تحریر : ایم سرور صدیقی قول و فعل کا تضاد ایسا المیہ ہے جس سے شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے جھوٹ در جھوٹ،لمبی لمبی چھوڑنا، نت نئی کہانیاں، زمین وآسمان کے قلابے ملاکر اپنی بڑائی کا دعویٰ کرنا کتنا عجیب لگتاہے، لیکن اس پر بھی لوگ اتراتے پھرتے ہیں جیسے وہ ایک فریضہ انجام دے رہے ہوں من حیث القوم ہم سب اسی رنگ میں رنگے جارہے ہیں اس سے برا حال ہمارے مذہبی پیشوائوں، قومی رہنمائوں اور لیڈروں اور ان کے حواریوںکاہے جو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کردیتے ہیں کا ش اتنی محنت وہ خلق ِ خداکی بھلائی کیلئے کرتے تو انہیں اجر بھی ملتا اور عوام کی حالت بھی کچھ بہترہو جاتی۔میاں نواز شریف کو لوگوںنے اس لئے بھی چاہا کہ وہ سمجھتے تھے یہ لیڈر دوسروںسے مختلف اور میڈ ان پاکستان ہیں وہ پاکستان کے پہلے اور اکلوتے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر ِ اعظم ہیں عوام کو ان سے جو توقعات وابستہ ہیں وہ بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتیں ان کی کارکردگی بھی اعدادو شمارکے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں
کشکول توڑنے کا دعوے ٰ کرنے والے میاں نواز شریف قرضے لینے میں سرفہرست نکلے وہ تیسری بار وزیر اعظم کے منصب پر فائزہوئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہوںنے اپنے ہر دور حکومت میں غیرملکی قرضے لینے پر انحصار کیا1990ء میں میاں نواز شریف پہلی بار وزیر ِ اعظم بنے انہوںنے اس دوران608ارب کا قرضہ لیا جبکہ دوسرے دور ِ حکومت1999ء میں1389.3ارب قرضہ لیاتیسری باروزیر ِ اعظم بننے کے بعد 2013ء میںمیاں نوازشریف حکومت نے ابتدائی100دنوںکے دوران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ8795ارب لیااس طرح میاں نوازشریف سب سے زیادہ قرض10792.3 ارب لینے والے حکمران کے طورپرہمیشہ یادرکھے جائیں گے۔پاکستان نے غیرملکی قرضے لینے کا آغاز 1973-72 میں ذوالفقارعلی بھٹو کے عہدسے شروع کیا اس دور ِ حکومت میں پہلی بار17.8ارب قرضہ لیا گیا1988ء تک صدرضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد2901.1ارب قرضہ لیا تھا
ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور ِ حکومت میں448.7ارب قرضہ لیا1992ء میں پیپلزپارٹی ایک بارپھر برسرِ اقتدار آئی اب کے بار908.9ارب قرضہ لیا گیاصدرپرویزمشرف نے2007ء تک2610ارب قرضہ لیا جبکہ صدر آصف علی زرداری کے دور ِحکومت میں2013ء تک7637ارب قرضہ لیا اس طرح پیپلزپارٹی کے مختلف ادوارمیں لئے جانے والا مجموعی طورپر 9012.4ارب قرضہ تھابدترین صورت ِ حال یہ ہے کہ پاکستان کوقرضے کے سودکی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینا پڑتاہے یہ قرضے کیوں لئے گئے۔۔کہاںخرچ ہوئے قوم آج تک لاعلم ہے جب بھی ڈالرکی قیمت بڑھتی ہے قرضوںکی رقم میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتاہے غیرملکی قرضے کیسے اداہوں گے ؟ اس بارے آج تک کسی حکمران نے کوئی واضح حکمت ِ عملی نہیں تیارکی البتہ میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دور ِ حکومت1999ء میںقرض اتارو۔۔ملک سنوارو سکیم شروع کی تھی جس میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا
Youth Business Loans Scheme
اس سکیم کا کیا حشرہوا؟ کتنی رقم جمع ہوئی۔۔کہاں خرچ ہوئی ؟ ایک ایسا گورکھ دھنداہے جس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہے نہ کوئی بتانے کو تیار۔۔اس میں کوئی شک نہیں میاں نواز شریف کو لوگوںنے اس لئے بھی چاہا کہ وہ سمجھتے تھے یہ لیڈر دوسروںسے مختلف اور میڈ ان پاکستان ہیں اسی خیال سے انہیں متبادل قیادت سمجھ لیا گیا حالانکہ اس سے بیشتر پنجاب سے کسی کا وزیرِ اعظم بننے کا خیال بھی لانا گناہ سمجھا جاتا تھا۔۔عوام نے تو میاں نوازشریف کو تین بار وزیرِ اعظم بنایا لیکن سوچنے کی بات ہے کہ عوام کو کیا ملا؟ وہی حکمرانوںکا پروٹوکول۔لمبی لمبی کاروںکا جلوس اور شاہی سواری گذرنے کے انتظارمیں خجل خوارہوتے عوام گراں فروشوں کے رحم وکرم پر بلبلاتے ہوئے لوگ۔۔۔ کرپٹ مافیا سے تنگ مہنگائی۔۔ بیروزگاری ،مسائل در مسائل سے دوچار90% آبادی ۔۔۔ وہی چہرے چہرے پر بے سروسامانی ۔۔پھر بدلا کیاہے؟ یہ ظالم نظام ،استحصالی سسٹم ہی ہمارا مقدر کیوں بن کررہ گیاہے تمام مراعات،خوشیاں اور آسودگیاں صرف اشرافیہ کے حصہ میں کیوں آرہی ہیں۔۔۔ میڈ ان پاکستان نے اپنے ہر دور حکومت میں غیرملکی قرضے لینے پر انحصار کیوںکیاہے؟اس طرح ملکی تاریخ میںمیاں نوازشریف سب سے زیادہ قرض10792.3 ارب لینے والے حکمران کے طورپرہمیشہ یادرکھے جائیں گے ہمیں راہزنوں سے گلانہیں تیری راہبری کا سوال ہے
جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہ بھی لکھاجائے گا میاں نوازشریف بھی اپنے پیشرو حکمرانوںکی مانند تھے ان کے دورمیں بھی لوگ غربت کے ہاتھوں خودکشیاںکرنے پر مجبور تھے۔۔وہ بھی اپنے اقتدارکو دوام دینے کیلئے سیاسی طورپر بلیک میل ہوکراپنے حلیفوںکی بات مان جایا کرتے تھے ۔۔۔ تاریخ کے اوراق پر یہ بھی رقم ہوگا ان کاہر دور ِ حکومت روایتی حکمرانی کا مظہر تھا انہوںنے عوام کو دکھ درد سے نجات دلانے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی۔۔۔ چاپلوسی کرنے والے خوشامدی عزت پاتے تھے عوام کا غربت کے ہاتھوںبراحال تھا۔ کوئی ادارہ کوئی محکمہ ،کوئی وزارت۔ ایسی نہیں جس کے بارے میں کوئی بانگ ِ دہل کہہ ڈالے کہ اس کا قبلہ درست ہے۔ اس میں کرپشن نہیں ، اختیارات سے تجاوز نہیں،افسر شاہی کی من مانی نہیں یقینا پورے پاکستان میں ایک بھی نہیں۔۔۔
نہ جانے ہم کس عہدمیں کیسے جی رہے ہیں کوئی سوال کرے کہ صرف پانچ ایماندار افسروں کے نام بتادیں ہمارا سوچ سوچ کر برا حال ہو جاتاہے ۔۔انگلیوں پر شمار کرنا بھول جاتے ہیں اگلا نام کیس کا ہوگا ایسے معاشرے میں سچ کا قحط معمولی سی بات ہے حکمران بھی نہیں چاہتے سچ کا بول بالا ہو وقت سب کچھ رقم کرتا جارہاہے ۔وقت ہاتھ سے نکلا جارہاہے ۔۔کسی کو اندازہ نہیں ۔بے رحم تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔۔ شاید آج تو سوچنا بھی گوارا نہ ہو۔۔دل میں رہ وہ کر خیال آتاہے نہ جانے ہمارے حکمران بھی کیسے حکمران ہیں جنہیں تاریخ سے بھی ڈر نہیں لگتا۔