکن اس چھوٹی سی کھڑکی سے تاریخ کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے ۔ اچانک جیسے کچھ ہی گھنٹوں میں سیکولرزم کی سیاست بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں داخل ہو گئی۔ جیسے آئین بننے کے 65 سال بعد سیکولرزم کے اصولوں کی اپنی کھوئی سیاست مل گئی۔ واقعہ چھو ٹا سا تھا ۔ الیکشن سے کچھ ہی گھنٹے پہلے جامع مسجد کے نام نہاد شاہی امام بخاری وارد ہوئے ۔ اپنے آپ کو مسلمانوں کا ٹھیکہ دار مانتے ہوئے انھوں نے مسلم رائے دہندگان سے عام آدمی پارٹی کو حمایت دینے کی اپیل کی ۔ ڈرامائی طریقے سے کچھ ہی منٹوں بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اس اپیل کے بدلے اس کی مخالفت کرنے والوں کو متحد ہونے کی اپیل کی ۔ پولورائزیشن اور رد عمل پولورائزیشن کا یہ کھیل نیا نہیں تھا ۔ اس کھیل کے جانکاروں کا ماننا ہے کہ دونوں کھلا ڑیوں میں ملی بھگت رہتی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے غیر متوقع جواب نے اس واقعہ کو نیا موڑ دیا ۔ پارٹی کے ترجمان نے فوراََ ہی ٹی وی پر آ کر اس حمایت کو خارج کر دیا ۔ میری معلومات میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب مسلم ووٹ کو حاصل کرنے والی کسی پارٹی نے امام بخاری کی حمایت کو ٹھکرا دیا۔ ”
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امام بخاری کے ذریعہ مسلمانان دہلی کو دئے گئے سیاسی مشورہ( فتویٰ) کو دلّی کے مسلمانوں کے ذریعہ مسترد کئے جانے کے بعد انھیں جس طرح مختلف بیانات میں ہدف ملامت بنایا گیا ، وہ بہت ہی تضحیک آمیزتھا۔ کچھ ایسی ہی ذلالت اور رسوائیاں 2014 کے عام انتخابات میں بھی ان کے حصّے میں ان کے اپنے بھائی کے ذریعہ دئے گئے ان کے خلاف بیان کے بعد آئی تھیں۔ اپنے بھائی کے ایسے سخت اور بے حد متنازعہ بیان کے بعد لوگوں کو یہ امید تھی کہ اس کے بعد اب احمد بخاری صاحب سیا ست سے پوری طرح کنارہ کش ہو جائینگے۔ لیکن افسوس اتنی ذلّت اور رسوائیوں کے بعد بھی وہ خاموش نہیں بیٹھے ۔ اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد فیض آباد کے مفتی محمد الیاس نے فرقہ پرست جماعتوں کے اعلٰی عہدیداروں اور ان کے پیروں کاروں کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی منعفت حاصل کرنے کے لئے بیان دے دیا کہ ” بھگوان شنکر ہی پیغمبر آدم ہیںاور پاروتی حوا ہیں اور بھگوان شنکر مسلمانوں کے پہلے نبی تھے اور مسلمان بھی سناتن دھرم سے تعلق رکھنے والے ہیں ” ظاہر ہے ایسے متنازعہ اور غیر ذمّہ دارانہ بیان کا بی جے پی اور ان کے ہمنواؤں کی جانب سے خوب خیر مقدم کیا گیا ۔ عام مسلمانوں نے اس بیان کو سرے سے خارج کرتے ہوئے مفتی محمد الیاس کے سلسلے میں ایسے ایسے نازیبا الفاظ کے ساتھ بیانات سامنے آئے کہ باوقار اور اعلٰی ظرف علماء کا سر شرم سے جھک گیا ۔
Muhammad PBUH
حالانکہ علماء کرام کو انبیأ کا وارث قرار دے کر انھیں اتنا بڑا درجہ عطا کیا گیا ہے، کہ وہ امّت مسلمہ کے دینی، سماجی اور ثقافتی و تہذیبی تعلیمات کو فروغ دیں ، تاکہ امّت مسلمہ کے اندر نہ صرف دینی اور دنیوی احساسات و جزبات موجزن ہوں بلکہ ان کے اندر اتحاد و اتفاق، قناعت پسندی، کفایت شعاری، صبر و تحمل ، برد باری ، عدل و انصاف، ہمدردی ، اخوت اور دور اندیشی پیدا کر اشرف المخلوقات ہونے کا جواز پیدا کریں ۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ کے رسول محمدۖ نے یہ بشارت دی ہے کہ انسانوں میں سب سے افضل وہ ہے جو قران سیکھے اور سکھائے۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ قران علم و آگہی کا ایسا سمندر ہے ، جس کے احکام پر چل کر ہم دین و دنیا دونوں کو سنوار سکتے ہیں ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ علما ٔ کرام کی عظمت اور وقار، ان کے دینی علوم کا ادراک و آگہی اوردینی فکر و عمل کی بنأ پر حاصل تھا ، ان کا جاہ و جلال ایسا تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ وقت بھی ان کے پاس اپنی حاجت لے کر آنے میں گھبراتے تھے۔ یہ وہی علمأ تھے ، جنھوں نے انگریزوں کے جبر و ظلم اور استحصال کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج بلند کیا ، جس کے نتیجہ میں انھیں تختئہ دار پر چڑھا دیا گیا ،لیکن ان علمأ نے اُف نہیں کیا ، اوراپنے دینی ، سماجی و ملّی تشخص پر حرف نہیں آنے دیا ۔ آزادیٔ ہند کے لئے اور انگریزوں کی طوق غلامی کو اتار پھینکنے کے لئے حب ا لوطنی کے جزبہ سے سرشار ، پھانسی کو ترجیح دینے والے ان علمأ کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں تھی۔ ان علماء میں سے بہت سارے علماء کو معافی مانگ کر پھانسی کی سزا سے بچ جانے کی ترغیب انگریزوں نے دی ، لیکن ان علماء نے انگریزوں کے سامنے سر نگوں ہونے کی بجائے اپنی انا ، خود داری ، ضمیر ، اور وطن عزیز کی آزادی کو ترجیح دی ۔ اس دور میں شائد ہی ایسی کوئی مثال ہوگی کہ علمأ نے ظالم و جابر حکمرانوں کی کاسئہ لیسی کی ہو، یا رطب السان رہے یاان کی حاشیہ برداری یا مدح سرائی کر ذاتی منفعت کو پسند کیا ۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب ہمارے سامنے مولانا شوکت علی، مولانا جوہر علی، حسرت موحانی، مولانا ابو الکام آزاد ، مولانا حفظ الرحمٰن وغیرہ جیسی عقبری شخصیات نے اپنے قول و عمل اور اپنے کردار و افکار سے ہمارے سامنے ایسی مثالیں چھوڑی ہیں ، کہ آج ہم ان پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھئے ، پورے ملک میں اس وقت ان جیسی شخصیات کا ایسا کوئی ہم پلّہ ہے ،جو ملّی مسائل کے تدارک کے لئے یا دن بہ دن مسلمانوں پر تنگ اور سخت ہوتی زندگی کے خلاف حکومت وقت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ ابھی لوگ بھولے نہیں ہونگے کہ ظلم و زیادتی سے تنگ آ کر جامع مسجد ، دہلی کے امام ( مولانا امام بخاری ) کی ایک آواز پر لوگوں نے حکومت کا تختہ پلٹ دیا ۔ ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب اتر پردیش کی حکومت نے اپنی ریاست کے اسکولوں میں ‘ وندے ماترم ‘ کو ضروری قرار دئے جانے کا فرمان جاری کیا ، تب مولانا علی میاں نے بڑے صبر و تحمل سے صرف ایک جملہ ادا کیا تھا کہ ایسے تمام اسکولوں سے مسلمان اپنے بچوں کو ہٹا لیں ۔ اس ایک جملہ کا یہ اثر ہوا کہ حکومت پر لرزہ طاری ہو گیا اور فی الفور حکومت کے ذریعہ وہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ۔
افسوس صد افسوس کہ آج بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں میں ایک بھی ایسا ہمارا اسلامی اور مثالی رہنما نہیں ، جس کی آواز میں وہ گھن گرج ہوکہ وہ کبھی بولے،تو حکومت دہل جائے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں، اس پر بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ناگفتہ بہہ حالات میں ہماری نگاہ بے ساختہ اپنے علماء کرام پر فطری طور پر اٹھتی ہے، اس لئے کہ ہمیشہ سے ہمارے علماء کرام نے اپنی دینی اور دنیوی تعلیم ، اعلیٰ کردار و عمل، مذہبی افکار و اظہار سے قوم کو راہ دکھانے کا کام کیا ہے ۔ لیکن عصر حاضر میں ہمارے علماء نے ان تمام دینی و مذہبی ترجیہات اور تعلیمات سے دور ہو کر آج کی گندی سیاست کا حصّہ بن کر اپنے ملّی فرائض اور دینی ذمّہ داریوں کو فراموش کرد یا ہے۔مختلف ایوانوں کے انتخابات کے وقت ایسے علما ٔ کرام کا جس طرح سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنما ان کا سیاسی استعمال اور استحصال کرتے ہیں ، وہ ایک الگ تماشہ لگتا ہے۔ مسلمانوں کی داڑھی ٹوپی کو مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے جلسہ ، جلوسوں میں جس انداز سے پیش کرتی ہیں ، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان سیاست دانوں کی نگاہ میں ہمارے شرعی مسلمانوں اور علمأ کی کیا اہمیت ہے۔؟ علمأ ان سیاسیئن کی منظم سازش کا شکار بھی ہو رہے ہیں ۔ پہلے مسلمان کا مطلب مسلمان ہوا کرتا تھا ، لیکن ان سیاست دانوں نے مسلمانو ں کو کئی خانوں میں منقسم کر دیا ہے۔ اختلاف رائے ، اختلاف شریعت میں بدل گئی ۔ امّت مسلّمہ کے دینی اور بنیادی مسائل پس پشت چلے گئے۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس وقت مسلمانوں کو اتنے مسلکوں میںتقسیم کر دیا گیا ہے کہ معصوم مسلمان حیران و پریشان ہے کہ میں کس مسلک کی تقلید کروں ۔ کوئی کہتا ہے آمین زور سے کہو، کوئی کہتا ہے دھیرے سے بولو، کوئی بتاتا ہے کہ تحریمہ سینہ سے اوپر باندھنا جائز ہے، تو کسی نے کہا یہ ناجائز ہے، کسی نے داڑھی کی لمبائی پر زور دیا تو کسی نے ٹوپی کو ضروری قرار دیا وغیرہ وغیرہ جیسے فروعی معاملات میں الجھا کر اور جو بنیادی اور ضروری شرعی احکامات ہیں ، انھیں پس پشت ڈال کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی تعمیر میں مشغول ہیں ۔ دینی و عصری علوم کے لئے قائم مدارس سے ان کی بے توجہی سے بہت سارے مسائل سر اٹھا رہے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث ، ہمارے نوجوان، بے راہ روی اور گمراہی کے شکار ہو رہے ہیں ، تعلیم، صنعت، تجارت اور ملازمت سے بڑھتی دوریاں ، انھیں نہ صرف عدم تحفظ کا احساس کرا رہے ہیں بلکہ احساس کمتری میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ اس وقت ہمارے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ملک کے مختلف جیلوں میں بے گناہی کی سزا کا ٹ رہے ہیں ۔ ملک کا منظر نامہ جو تیار ہو رہا ہے ، وہ امّت مسلمہ کے لئے لمحۂ فکریہ عطا کر رہا ہے۔ لیکن ان مسئلوں سے ہمارے علماء کو کوئی فکر نہیں ۔ ہمارے علمأ ، مفتیان کرام اور رہبران قوم و ملّت کا حال یہ ہے کہ’ شائننگ انڈیا ‘سے بذات خود متاثر ہو کر پورے ملک کے مسلمانوں کو اس کا اسیر بنانے کی اپیل جاری کرتے ہیں ، لیکن انھیں اپنی اوقات کا اندازہ اس وقت ہو جاتا ہے، جب ان کی اپیل کو ملک کے مسلمان پوری طرح مسترد کر دیتے ہیں ۔ ایک امام انتخاب کے زمانہ میں چاندنی چوک میں گھوم گھوم کرامیدوار کی فرقہ پرستی کے داغ کو دھونے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ لال بتّی والی گاڑی پر گھومنے والے ایک عالم دین ایک سیاست داں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے سرکاری رہائش گاہ پرمکر سنکرانتی کے پرب کا دہی چوڑا کھانے میں مصروف نظر آئے ، تو سوشل میڈیا پر خوب لعن طعن کی گئی۔ ابھی ابھی ایک مولانا کو سبکدوشی سے صرف ایک ہفتہ قبل بڑے بے آبرو کر سرکاری کوچے سے نکال کر، انھیں سائرن بجاتی لال بتّی والی گاڑی سے بے دخل کر دیا گیا، اب وہ کورٹ کچہری میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں مصروف ہیں ۔ ابھی عزیزپور( مظفر پور، بہار) میں فرقہ وارانہ فساد ہوا، کئی لوگ ہلاک ہوئے اور سینکڑوں لوگ گھر سے بے گھر ہو گئے، ان کی حالت زار دیکھنے جانے کی بجائے ہمارے امیر شریعت اپنی تعریف میں شائع کرائی گی کتا ب کی رسم اجرأ (سابق اور موجودہ) وزیر اعلیٰ سے کرانے میں مصروف تھے۔
Islamic Scholars
ایسی سینکڑوں مثالیں بھری پڑی ہیں ۔ جو ہمیں نہ صرف شرمندہ کرتی ہیں ، بلکہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ میں یہ قطئی نہیں کہہ رہا ہوں کہ سارے کے سارے علمأ ایسے ہیں ۔ نہیں ، با لکل نہیں ، آج بھی ایسے بہت سارے قابل قدر اور باعث فخر علما ٔ ہیں ، جنھیںلوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ دہلی کے جامعہ نگر تھانہ میں عالم دین مولانا حضرت یٰسین اختر مصباہی کے ساتھ پولیس نے جو زیادتی کی ، اس سے برہم ہو کر ان کی محبت اورہمنوائی میں جس طرح لوگ جوق در جوق سڑکوں پر اترے اور تھانہ کا گھیراؤ کر پولس کو مجبور کیا کہ وہ ہر حال میں مولانا کو رہاکرے ۔ یہ واقعہ اس بات کا گواہ ہے کہ لوگوں کی نگاہ میں ہمارے علمأ کی کتنی قدر و منزلت ہے۔ ایسی عزّت اورعظمت کے لئے اور امّت مسلمہ کے درمیان اعتماد و اعتبار حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے علما ٔ کرام موجودہ گندی سیاست سے دوری بنائیں ، ذاتی مفاد اور عہدہ و منصب کے حصول کے لئے سیاست دانوں کی رطب ا لسانی، مدح سرائی اور حاشیہ برداری کر اپنی عظمت کو داغدار نہ کریں ۔ مدارس کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ اردو زبان کی اہمیت اور افادیت کو فروغ دیں کہ اردو ایک زبان نہیں ، بلکہ پوری ایک تہذیب ہے۔ اپنی مادری زبان سے دوری نہ صرف مذہب و ملّت سے، بلکہ اپنے اقدار اور مثبت امکانات سے دور کئے دے رہی ہے۔
کچھ لوگ امریکہ کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں کے علمأ کا قول و عمل کیسا ہے کہ وہاں بڑی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں ۔ اس کی وجہ جاننے کی میں نے بہت قریب سے کوشش کی ہے اور ابھی میں چند ماہ امریکہ میں گزار کر آیا ہوں ۔ میں نے دیکھا کہ معدودے چند فروعی معاملات کو چھوڑ وہاں کے علمأ بہت سنجیدگی سے بغیر حرص و طمع کے اورکسی کی مدح سرائی اور حاشیہ برداری کے، دینی اصولوں پر خود چل رہے ہیں اور دوسروں کو بھی چلنے کی تلقین کر رہے ہیں ۔ جس کا مثبت اثر یہ ہو رہا ہے کہ وہاں کے مسلمان بہت ساری برائیوں سے دور ہیں اور اپنے قول و عمل سے مثالی مسلمان بن کر اپنی خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کے ایسے ہی مثالی کردار و عمل سے دوسرے مذاہب کے لوگ متاثر ہوتے ہیں ، ان کے اندر تجسس جاگتا ہے اوریہی تجسس ایسے مسلمان ا ور اسلام کا مطالعہ کرنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے اچھا اور سچا مذہب اسلام ہی ہے۔
اگر یہاں بھی ہمارے علمأ ایسے کردار و عمل کا مظاہرہ کریں تو یقینی طور نہ صرف پر ان کی کھوئی ہوئی عزّت وعظمت لوٹ سکتی ہے بلکہ وہ امّت مسلمہ کے راہ رو اور رہبر بن کر بہت ہی مثبت رول ادا کر سکتے ہیں ۔اپنی کوششوں سے مسلمانوں کی نہ صرف دینی بلکہ تعلیمی، سماجی، اور سیاسی رہبری کر سکتے ہیں ، جن کی عہد حاضر کی سیاسی، سماجی، معا شرتی، اقتصادی، دینی اور لسانی منظر نامے میںاشد ضرورت ہے۔ اس پر آشوب دور میں بھی اگر ہم ان بنیادی باتوں پر سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کرتے ہیں تو جیسے حالات بن رہے ہیں ، ایسے میں بہت دیر ہو جائیگی اور پھر ہم کف افسوس ملتے رہ جائینگے۔
Syed Ahmad Quadri
تحریر: ڈاکٹر سید احمد قادری موبائل :91-9934839110 email: squadri806@gmail.com Mob No: 09934839110