تحریر : شاہ بانو میر یہ قریبا دو سال پہلے کی بات ہے جب 4 اگست کے پروگرام میں میرے بھرپور اصرار پر ناروے کی مایہ ناز صاحبِ طرز مصنفہ محترمہ شازیہ عندلیب صاحبہ میرے ہاں تشریف لائیں ٬اسی دن میری پیاری استاذہ جی محترمہ عفت مقبول صاحبہ بھی انگلینڈ سے تشریف لائیں اور پروگرام کی مہمان ِخصوصی جناب سفیرِ پاکستان کی بیگم محترمہ فرح غالب اقبال صاحبہ تھیں ٬ پروگرام کی خاص بات میری کتاب کی تقریب رونمائی تھی ٬ قرآن پاک سے جُڑ کر پتہ چلا کہ اس کا حرف حرف آج سے قیامت تک سچا ہے٬ اس میں درج ہے کہ جب جب بندہ اپنی عام زندگی اور گناہو ں سے تائب ہو کر اللہ کی جانب بڑہےگا ٬ شیاطین خواہ کسی بھیس مین بھی ہوں اسے خوب پریشان کریں گے ٬ کہ وہ اس راستے کو چھوڑ کر دنیا کے فسق و فجور میں پڑ جائے ٬ یہی امتحان لیتا ہے اللہ اپنے پیاروں کا جو تو کامیاب ہوگیا وہ فلاح پا گیا ٬ اور جو اللہ کے ان فاسقوں کے پھیلائے ہوئے جال سے ڈر کر گھبرا کر ان سے جا ملا یا نیت ترک کر کے واپس ہو لیا تو زندگی اور آخرت دونوں میں بس آہ و بکاہ ہی کرتا رہے گا٬ 13 اگست کی رات ہم نے سارا گھر صاف ستھرا کیا کہ صبح استاذہ جی اور شازیہ جی آ رہی ہیں ٬
صبح 6 بجے شازیہ کو لینے ائیر پورٹ جانا تھا ٹھیک ساڑھے 5 بجے میرے چھوٹے بیٹے کو پہلی بار ایپی لپسی کا اٹیک ہوا٬وہ لمحہ زندگی بھر نہیں بھولوں گی ٬ جب وہ پھول سا بچہ تڑپ رہا تھا جھٹکے کھاتا ہوا اس کا جسم کسی بھی ماں کیلیۓ امتحان سے کم نہیں تھا٬ الحمد للہ اس قرآن پاک کے قربان جاؤں اب گھبراہٹ پریشانی نہیں ہوتی٬ کیونکہ سبق پڑھ لیا کہ ہر آزمائش اللہ کی طرف سے اپنے پیاروں کیلیۓ آتی ہے٬لہٰذا مسکرانا ہے اور آگے بڑہنا ہے٬ تو بات ہو رہی تھی بیٹے کی ٬ بڑے سکون سے اس کے سنبھلنے کا انتظار کیا 2 سے 3 منٹ میں اس کا اٹیک ختم ہوا تو ہونٹوں سے نکلنا والا معمولی بلڈ صاف کیا٬ اور ایمرجنسی کال کی ٬ دس منٹ میں وہ لوگ آگئے آکر بچے کو چیک کیا اور فوری طور پے ہسپتال لے گئے٬ اس دورانیہ میں فکر صرف یہ تھی کہ شازیہ کے لینے جانا تھا ٬
اب کیا کروں بہر کیف استاذہ جی باعث رحمت ثابت ہوئیں ان کی ایک معاون بھی اسی فلائٹ میں آ رہی تھیں شازیہ ان کے ساتھ آگئیں ٬ بچہ ہسپتال تھا ٬ گھر میں بچوں کا اصرار تھا کہ آپ پروگرام کیسنل کریں٬ہمارے لئے یہ نھنا بچہ فرشتوں جیسا ہے بےضرر کیونکہ بول نہیں سکتا٬ سب اس کی تکلیف کو دل میں محسوس کر رہے تھے٬ میں نے بہت سوچا قرآن پاک کی سنی ہوئی تفسیریاد آگیی کہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں چلنے والوں کیلیۓ دنیا ہی نہں دینی لوگ بھی مسائل کھڑے کریں گے٬ دل کو کڑا کر کے کہا کہ نہیں پروگرام تو ہوگا کیونکہ شازیہ اتنی دور سے آ رہی ہیں ٬ استاذہ جی تشریف لا رہی ہیں٬ ایمبیسیڈر صاحب کو او کے کیا ہوا ہے٬ دوسرے دن پروگرام تھا ٬ پروگرام ہوا ٬ شازیہ ہمراہ تھیں ٬ صرف میں اور میرا خدا جانتے تھے کہ کیسے پروگرام ہوا٬ پاکستان کیلیۓ بہت مشکل حالات میں لکھا ٬ لیکن شائد اس سے صبر آزما گھڑی کوئی اور نہیں ہوگی٬ میرے بچےّ مجھ سے شدید ناراض تھے٬
Shahbano Mir
شازیہ میرے گھر اس دوران قیام پزیر تھیں ٬ بہترین طبیعت کی مالک نرم و ملائم کومل حساس سی یہ خاتون ایسے گھل مل کر بچوں کے ساتھ رہیں کہ لگا ہی نہیں کہ فرسٹ ٹائم آئی ہیں٬ اگر بیٹا ہسپتال نہ ہوتا تو ان کے ساتھ گزرا وقت کچھ اور طرح کی حسین یادیں لئے ہوئے گزرتا لیکن اس کی وجہ سے نہ تو میں وہ خاطر مدارت کر سکی ٬ نہ ہی ویسے گھوم پھر سکے٬شازیہ کی نماز کی پابندی خضوع و خشوع اللہ پاک سے محبت کی انتہاء دیکھ کر مجھے نجانے کیوں رشک آ رہا تھا٬ خاندان اور اچھا خاندان کیا ہوتا ہے؟ یہ کسی انسان کے ساتھ وقت گزار کر پتہ چلتا ہے ٬ زبان کی شائستگی گفتگو کا معیار سوچ کی سطح افسوس وتا ہے پاکستان کے اکثر لوگوں پر بہترین تعلیم ہوگی ٬ اچھے حسب نسب کے مالک ہوں گے٬ لیکن ذرا بات ان کے مزاج کے خلاف ہو یا مفاد پرستی پر مبنی کوئی اجتماعی کھیل کھیلنا ہو٬ ُخدا کا خوف جیسے ان کے اندر سے ان کے اسلام کی طرح نکل ہی جاتا ہے٬ دنیا کو اپن ہمیشہ کا ٹھکانہ سمجھنے والے یہ ظالم لوگ نجانے کس خوش فہمی کا شکار ہو کر اپنے وجود کو مزید فسق سے مرصع کر کے آخرت کیلیۓ جہنم کو خوش کر رہے٬ ایسے انسانوں میں پرسکون مسکراتے ہرے کے ساتھ خوشگوار انداز میں جب جب بولے تو پھول جھڑیں ٬
یہ ہیں شازیہ عندلیب تحریروں میں سفر نامے کی جانب رجوع زیادہ ہے٬ بہترین انداز میں ممالک کو شہروں کو اور عمارات کو یوں بیان کرتی ہیں گویا کہ آپ وہیں موجود ہوں٬ پرسکون طبیعت کے ساتھ ہر قسم کے ادبی ذق رکھنے والے حقیقی لکھاریوں کا دل سے ادب کرتی ہیں٬ کسی کیلیۓ طنز یا پھبتی نہیں کستیں ٬ شکوہ بھی کرنا ہو تو لازم ہے شعور اس پر مکمل طور سے کاربند ہیں٬ شازیہ کیلیۓ یہ چند حروف ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے کیلئے ناکافی ہیں٬کیونکہ ان کی شخصیت بہت قابل قدر خوبیوں کا مجموعہ ہے٬ میری خوش نصیبی کہ موجودہ دور میں جب ہر تعلق ہر رشتہ مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا کچھ دو کچھ لو کے اصول کے تحت مصنوعی مسکراہٹوں کا تبادلہ صرف اپنے اپنے کامیاب اہداف کے حصول کی حد تک رہ گیا ہے٬ ایسے میں یہ نفیس کومل سادہ سا وجود اللہ کی قدرت کا حسین پیکر لگتا ہے
٬لالچ سے پاک حسد سے عاری اپنے کام اور گھر میں مکمل طور سے آسودہ حال زندگی کو اللہ کی دی ہوئی قیمتی نعمت سمجھ کر لمحہ لمحہ شکر ادا کر کر کے گزارنے والی اس دور میں یورپ میں بہت الگ بہت منفرد ہے٬ شازیہ دکھ کی گھڑی میں میرے ساتھ قدم با قدم رہ کر مجھے حوصلہ دلاسہ دے کر ماتھے پے شکن لائے بغیر میرے بچے کی فکر کرنے والی یہ بہن یہ دوست یہ عزیزہ یہ ہمدرد ہمیشہ کیلیۓ میرے بچوں اور میرے دل میں اپنے انمٹ نشانات ثبت کر کے محفوظ ہو گئی ٬ سلامت رہیں آپ جیسی درمکنون ادب کیلیۓ سرمایہ گرانقدر ہے