جمعرات کے روز ایک مرتبہ پھر امید کی شمعیں روشن ہو گئی ہیں، کیوں کہ سائنس دان زمین سے لاکھوں میل دور ایک سیارچے پر اتارے گئے روبوٹ فیلے سے دوبارہ سگنلز وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
زمین سے 460 ملین کلومیٹر دور ایک دم دار سیارے پر اتارا گیا فیلے، اُس وقت ’عالمِ نیند‘ میں چلا گیا تھا، جب اس کی بیٹریاں ختم ہو گئی تھیں اور وہ خود ایک چٹان کی آڑ میں رکنے کی وجہ سے سورج کی روشنی سے اپنی بیٹریاں چارج کرنے سے قاصر تھا۔
جمعرات بارہ مارچ کو اسی امید کے تناظر میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’ویک اَپ فیلے‘ یا ’فیلے جاگ جاؤ!‘ کا ہیش ٹیگ گردش کرتا رہا۔ واشنگ مشین کے حجم کے اس روبوٹ کو ٹھیک چار ماہ قبل اس سیارچے پر اتارا گیا تھا، تاہم سائنس دان اسے اس جگہ نہ روک سکے، جہاں وہ پروگرام کے مطابق چاہتے تھے۔
یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے کے مطابق، اس روبوٹ سے فی الحال کوئی سنگل موصول نہیں ہوا ہے۔ ای ایس اے کے مطابق اگر فیلے سے سیارچے تک لے جانے والے اور اب اس سیارچے کے گرد چکر کاٹنے والے خلائی جہاز روزیٹا تک سگنلز کی وصولی شروع ہو بھی گئی، تو بھی اس میں طویل وقت لگ سکتا ہے۔
روزیٹا مشن منیجر پیٹرک مارٹن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ اس سلسلے میں ’صرف کوشش کی جا رہی ہے‘۔
واضح رہے کہ یہ روبوٹ 12 نومبر کو اس سیارچے پر اتارا گیا تھا اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ 12 تا 20 مارچ کے دوران روزیٹا اور سورج اس سیارچے کے لحاظ سے ایک ایسی پوزیشن پر ہوں گے، جہاں فیلے سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مارٹن کے مطابق اگر اس ہفتے فیلے سے رابطہ نہ ہو سکا، تو اگلے ہفتوں یا مہینوں میں کوشش کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس سیارچے تک پہنچنے کے لیے روزیٹا نے مجموعی طور پر ساڑھے پانچ ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ روزیٹا نے اس سیارچے سے 20 کلومیٹر کی دوری سے فیلے کو سیارچے کی جانب روانہ کیا تھا اور فیلے سات گھنٹوں کے بعد اس سیارچے کی سطح سے ٹکرایا تھا۔ تاہم یہ لینڈنگ ویسی نہ تھی، جیسا منصوبہ بنایا گیا تھا اور فیلے سیارچے کی سطح سے ٹکرانے کے بعد ہوا میں اچھلا اور پھر وہاں جا کر ٹھہرا، جہاں وہ ایک بڑی چٹان کی اوٹ میں تھا۔ اسی چٹان نے فیلے تک روشنی کی ترسیل روک رکھی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ زمین پر سو کلوگرام کا یہ فیلے اس سیارچے کی انتہائی کمزور کشش ثقل کی وجہ سے کسی روئی کے گالے کی مانند ہلکا پھلکا ہے۔