تحریر: قرة العین ملک لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں کے باہر خودکش دھماکوں کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 15 افراد کی جان کی بازی ہار گئے 77 افراد زخمی ہو گئے جبکہ جائے وقوعہ پر 2 مشکوک افراد کو مشتعل مظاہرین نے تشدد کا نشانہ بنا کر اور آگ لگا کر ہلاک کر ڈالا، مشتعل افراد کی طرف سے زبردست توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں سینیٹ جونز اور کرائسٹ چرچ کو اس وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جب وہاں دعائیہ تقریب جاری تھی۔
پہلے گولیاں برسائی گئیں پھر یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں نے 15 سے 20 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا، دونوں عمارتوں میں 400 افراد تھے، پولیس اہلکار اور سیکورٹی گارڈ حملہ آوروں کو نہ روکتے تو زیادہ نقصان ہوتا۔ اس دوران مشتعل افراد نے پولیس کی گاڑی پر پتھراؤ کیا اور امدادی کارروائی سے روکے رکھا اور سیکورٹی فورسز نے دو مشکوک افراد کو پکڑ ا تو وہاں موجود مشتعل افرا د نے نے فیروزپور روڈ پر پولیس کی موجودگی میں 2 افراد کو زندہ جلا دیا۔ مظاہرین کے غم و غصہ کی وجہ سے پولیس خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ پولیس کی موجودگی میں عوام نے دونوں جوانوں کو شدید زد و کوب کیا اور ان پر لکڑیاں ڈالیں پھر ان پر پٹرول ڈال کر ان کو زندہ جلا دیا۔ مرنیوالے دونوں اشخاص چیخ و پکار کرتے رہے اور کہتے رہے کہ ہم بے گناہ ہیں ہم پر ظلم نہ کرو لیکن پولیس کی موجودگی میں یہ دونوں افراد آگ لگنے کے باعث جھلس کر زندگی کی بازی ہار گئے۔مظاہرین نے میٹرو بس سروس روڈ پر پتھرائو اور توڑ پھوڑ کرکے بس سروس معطل کردی اور بس سروس کے کئی جنگلے توڑ دیئے۔
سانحہ یوحناآباد لاہور کیخلاف ملک بھر میں مسیحی برادری سراپا احتجاج ہے ،واقعہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں۔آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کہتے ہیں کہ واہگہ بارڈر، پولیس لائنز اور یوحنا آباد خود کش دھماکوں کی ذمہ داری ایک ہی تنظیم نے قبول کی ہے۔ گرجا گھر دھماکوں میں پولیس اہلکاروں کی غفلت کا تاثر درست نہیں ہے۔ پولیس اہلکاروں نے حملہ آوروں کو چرچ کے اندر جانے سے روکا۔ اگر حملہ آور چرچ کے اندر جاتے تو زیادہ نقصان ہوتا۔ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ واہگہ بارڈر، پولیس لائنز اور یوحنا آباد خود کش دھماکوں میں مماثلت ہے۔ تینوں حملوں کی ذمہ داری ایک ہی تنظیم نے قبول کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی خلاف جنگ سب کی مشترکہ ہے ۔یو حنا آبا د میں خو د کش دھماکو ں کی خبر نشر ہو تے ہی پورا شہر غم میں ڈ و ب گیا۔
Protest
اتوار کی تعطیل یوم سو گ میں بدل گئی آئر لینڈ کیخلا ف پا کستان کی فتح بھی چہروں پر کر ب دور نہ کر سکی یہ سانحہ ہر پا کستانی کو رلا گیا یو حنا آبا د کی آبا دی ایک لا کھ سے زائد ہے اور یہ ملک میں مسیحی بر ادری کی سب سے بڑی بستی ہے یہا ں کے لو گ امن اور محبت کے سوا کو ئی زبان نہیں جانتے پوری مسیحی بر ادری کی وطن سے لازوال محبت کے مظا ہر ے کئی بار دیکھے گئے سانحہ پشاور پر مسیحی بھائیو ں نے اپنی کر سمس بھلا دی اور پوری قو م کے سا تھ ہم آواز ہو گئے گزشتہ روز کے حملو ں سے ان پر غم کا پہا ڑ ٹو ٹ پڑا تا ہم دکھ کی اس گھڑی میں بعض عنا صر نے احتجاج کی آڑ میں ایسا کھیل کھیلا جو دہشتگر دی کا شکار ہو نیوالے خاندانو ں کے ساتھ کسی ظلم سے کم نہیں دو افر اد کو مشکو ک قر ار دیکر تشدد کا نشانہ بنا یا گیا اور پھر جلا دیا گیاان کی شنا خت ہو نا ابھی با قی ہے ،بالفر ض اگر یہ دہشتگردو ں کے ساتھی تھے تو انھیں ہلاک کر کے اس گروہ تک پہنچنے کے سارے راستے بند کر دئیے گئے تا ہم اگر وہ عام شہر ی تھے تو انھیں اس طر ح مو ت کے گھا ٹ اتارنا بھی دہشتگر دی ہے ہجوم کو ہدایا ت کون دے رہا تھا اس کا پتہ چلا نا بھی ضرور ی ہے کیو نکہ لو ٹ مار اور تو ڑ پھو ڑ کی فو ٹیج میں کئی چہرے ایسے خو ش دکھا ئی دے رہے تھے جیسے کو ئی کارنامہ انجام دے رہے ہو ں۔
یہ دہشتگر دی کا ایسا واقعہ ہے جس کی دو نو ں پہلو ؤں سے تحقیقات ہو نی چا ہیے اول۔خو د کش حملہ آور کیسے ہدف تک پہنچ گئے انھیں روکا کیو ں نہیں جا سکا ،دوم۔حملے کے بعد امدادی کارروائیو ں کے بجا ئے مار دھا ڑ اور لو ٹ مار میں کو ن ملو ث تھا انھیں روکا کیو ں نہیں گیا۔لاہور میں پچھلے آٹھ سال کے دوران دہشت گرد 20 سے زیادہ حملے کر چکے ہیں جن میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ حساس اداروں کے دفاتر کے علاوہ ماتمی جلوسوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لاہور کو مارچ 2008ء میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جب ملک دشمنوں نے جی پی او چوک میں خود کش حملہ کرکے 24 افراد کو شہید کر ڈالا۔ 4 مارچ 2008ء کو نیول وار کالج پر حملے میں 8 افراد جاں بحق ہوئے اور اسی سال ایف آئی اے کی بلڈنگ اور حساس ادارے کی عمارت پر حملے خود کش حملوں میں 24 افراد ہلاک ہوئے۔ 2009ء میں بھی شہر لاہور دہشت گردوں کی زد میں رہا اور 3 مارچ 2009ء کو لبرٹی چوک میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کو نشانہ بنایا گیا۔ 5 مارچ کو مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملے کے بعد 16 افراد شہید ہوئے۔ 27 مارچ کو ملک دشمنوں نے ریسکیو 15 کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ 12 جون کو گڑھی شاہو میں جامعہ نعمیہ پر خود کش حملہ ہوا جس میں ڈاکٹر سرفراز نعمیی سمیت 8 افراد لقمہ اجل بنے۔ 15 اکتوبر کو مناواں پولیس سکول، ایلیٹ ٹریننگ سنٹر بیدیاں اور ایف آئی اے کی عمارتوں کو بیک وقت دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جس میں 18 افراد شہید ہوئے۔ 2009ء میں ہی مون مارکیٹ اقبال ٹاون میں 50 زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے۔ 2010ء میں بھی لاہور میں دہشت گردی کے متعدد واقعات ہوئے۔ 8 مارچ کو ماڈل ٹائون میں حساس اداروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 17 ہلاکتیں ہوئیں۔ 12 مارچ کو آر آے بازار میں قیامت صغریٰ بپا ہوئی جس میں 64 افراد موت کے آغوش میں چلے گئے۔ یکم جولائی کو داتا دربار میں 55 افراد مارے گئے۔ یکم ستمبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی یوم شہادت پر خود کش حملہ میں 35 افراد شہید ہوئے۔ 2011ء کی 25 جنوری کو چہلم امام حسین کے ماتمی جلوس کو نشانہ بنایا گیا جس میں متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ 2012ء میں لاہور ریلوے سٹیشن کے باہر دھماکا میں 5 افراد ہلاک جبکہ 2013ء میں پرانی انار کلی فوڈ سٹریٹ میں 5 شہری شہید ہوئے۔ 2 نومبر 2014ء کو واہگہ بارڈر پر حملہ میں 73 افراد جاں بحق جبکہ 17 فروری کو پولیس لائنز قلعہ گوجر سنگھ میں 7 افراد شہید ہوئے۔ یوحنا آباد کے نزدیک چرچ پر خودکش حملہ صرف مسیحی کمیونٹی نہیں بلکہ پورے پاکستان پر حملہ ہے جس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہےـ
Pakistan Terrorism
قومی ایکشن پلان پر عمل در آمد سے وطن عزیز میں جاری دہشتگردی کی لہر میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور انشاء اللہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب پیارا وطن پاکستان مکمل طور پر امن و سلامتی کا گہوارہ بن کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ دہشتگردی ،شدت پسندی کے مکمل خاتمے اور امن و سلامتی کے قیام کیلئے قوم حکومت اورپاک فوج کے شانہ بشانہ ہے اور وہ اپنی بہادرو غیور فوج کو سلام پیش کرتی ہے جو بیرونی دشمنوں کیساتھ ساتھ اندورونی ملک دشمن دہشتگردوں سے بھی نبردآزما ہیں۔ حکومت نے ایسے نازک حالات میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے جو اہم اقدامات اٹھائے ہیں اس پر پاکستانی قوم کی تمام ترہمدردیاں حکومت کے ساتھ ہیں اور حکمران کسی بھی خوف و خطر کو بالاطاق رکھتے ہوئے دہشتگردی کایکسر قلع قمع کریں یہی پوری قوم کی آواز اور مطالبہ ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میںفتح پاکستان کی ہو گی’ دہشت گرد انسانیت اور امن کے دشمن ہیں وہ معصوم لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔