سرینگر (جیوڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مقامی تنظیم ’’وائس آف وکٹمز‘‘ نے بے گناہ عوام خاص طور پر نوجوانوں کے خلاف بھارتی فوج اور پویس کی چیرہ دستیوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوری 2005 سے جنوری2015تک سرینگر، بارہمولہ، سوپور، شوپیاں، پلوامہ، ترال، کولگام، اسلام آباد اور دیگر علاقوں سے ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر کے شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پرامن مظاہروں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور انہیں گرفتار کر کے تھانوں، جیلوں اور تفتیشی مراکز میں پہنچا دیا گیا اور جو نوجوان ہاتھ نہیں آتے تھے ان کے بدلے اُنکے والدین کوگرفتارکیا جاتا اور جب اپنے والدین کو چھڑانے کیلئے نوجوان خود کو پولیس کے سپرد کرتے تو اُنہیں شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔
تشدد کے باعث کئی نوجوان عمر بھر کے لیے معذور ہو چکے ہیں۔ پانچ ہزار سے زائد نوجوانوں کیخلاف بے بنیاد مقدمات درج کے گئے جبکہ نوجوانوں کی رہائی کے بدلے ان کے والدین سے منہ مانگی رقوم بٹور لی گئیں۔ سینکڑوں نوجوانوں کا تعلیمی مستقل تباہ ہو گیا۔ بھارتی فوج اور پولیس کے غیرانسانی سلوک اور تشددسے درجنوں نوجوان اس قدر تنگ آگئے کہ وہ مجاہدین کے گروپوں میں شامل ہونے پر مجبور ہو گئے اور بعد میں بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں شہید ہوگئے۔
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے تشدد مخالف اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت نے اگرچہ سال 1997ء میں اس اعلامیے پر دستخط کئے ہیں لیکن اسکے باوجود اس نے اپنی فورسز کو نہتے کشمیریوں پر تشدد کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیرکو پولیس سٹیٹ میں تبدیل کیا گیا ہے۔