انٹرا کشمیر ٹریڈ یا چکی

Saarc Conference

Saarc Conference

تحریر : بشیر بخاری
سارک کانفرنس میں سارک ممالک بہت لمبے عرصے تک اس بحث میں الجھے رہے کی ایسا کون سا اقدام اٹھایا جائے جس کی بدولت سارک ممالک کی عوام کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکے کافی سوچ بچار اور بلعموم سنٹرل ایشیاء کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اور بالخصوص انڈو پاک کے درمیان ہر وقت سرد جنگ کی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام سارک ممالک اس بات پر متفق ہو گے کہ تمام ممالک کے درمیان دوستانہ روابط کو بڑھانے کے لیے سب سے بہتر راستہ ٹریڈ و تجارت کا ہی ہے اس نقطے کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے سارک کے دو اہم ممالک انڈیا اور پاکستان نے ٹریڈ و تجارت کے لیے بیک چینل سی بی ایم تیار کرنا شروع کر دیا جس کی روشنی میں بلآخر انڈیا اور پاکستان نے واہگہ بارڈر کراچی کے بعد کشمیر کے دو حساس مقامات کو ٹریڈ کراسنگ پوائنٹ کے لیے ختمی شکل دے کر دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں کے لیے آسان روابط اور معاشی لحاظ سے بہتری کے لیے مئی2008 کو چکوٹھی سرینگر اور تیتری نوٹ چکندا باغ پونچھ ٹریڈ کا آغاز کر دیا ان دو مقامات پر ٹریڈ کراسنگ پوائنٹ کے چنائو کا ایک مقصد یہ تھا کہ آئے روز کنٹرول لائن پر دونوں ممالک کے درمیان جو کشیدگی رہتی تھی نہ صرف اس کو کم سے کم تر کیا جا سکے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف بسنے والے کشمیری عوام کی معاشی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اور با عزت روز گار کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی تھا۔

لیکن بد قسمتی سے انٹرا کشمیر ٹریڈ کے جو مقاصد تھے وہ کسی زاویے سے بھی پورے ہوتے نظر نہ آئے حالانکہ شروع شروع میں دونوں ٹریڈ پوائنٹس پر آر پار اعتماد میں کمی کے باوجود ہر دو اطراف بسنے والے ٹریڈرز کا کاروبار منافع بخش چلتا رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹریڈ پوائنٹس ٹریڈ سی بی ایم میں موجود آئٹم پر ہر دو اطراف کی مجاز اتھارٹیز کی طرف سے بلا جواز پابندیوں نے ٹریڈ اور ٹریڈرز کا معاشی گلا گھونٹنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ٹریڈ کو بار بار بندش کا سامنا کرنا پڑا اس بار بار کی بندش نے ٹریڈرز کی معاشی کمر کو توڑ کر رکھ دیا جس کی وجہ سے پھر ایسے لوگ بھی اس ٹریڈ میں گھس گئے جن کا نہ تو ٹریڈ سے کوئی تعلق تھا اور نہ امن و نفع سے جن کا مقصد صرف اور صرف دونوں ممالک کے درمیان امن کے عمل کی اس کڑی کو سبو تاج کرنا تھا اس لیے ان لوگوں نے کچھ نقصان زدہ چیزوں کو اپنا مہرہ بناتے ہوئے کبھی منشیات اورکبھی جعلی کرنسی و ممنوع اشیاء کو ٹریڈ کراسنگ پوائنٹ سے آر پار کرنے کی کوشش کی ان چھپے چہروں کی وجہ سے جہاں ٹریڈ اور ٹریڈر کو نقصان پہنچا اس سے کئی گناہ زیادہ ملک کے وقار کو ٹھیس پہنچی۔

لیکن اس سارے منظر کے پس منظر میں بہت سے سوالات نے بھی جنم لیا کہ آخر ٹریڈ پوائنٹس پر ممنوع اشیاء کی سمگلنگ کا سارا ملبہ پاکستان پر ہی کیوں ڈالا جاتا رہا ہے اس سوال کو تھوڑی سی باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ واضع ہو جاتا ہے کہ اگر ٹریڈ میں اس طرف سے کوئی ممنوع آئٹم کراس ہوتی یا کروانے کی کوشش کی جاتی ہے تو لازم بات ہے کہ سرحد کے اس پار بھی کچھ لوگ ہیں جو اس ممنوع آئٹم کی ڈیمانڈ کرتے ہونگے دوسرا اہم نقطہ چونکہ اس ٹریڈ میں جہاں پاکستانی پیداواری آئٹم کو بین کیا ہوا ہے وہاں افغان،ایران اور امریکہ کی گری بادام کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے جو کہ پاکستان میں ڈالر کے اعوض آتی ہیں اور دوسری طرف انڈیا کو کیلے کی مد میں چلی جاتی ہیں جس سے نہ صرف پاکستانی معشیت کو بری طرح جھٹکا لگتا ہے بلکہ اس سے روزگار کے مواقعوں کے باوجود ٹریڈرز قرض و کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کے باوجود امریکن گری ،کابلی کاٹھا،بادام،ایرانی چائنہ سیب،آسٹریلین گری بادام،دوبئی کے کارپٹس کالین،اور دیگر بے شمار ممالک کی اشیاء اس ٹریڈ کی زینت بن کر رہہ گئیں جبکہ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ افغانستان کو کین وغیرہ کی پیداواری جڑ ہے اور یہ کوکین افغانستان سے کسی بھی آئٹم کے اندر پیک ہو کر آ سکتیں ہیں۔

India

India

اس بات کو اگر اس تناظر میں دیکھیں کہ افغانستان میں انڈیا اپنے پنجے گاڑھنے کے چکر میں ہے اور وہ خود وہاں بیٹھ کر اس ٹریڈ کے زریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی سہی کر رہا ہے تو کچھ غیت معتدل بات نہ ہو گی تیسری اہم بات یہ سوچنے کی ہے کہ آخر ایسا ہی کیوں ہوتا ہے کہ جب انڈیا میں امریکن صدر یا پھر الیکشن آتے ہیں تو ہی انڈیا کے زیر انٹرکراسنگ پوائنٹ پر ہی کوکین برآمد ہو جاتی ہے اگرچہ دونوں ممالک کی ٹریڈ اتھارٹی کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ ہر دو اطراف کراسنگ پوائنٹس پر وہیکل سکینرز کا اہتمام کریں اور ان تمام لوگوں کی بھی سکیورٹی کریں جو انڈر انوائیس کام کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے ٹریڈ میں موجود CBM ایگریمنٹ لسٹ میں مرتب اکیس آئٹم پر پابندی برقرار نہ رہے کیونکہ جب ٹریڈ میں موجود آیٹم کو وسط ینے کے بجائے بین کیا جاتا رہے گا تو پھر دو میں سے ایک بات یقینی ہو جائے گی ایک یہ کہ ٹریڈ کا ٹریڈ کرنا ممکن نہیں رہے گا اور دوسرا یہ کہ پھر منفی سوچ کے حامل افراد ہر دو اطراف سے ٹریڈ اور ملکی وقار کو دائو پہ لگائیں گے ان دونوں صورتوں میں بچنے اور انٹرا ٹریڈ کشمیر کو بچانے کے لیے دونوں ممالک کے فارن آفس ،وزارت تجارت،ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی کو ٹریڈ میں موجود بے جا بندشوں خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنا ہو گا اس کے ساتھ ہر دو اطراف وہیکل سکینرز نصب کر کہ بعد کی مزمت اور شرمندگی سے بچنے کی کوشش کرنا ہو گی۔

اب جب کہ جوائنٹ چیمر آف کامرس انٹرا کشمیر ٹریڈ نے ٹریڈ اتھارٹی کو پیشکش بھی کر دی ہے کہ ٹریڈ فیسیلیٹیشن سنٹر پر ہم خود وہیکل سکینر نصب کروا دیتے ہیں تو اب ٹریڈ اتھارٹی کو بھی چائیے کہ وہ اس آفر سے فائدہ اٹھائے تا کہ مستقبل قریب و بعید میں انٹرا کشمیر ٹریڈ میں ممنوع اشیاء کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے یا پھر روکنے میں مدد لی جا سکے ساتھ ساتھ مجاز اتھارٹی اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ جن ٹریڈرز نے اپنی انوائیس پر ایک عرصہ سے تجارت نہیں کی ان کو فوری بین کرے اسطرح کنٹرول لائن کے اس پار جو لوگ نمبر گیم میں ٹریڈر ز کا معاشی قتل کر رہے ہیں ٹریڈ اتھارٹی ٹریڈرز سے معلومات لے کر کنٹرول لائن کے اس پار مجاز ٹریڈ اتھارٹی کو انہیں اس معاشی قتل سے روکنے کا کہے اگر یہی موجودہ صورت حال برقرار رہی تو اس صورت میں ٹریڈ اور ٹریڈرز دونوں کا بچنا محال ہو جائے گا جس سے امن اور معشیت دونوں کو جھٹکا لگنے کا خدشہ برقرار رہے گا۔

کیونکہ جہاں ایک طرف CBM لسٹ آئٹم پر آئے روز آری چل رہی ہو اور دوسری طرف کنٹرول لائن کے اس پار کے کمشن ایجنٹس چار لاکھ مالیت کے کیلے کی ایک گاڑی کی کراسنگ پر ایک لاکھ انڈین کرنسی معاوضہ طلب کرتے نظر آتے ہوں تو پھر ایسی صورت میں ٹریڈ اصلی ٹریڈرز کے ہاتھ سے نکل کر کوکین جعلی کرنسی شراب اور ممنوع آئٹم کے مکروہ دہندہ کرنے والوں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائے گا لحاظہ دونوں اطراف کے حکام بالا اور مجاز اتھارٹیز کو چائیے کہ وہ CBM لسٹ میں موجود آئٹم بین کردہ روز مرہ آئٹم پر سے پابندی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ لسٹ میں ٹریڈ اور ٹریڈرز کی سہولت کے لیے مذید آئٹم کا اندراج بھی کرے اس سلسلے میں ہر دو اطراف مجاز اتھارٹیز انٹرا کشمیر ٹریڈ جوائنٹ چیمر آف کامرس اور ٹریڈ یونینز سے تجاویز بھی طلب کر سکتی ہے وگرنہ انٹرا کشمیر ٹریڈ ٹریڈرز کے لیے ٹریڈ کم اور چکی کے دو پاٹ زیادہ ثابت ہو گا جب کے چکی کے دوپاٹوں میں پھر ٹریڈ نہیں بلکہ پسنا مقدر بنتا ہے اور یہ پس جانا در حقیقت پھر صرف ٹریڈرز کے حصے میں آتا ہے اور اگر ٹریڈر ہی پس جائے تو پھر امن، معشیت، روزگار و ٹریڈ کیسا۔

Bashir Bukhari

Bashir Bukhari

تحریر : بشیر بخاری