تحریر : بدر سرحدی سانحہ پشاور میں گرجہ گھرپر ٢٢،ستمبر ٢٠١٣،پر مضمون لکھا،جو بیشتر اخبارات میں شائع ہوأ سو پہلے اس سے اقتباس ”گزشتہ دھائی سے پاکستان کی تاریخ خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے سرخ ترین ہے یہ حملے روز کا معمول رہے اور کوئی ایسی جگی یا مقام نہیں جہاں حملے نہیں ہوئے ماسوئے مسیحیوں کے گرجہ گھروں کے،امام بارگاہیں ،مساجد،مزارات،جنازے کے اجتماع،زائرین پر،٢٢،دسمبرموضیع شیر پاؤ میں عید الاضحی کے مقدس اجتماع پر خود کش حملہ …….غرض کوئی مقام ان کی دستبرد سے باہر نہیں بے شک ایجنسیاں وزارت داخلہ کو مطلع کرتی ہیں ،امن و امان کے کے زمہ دار ادارے اُن کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے کی بجائے دفائی پوزیشن پر آجاتے ہیں اور وہ اہنے ٹارگٹ کونشانہ بنا لیتے ہیںحکومت سامنا کرنے کی بجائے دفائی پوزیشن اختیار کر لیتی ہے ،اُن کا ایجنڈا ہے ھکومت سامنے آئے ،دشت گرد تھنک ٹنک نے تمام حربے استعمال کئے ،
مگر …آخرش فیصلہ کیا گیا کہ چرچ پر حملہ کیا جائے تاکہ دنیا میں حل چل مچ جائے ،سو اس کے لئے ٢٢،ستمبر کا دن مقرر کیا گیا اس کی خاص وجہ UNOکا سالانہ اجلاس جس میں دنیاکے ڈیڑ ھ سو ممالک کے سربراہ بیٹھے ہیں وزیر آعظم میاں نواز شریف بھی اجلاس سے خطاب کریں گے جو کچھ میا ں صاحب نے اجلاس میں کہنا تھا اس کا بھی انہیں علم تھا ،جس کا جواب پہلے امریکی صدر اوبامہ نے اپنی تقریر مین دیا جسے ٢٥ ،ستمبر کے اخبارنے اپنی پیشانی پر چھ کالمی سرخی سے سجایا امریکی صدر نے کہا ”….خود مختاری کی آڑ میں عالمی برادری ظالموں کے ہاتھوں قتل ِعام پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی …..(.اس میں بہت کچھ واضح ہے)..””مزید لکھا گرجہ گھر پر خود کش حملہ نے دنیا کو ہلا دیا ملک کے تمام دینی و سیاسی راہنماؤ ںنے مسیحیوں سے اظہارِ یکجہتی کے ریلیاں نکالیں اورشدید ترین الفاظ میں دہشت گردوں کی مذمت کی امیر جماعت الدعوة پروفیسر سعید احمد نے کہا”بھارت پاکستان میں انتہا پسندی اور تخریب کاری پھیلا رہا ہے چرچ حملے میں بھی اس کا ہاتھ ہو سکتا ہے ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کچھ طاقتیں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی سازش کر رہی ہیں….”پروفیسر صاحب فکر کی کوئی بات نہیں ہم خود ہی کافی ہیں
جہاں تک ملک کو دہشت گرد قرار دینے کا تعلق ہے سوملک میں پھیلی جہادی تنظیں یہی کام تو کر رہی ہیں ،سب یہی کہتے ہیں مگر خیال رہے کہ خام مال یہاں سے وافر مقدار میں دستیاب ہے ورنہ سات سمندر پار سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے محض سات سو گورے یہاں صرف ڈھائی ہزار دیسی سپاہ سے 1757ء میں پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ کی پچاس ہزار سپاہ کو شکست نہ دے سکتے، اور پھر جنوب کی طرف بڑھے اور ٩٩، میں شیر میسور سلطان ٹیپو کو شکست دی ،چرچ پر حملہ اُسی سلسلہ کی کڑی ہے اور گرجہ گھروں پر مزید حملے ہونگے ،پھر اٹھارہ ماہ کی تیاری کے بعد یوحنا آباد میں بیک وقت دو بڑھے گرجہ گھروں پر حملے یہ اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں، لیکن بمبار دئیے گئے وقت کو بھول گئے اور بیس منٹ پہلے دھماکے کر دئے ،ساڑھے گیاہ بجے گرجہ گھر کے بڑے دراوازے کھول دئے جاتے ہیں ،دونوں گرجہ گھروں میںکم و بیش دو ہزار کی تعداد میں لوگ ہوتے ہیں اگر وقت پر دھماکے ہوتے تو بہت بڑا نقصان ہوتا مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا ،بیس منٹ پہلے دونوں بمباروں نے خود کو اُڑا دیا، مزید گرجہ گھروں پر حملے ہونے کے امکان کو ردنہیں کیا جا سکتا ،پشاور گرجہ کے دھماکے کے اٹھارا ماہ بعد لاہور میں دو گرجہ گھر ٹارگٹ پر تھے اب ان کے ماسٹر مائنڈ اگلے ٹارگٹ کے لئے کہ کہاں ہوگا کی منصوبہ بندی کریں گے ،واہگہ بارڈر پر ہونے والے دھماکے پر لکھا کہ یہ دشت گرد اپنی کمین گاہوں سے نکل کر قوم کی آستینوں میں چھپ گئے اور جب چاہتے ہیں نکل کر کاروائی کر دیتے ہیں ،
Pak Army
ہماری افواج پہاڑوں اور غاروں میں انہیں ختم کرنے کے لئے کاروائی کر رہی ہیں،اِس کے علاوہ ملک بھر میں اُن کے سہولت کا رپھیلے ہوئے ہیں اب یوحنا آباد میں کہا ں سے اور کیسے پہنچے یہ سب سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا ، …. اب بمبار کو تیار کرنے میں وقت لگتا ہے ،پہلے یہ فیکٹریا ں وزیرستان میں تھیں اب وہاںبمباری سے اندروں ملک میں پھیل گئی ہیں دہشت گرد تنظیم ایک یا دو چار انکا ایجنڈا دنیا کے لئے انتہائی خطر ناک ہے ،پاکستان دشمن ملک ایک ہے یا دو جو اِن تنظیموں کی پشت پر انہیں استعمال کر رہے ہیں یا یہ اُن کے آلہ کار ہیں ، یہ اب مساجد یا مزارات کو نشانہ نہیں بنائیں گے کہ اِن پر حملو ں سے دنیا پر کوئی اثر نہیں ، اگر تو یوحنا آباد میں اِن حملوں سے وہ مقصد حاصل نہ ہوأ تو دنیا میں ہلچل مچانے اور مقصدکے لئے ضروری ہوگا کہ پھر کہیں ایسے ہی دو تین بڑے چرچزجو ملک میں مختلف مقامات پر ہوں گے بیک وقت حملے کئے جائیں گے کہ زیازہ سے زیادہ لوگ متاثر ہوں ، ایجنسیوں کو ان خطوط پر چل کر اُن کی حکمت عملی کوناکام کرنا ہے اب دنیا میں ہلچل پیدا کرنے میں کیا حکمت عملی ہے ، اِس وقت دنیا میں دو ہی بڑے دھڑے مسلم اور مسیحی ان میں تصادم کرانا، دنیا میں اکثر یت مسیحی ممالک کی گو کہ بیشتر برائے نام مسیحی ہیں انہیں مشتعل کر نا کہ سامنے آئیں اورعالمی جنگ شروع ہو ، جذبہ جہاد سے سر شار دنیا کو فتح کرنا تاکہ زمین پر اسلام کے علاوہ دوسرا مذہب نہ رہے ،
مقام فکر ہے کہ پاکستان ہی ان کا تارگٹ کیوںان کی حکمت عملی کا دوسرا پہلو ہے کہ پہلے پاکستان کو فتح کرنا،کہ یہاں ان کی حمائت موجود ہے دوسرے سامان حرب ضرب اور ہر قسم کے وسائل ملیں گے جن سے دنیا کا مقابلہ کرنے میںمدد ملے گی خدا نہ کرے اگر ایسا ہوگیا تو یہ دنیا کی تباہی پر منتج ہوگا ، سانحہ پشاور سے جو مسلم مسیحی یکجہتی دیکھنے میں آئی تھی سانحہ یوحنا آباد سے ایک اور خطر ناک صورت حال پیدا ہوئی ہے، خدا خیر کرے ….
چار ہزار سال قبل .مسیح ، حضرت نوح کے وقت دنیا کے نیست و نابود کرنے کے لئے زمین پر پانی کا طوفان آیا جب آسمان کے دریچے کھل گئے چھاگلوں پانی برسا اور سمندر کے سوتے پھوٹ گئے چالیس دن تک پانی برستا رہا اور پھر خشک ہونے کے لئے زیادہ وقت لگا مگر اب ایسا نہیں ہوگا محض چالیس سیکنڈ میں ہر زی روح نیست ہو جائے گی کوئی نہیں بچے گا جو یہ بتائے کیا ہوأ کیسے ہوأ،