تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال آج 21 مارچ کو دنیا بھر میں جنگلات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جنگلات کی معاشی، ماحولیاتی اور زرعی اہمیت کا تعین کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی اسمبلی میں جنگلات کا عالمی دن منانے کی قرارداد پیش کی گئی اس دن کے منانے کا مقصد جنگلات کو ترقی دینا۔ جنگلات اور اس سے حا صل ہو نے والے فوائد سے معاشرے میں شعور اجا گر کرنا ہے۔جنگلات کے کٹائو سے ہونے والے نقصان کی آگاہی دینا ۔میرا تعلق کسووال سے ہے سنا ہے کہ کبھی میرے قصبہ کے قریب بھی جنگل ہوا کرتا تھا جو اب جھاڑیوں میں تبدیل ہو چکا ہے” جنگلات ہمارا قومی ورثہ” کے عنوان سے چودھری عبدلرزاق چیچہ وطنی کے معروف صحافی،کالم نگار لکھتے ہیں۔
چیچہ وطنی جنگلات ملک کے بڑے جنگلات میں سے ایک ہے جو11500 ایکڑ پر مشتمل ہے یہ جنگل قدرتی طور پر 1918میں صرف 5 کلو میٹر تک محیط تھا اسے 1923میں توسیع دیناشروع کی گئی اس جنگل میں کیکر شیشم کے درختوں کی بڑی تعداد ہوا کرتی تھی جو ملک بھر میں فرنیچر سازی کے لئے بہت مشہور تھیں ملک کے دوسرے شعبوں کی طرح آمرانہ اور مارشل لا ادوار محکمہ جنگلات پر بھی اپنے برے اثرات چھوڑ گئے ٹمبر مافیا اور محکمہ جنگلات کے عملے نے اس قومی ورثے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور آہستہ آہستہ درختوں کی کٹائی جاری رہی جس سے اربوں روپے مالیت کی لکڑی اونے پونے داموں فروخت کردی گئی۔محکمہ جنگلات کے ریٹارڈ اور حاضر سروس ملازمین کے گھر جانے کا اتفاق ہوتو ان کے گھر میں موجود فرنیچر اور گھر میں کروایا ہوا لکڑی کا ورک اپنی داستان سناتا نظر آئے گا۔غرضیکہ ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والا جنگل کنگال کر کے رکھ دیا اور کسی بھی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ جنگلات کو جھاڑیوں میں تبدیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی۔
گزشتہ چند سال میں جنگلات کا رقبہ ساٹھ فیصد سے کم ہو کر تیس فیصد رہ گیا ہے ۔جنگلات کی روز بروز کمی کے باعث اوزون کی تہہ باریک ہوتی جارہی ہے اورزمین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔اس لئے جنگلات کے تحفظ کے لئے تحریکیں چلائی جارہی ہیں ۔جنگلات نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند اور جانوروں کی بقاء کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ملک کی متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بیس فیصد رقبے پر جنگلات ہوں۔لیکن سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کا صرف لگ بھگ پانچ فیصد جنگلات پر مشتمل ہے ۔ جبکہ غیر سرکاری حلقوں کے مطابق پاکستان کے پاس صرف تین فیصد جنگلات باقی ہیں۔ ان میں سے بھی ہر سال قریباً اکتالیس ہزار ہیکٹر جنگل غائب ہو رہا ہے ۔ اس میں آگ، کیڑے مکوڑوں اور نباتاتی بیماریوں کا قصور صرف چھ فیصد ہے ۔ بقیہ94 فیصد جنگل کی صفائی کے ذمہ دار کمرشل اور نان کمرشل، قانونی و غیر قانونی انسانی ہاتھ ہیں۔
پاکستان میں دیگر مسائل کے علاوہ جنگلات کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے ۔ جنگلات کی کمی ہونے کی وجہ سے روز بروز آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ تو دوسری طرف ٹمبر مافیا بھی اپنا کردار نبھانے میں سرگرم ہیں۔ جنگلات میں کمی کرنے میں ٹمبر مافیا خاطر خواہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ جنگلات کی قیمتی لکڑی کو مفت اور چوری کاٹ کر بازاروں میں جا بیچتے ہیں۔ ٹمبر مافیا کی ان حرکات کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ لہٰذا اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹمبر مافیا کو روکنے کیلئے حکومت سخت قانون بنائے (قانون تو موجود ہیں ان کا نفاذ یقینی بنائے) جنگلات جنگلات کسی بھی ملک کی معیشت کا لازمی جز ہیں۔ملک کی متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات ہوں۔جنگلات قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔پاکستان میں جنگلات کاکل رقبہ 42,240 کلومیٹر ہے جوکہ05.31% بنتا ہے پاکستان میں جنگلات کا رقبہ اس لئے بھی کم ہورہا ہے کہ یہاں پر جنگلات کو بے رحمانہ طریقے سے کاٹا جارہا ہے ۔ مکانات کی تعمیر کے لئے جنگلات کی زمین کو استعمال کی جارہا ہے اور پھر ہر سال دریا بھی کٹائو کا کام کررہے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جنگلات کے اگانے کے لئے مزید زمین مختص کی جائے اور درختوں کی غیر ضروری کٹائی کو بند کیا جائے۔
Forests
جنگلات ملک کے اہم وسائل میں سے ایک ہیں اور یہ اس ملک کی عمارتی لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔جنگلات زمین کی زرخیزی قائم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔جنگلات درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھتے ہیں اور اطراف کے موسم کو خاص طور پر خوشگوار بناتے ہیں۔جنگلات سے حاصل شدہ جڑی بوٹیاں ادوایات میں استعمال ہوتی ہیں۔جنگلات جنگلی حیات کا ذریعہ اورسبب ہیں۔بے شمار جنگلی جانور یعنی شیر، چیتا، اور ہرن وغیرہ جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔جنگلات جلائے جانے والی لکڑی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔جنگلات زمین کے حسن و دلفریبی میں اضافہ کرتے ہیں۔جنگلات بہت سے وسائل کا ذریعہ اور ماخذ ہیں۔مثلاً جنگلات سے حاصل کردہ لکڑی فرنیچر، کاغذ، ماچس اور کھیلوں کا سامان تیار کرنے میں استعمال ہوتی ہیں۔جنگلات پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کو تیزی سے پگھلنے سے روکتے ہیں اور زمین کے کٹائو پر بھی قابو رکھتے ہیں۔جنگلات انسانوں اور قدرتی نباتات کو تیز رفتار آندھیوں اور طوفان کی تباہی اور بربادی سے محفوظ رکھتے ہیں۔جنگلات فضاء میں کابن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے کیوں کہ ا نہیں خود اس گیس کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لیے لازمی ہے ۔بھیڑ، بکری، اونٹ جیسے حیوانات اور سینکڑوں جنگلی جانور اپنی غذا ان ہی جنگلات سے حاصل کرتے ہیں۔جنگلات تفریحی مقامات کے کام آتے ہیں اور لوگ ان کے خوبصورت ان حسین مناظر سے لطف اندوزہوتے ہیں۔جنگلات مختلف اقسام کے جانوروں اور پرندوں کی افزائش اور نشونما کا ذریعہ بنتے ہیںپاکستان کے معروف صحافی علی عمران شاہین(ایڈیٹر ہفت روزہ جرار)اپنے کالم میں اس حوالے سے لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کردہ عظیم ترین نعمتوں میں ایک بڑی نعمت جنگلات بھی ہیں۔ اللہ نے اپنے بندوں کے لئے بنائی عالیشان جنت میں باغات اور نبانات کا خصوصی ذکر ملتاہے ۔لمبے اور گھنے سائے والے درخت ،ان کے سائے اور ان سے پیدا ہونے پھلوں اور میوئوں کو اللہ نے جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں میں بیان کیا ہے۔
انسان آج انہی درختوں کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے ،جی ہاں!وہی درخت اپنے قاتل اسی انسان کی بے شمار ضروریات پورا کرتے ہیں۔اگر ان نباتات کو زمین سے خارج کیاجائے و انسانی زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں ۔یہی درخت جہاں ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں، وہیں ہوا کو صاف رکھنے ، آندھی اور طوفانوں کا زور کم کرنے ، آبی کٹاؤ روکنے ، آکسیجن میں اضافے اور آب و ہوا کا توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی موجودہ دور کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے تودرخت ہی اس پیچیدہ مسئلے کا ایک اچھا اور آسان ترین حل ہیں۔اب ہمارے جنگلات صرف بمشکل تک4فیصد رہ گئے ہیں۔اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ملک میں اب وہ سلسلہ وار بارشیں بہت حد تک ختم ہو کر رہ گئی ہیں،جن پر ہماری زراعت کا سب سے زیادہ انحصار تھا۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت نے دریائے راوی کا پانی مکمل بند کر دیا تو علاقہ بنجر ہو گیا تو دوسری طرف ایک رپورٹ کے مطابق لاہور شہر میں چند سال میںلگ بھگ 40 ہزار درخت کاٹے گئے جس سے اب لاہور کاماحول ہی بدل چکا ہے اور پانی کی سطح خوفناک حد تک نیچے جا رہی ہے ۔ حکومت کو بھارتی آبی دہشت گردی کے سدباب کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں ان مٹتے جنگلات کو بچانے کی فوری تدبیرکرنی چاہیے ۔پاکستانی قانون میں اگرچہ کاغذات کی حد تک جنگلات کے کٹائو کے خلاف پابندی بھی عائدہے ، لیکن اس کی کسی کو پروانہیں۔اصل میں جنگلات کے کٹائو ،اور ان درختوں کے جو نہروں ،دریائوں،سڑکوں کے کنارے لگائے جاتے تھے ،وہ افراد ہی ملوث ہیں ،جو ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں ، پاکستان کے جنگلات اور ملک کے باقی درختوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔و زیر اعظم جناب نواز شریف کے ساتھ چاروں وزرائے اعلیٰ سے عالمی یوم جنگلات کے موقع پر گزارش ہے کہ اس مسئلے کا بھی فوری نوٹس لیں ۔زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی مہم چلائی جائے اس سلسلے میں عوام کو بھی بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔