تحریر : بدر سرحدی میدانی علاقوں میں سڑک کی تعمیر،یا ریلوے پٹڑی کا بچھایا جانا آج تو کوئی مشکل نہیں کہ ہرکام مشین کرتی ہے… ،لیکن خیال کریں ڈیڑھ سو سال پہلے جب بار برداری کے لئے خچر اور ٹٹو یا اونٹ استعمال کئے جاتے ،اور ہرکام ہاتھوں ہی سے کرنا پڑتا تھا،تب پہاڑی علاقوں میں کس طرح ریلوے لائن بچائی گئی ہوگی جب انسان کے ہاتھ ہی مشین تھے اخبار میں جب یہ تصویر چھپی کسی ریلوے یارڈ میں مال بردار بوگیاں کھڑی زنگ آلود ہو رہی ہیں …کیا اگر کسی کی یہ زاتی ملکیت ہوتی تب ان کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ….اُسی دن سے وہ بوگیاں میرے اعصاب پر سوار ہیں زرائع سے پتہ چلاکی اب یہ ناکارہ بنا کر…..ریلوے ورکر یونین کی جاری کردہ رپورٹ کتنی بھیانک صورت حال کی غمازی کرتی ہے دسمبر ٠١٤،کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریلوے کے پاس ،٤٩٣،انجن ١٧٨٥،کوچز،١٦٦٣٥،فریٹ ویگن،٥٥٨،ریلوے اسٹیشن،٦،ڈرائی پورٹس ،٥ کنکریٹ سلیپر فیکٹریز،کیرج فیکٹری ،لوکو مو ٹیو فیکٹری ،اسٹیل شاپس ،مغل پورہ شاپس ، اسلام آباد اور رسال پور میں شاپس، پرنٹنگ پریس وغیرہ ،٨،بڑے ہسپتال،٥٧ ڈسپنسریاں ،٣٥ چائلڈ ویلفئیر سینٹرز، ٤،کالج ،١٧ ھائی سکول ،اور بہت کچھ کے علاوہ ،١٦٧٦٩٠،ایکڑ زمین،٦٤٧١٠،ریلوے کوارٹرزاور بے پناہ اثاثے جنہیں بیان کرنے کے لئے دفتر دارکار ہے ،سال ٠١٢ء ،٠١٣ئ،کے دوران ،٤١٩٥٧٠٠٠،مسافروں نے ریل کے زریعہ سفر کیا ،اور ١٠٠١٦٠٠٠،ٹن سامان منتقل کیا ،اِس کی مجموعی آمدنی ،١٨٠٦٩٥٤٠٠٠،روپئے تھی جبکہ اخراجات ١٨٠٦٩٥٤٠٠٠،ہوئے….اب دیکھیں ١٩٥٠ء میں کل آمدنی کے ٥٥،فیصد اخراجات کے مقابلے میں ٢٠١٣ء میں اخراجات ١٩٤،فیصد ہوئے ،١٩٥٠ء میںانتظامی اخراجات ٨٥ فیصدتھے جو اب بڑھ کر کل آمدنی کے ،٥٤.١٥،فیصد سے زائد ہو گئے ۔اس وقت ٨١٠٠٠ ،ہزار افراد کا بلواسطہ اور ٣٠ ،لاکھ سے زائد افراد کا بلا واسطہ روز گار ریلوے سے وابستہ ہے ملک کا ٦٥ ،فیصد رقبہ ریلوے لائنوں سے جڑا ہوأ ہے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران ٧٧٠ ،روٹ کلومیٹر ٣٤٢،ٹریک کلو میٹر ٣٦٩ ،انجن ،٨٠٠ ،کوچز،٧٦١٦،فریٹ ویگن،٣٤٩، ریلوے اسٹیشن ،٣٨٠٠٠، روز گار کے مواقع کی کمی نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم انگریز کے دئے ہوئے نظام کو سنبھالنے اور چلانے میں قطعی ناکام رہے،اور اب اس اہم قومی ادارے کو فروخت کر کے ،انظامی بد عملی،کرپشن،اقرباء پروری ،اور سیاسی مداخلت پر پردہ ڈال کر جان چھڑانا چاہتے ہیں تاکہ ریلوے کو تباہی سے دو چار کرنے والے کرداروں کو ہمیشہ کے لئے تحفظ حاصل ہو جائے ،آزادی کے بھارت نے اپنے ریلوے انفرا سٹرکچر میں ٢٢،فیصد اضافہ کیا جبکہ پاکستان ریلوے اسی نسبت سے تنزلی کا شکار ہوئی …اب یہ ادرا تنی تنزلی کا شکا ر کیوں ِ؟روڈ ٹرانسپورٹ مافیا،انتہائی طاقتور ہے …
ریلوے پوری دنیا میں سب محفوظ اور سستا زریعہ سفر سمجھا جاتا رہا ہے دنیا کی ٦٠ فی صد زمینی تجارت اور ٥٠،فیصد سفر کا یہی اہم زریعہ ہے ریلوے عوامی سہولت کے پیش نظر غیر نفع بخش ادراہ کے طور پر معرض وجود میں لایا گیا ،تو بھی چھٹی دہائی تک یہ اپنے پاؤں پر کھڑا رہا ،کہ عوام کو محض دو پیسہ فی مسافر فی میل کرایہ لیا جاتا رہا ( آج روڈ ٹرانسپورٹ مافیا دو روپئے اور تین روپئے فی کلومیٹر کرایہ عوام سے وصول کر رہا ہے ،اور یہ ریلوے کی بیشتر ٹرینے بند کرا کر خصوصاغریب عوام کو پرائیویٹ ٹرانسپورٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جبکہ ریل محفوظ اور سستا ترین زریعہ سفر تھا )اِس لئے دنیا میں ریلوے ایک عوامی فلاحی اور سماجی کردار کا حامل ادارہ سمجھا جاتا رہا ،لیکن اس کا یہ کردار ٹرانسپورٹ کے عالمی سرمایہ داروں کی راہ میں رکاوٹ رہا ،اس لئے وہ عالمی مالیاتی اداروں کے زریعہ اس کردار کو ختم کر کے مہنگا اور کمرشل کردار کا حامل بنا رہے ہیں جس کے لئے نج کاری ہی واحد زریعہ ہے ٹرانسپورٹ کے عالمی تاجروں کے مسلسل دباؤ کے نتیجے میں ١٩٨٦ء ،میں ورلڈ بنک نے ریلوے سے متعلق ٦، نقاطی پالیسی تیار کی (١)ریلوے کو حاصل ہونے والی Subsidies،کا خاتمہ کیا جائے۔(٢)ریلوے کے کرایوں میں اضافہ کیا جائے ؛(٣)غیر نفع بخش حصوں کو بند کیا جائے۔(٤) اخراجات میں کمی کی جائے۔ (٥)ملازمین کی تعداد میں کمی کی جائے۔(٦)ریلوے کی مکمل نجکاری کی جائے۔
روڈ ٹرنسپورٹ کے مفادات کی تکمیل کے لئے ورلڈ بنک کی طے کردہ پالیسی پر عمل در آمد کے لئے بعض ممالک جو ورلڈ بنک کے محتاج ممالک میں ریلوے کا خسارہ اور بڑھتے ہوئے اخراجات اور بد انتظامی کوجوا ز بنا کر ریلوے کو ملک پر بوجھ قرار دیا جانے لگا یو ں اس کا حل نجکاری قرار پایا ،جن وجوحا ت کی بنا پر ماضی میں ریلوے کو سرکاری تحویل لیا گیا تھا آج پھر اُنہی وجوحات کو جواز بنا کر اسے پھر سے نجی شعبہ کے حوالے کرنے کے پروگرام ہیں ،اِس سے نہ صرف عوام سے ایک اچھی سفری سہولت واپس لی جائے گی بلکہ لاکھوں افراد کا روزگار چھین لیا جائے گا ،(جیسے ١٩٩٧ میں روڈٹرانسپورٹ کارپوریشن کو جبرا نصف صدی کے بعدبند کر دیا اور، ١٤ ،ہزار کارکنوں کا روز گار چھین لیا گیا بلکہ آئندہ کے لئے بھی روزگار کے دروازے بند کر دئے) برصغیر،میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریلوے کا نظام قائم کیا تھا جیسے قومی سلامتی اور عوامی سہولیات کے پیش نظر مطالبے پر ١٩٤٥،میںحکومت ہند نے سرکاری کنٹرول میں لے لیا ، ( ١٩٣٩، میں لاہور میں گرین بس اور نندہ بس دو پرائیوٹ کمپنیوں پہلی بار لوکل بس سروس چلائی تو عوام نے انگریزی سرکار سے مطالبہ کیا کہ اسکا انتظام حکومت اپنے کنٹرول میں لے یہ عالمی جنگ کا دور تھا اس مطالبے کو پزیرائی نہ اور جنگ کے خاتمے پے ستمبر ١٩٤٥ کو انگریز حکومت عوامی مفاد کے پیش نظر تیس پرانی بسوں سے لاہور لوکل بس سروس کا اجرا کیا جو بعد میں اومنی بس سروس کے نام سے چلی اور اگلے سات برسوں میں پورے پنجاب اور پھر مغربی پاکستا ن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا سستا اور محفوظ زریعہ سفر تھا جسے میاں نواز شریف حکومت نے ١٩٩٧ء میں ختم کر دیا ،اور اب ریلوے کی باری ہے اسے بھی نجی شعبہ کے حوالے کرنے کا سفر جاری ہے کہ نہ ہی کوئی عوام میں سے عوام کی حکومت آئے گی نہ ہی اِن عوامی سہولیات کے ادروں کو تحفظ ملے گا ، موٹر ویز پر اربوں خرچ کئے جارہے تو مجھے اس سے مکمل پرائیویٹائزیشن کی تیز بو آرہی ہے ابھی تک کے اقدامات سے ریلوے کی مال بردار بوگیا ں سکریپ میں تبدیل ہو رہی ہیں .. )
Zia ul Haq
٨٦ء ،ہی میں جنرل ضیاء الحق نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی منشاء کے مطابق ڈی ریگولیشن ڈس انویسٹمنٹ اور پرائیوٹائزیشن کی پالیسیا ں اختیار کیں ،اور پھر فری مارکیٹ اکانمی کے تصور نے اس عمل میں تیزی پیدا کی کہ ١٩٩٠ء میں ورلڈ بنک نے ١٠٥،ملین قڑضہ نجکاری کی شرط پر دیا ،جس کے بعد ورلڈ بنک اور آئی ٰیم ایف کے روڈ ٹرانسپورٹ کے فروغ اور ریلوے کے کردارکو محدود کرنے کے منصوبوں پر تیزی سے عمل شروع ہوأ (١) جولائی ١٩٩١،٣٧٤،کلو میٹر براڈ گیج اور ٦١١ ،کلو میٹر نیرو اور میٹر گیج لائن غیر منافع بخش قرار دے کر بند کر دی گئی ( میں نے دیکھا کوہاٹ اور ٹل کے درمیان نیرو گیج لائن بعض مقامات پر دفن ہوگئی ہے،اور میں سوچتا ہوںکہ مستقبل میں جب کبھی کھدائی میں ایسی کوئی پٹڑی نکلی تو لوگ دیکھنے آئیں اور پھر محققین تحقیق کریں گے کہ یہ کیا چیز ہے ….)(٢)بھرتی پر پابندی عائد کر دی گئی خالی پوسٹوں کو ختم کر دیا گیا ، (٣)٣٠٠،سے زائد ریلوے اسٹیشن بند کر دئے،اور ٧٨،خسارے میں چلنے والی ٹرینوں کو بند کر دیا گیا (٤)اخراجات میں کمی کے بہانے ملازمین کو دی جانے والی مراعات میں کمی کر دی گئی
(٥)اگست ١٩٩٢ء لاہور فیصل آباد سیکشن اور فروری ١٩٩٣ء کو لاہور نارووال سیکشن ٹھیکے پر دے دئے گئے اور پھر نقصان اٹھاکر واپس لئے ،ریلوے کی مکمل نجکاری کے حوالے سے مارچ میں سیکرٹری جاوید برکی نے رپورٹ پیش کی جس کی اپریل ١٩٩٧ میں مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری لی گئی ،ایک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی جس کے سربراہ نے ١٩٩٩ کو ریلوے کی نجکاری کا سال قرار دیا ،جاوید برکی کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ،مختصر مدتی اقدامات کے تحت بند کئے گئے سیکشن کے اثاثہ جات کی فروخت ، ٢١، ٹرینیںبند کرنے اور ٹرینوں کے سٹاپ کم کرنے کے اقدامات کئے گئے تھے،درمیانی و طویل مدتی اقدامات کے تحت ریلوے کی کور اور نان کور سرگرمیوں کو الگ کر کے فروخت کا پرو گرام بنایا …ریلوے کی ٢٥٠٠٠، ایکڑ زمین کی فوری فروخت کا عمل شروع کیا گیا ،اس حوالے سے ٩ بند سیکشنوں کے اثاثے فروخت کئے گئے،
کل ٢١٨، غیر منافع بخش پسنجر ٹرینیںبند کی ،میل اور ایکسپریس ٹرینوں کے ١٦٨، سٹاپ ختم کئے گئے اور ریلوے کو تین پبلک لمیٹڈ کمپنیوں،پی بی یو،ایف بی یو ،اور آئی بی یو،میں تقسیم کر دیا،جس کی وجہ سے افسران کی تعداد میں اضافہ ہوأ،نج کاری کے اس عمل کے خلاف ریلوے کی تمام یونینز نے متحد ہوکر ،ریل مزدور اتحاد ، قائم کیا اور نجکاری کے خلاف جد جہد کرتے ہوئے آخر میں پہیہ جام کی ہڑتال کی کال دی ،تو صدر رفیق تارڑ نے ریلوے کی نجکاری ختم کرنے کا اعلان کیا ،مشرف دور میں ریلوے کی ترقی کے لئے خطیر رقم دی گئی تاہم ورلڈ بنک کی پالیسی پر بھی عمل جاری رہا،اور آج بھی …اِن دو سیاسی جماعتوںسے کوئی توقع رکھنا عبث ہے البتہ تیسری قوت ریل بچاؤکا نعرہ لگائے تو بچنے کے امکانات ہیں،